وائی فائی کیا ہے اور اس کا مستقبل کیسا ہو گا؟

انالیہ لورنتے - بی بی سی نیوز، ورلڈ سروس


وائی فائی
معاف کیجیے گا، کیا آپ مجھے وائی فائی کا پاس ورڈ دے سکتے ہیں؟

اگر آپ نے کبھی یہ سوال کسی سے نہیں پوچھا یا آپ سے نہیں پوچھا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ آج کی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔

لیکن چلیں اگر ہم ابتدا سے اس کا ذکر شروع کریں تو وائی فائی سنہ 1997 میں مارکیٹ میں ایک ایسے نظام کے طور پر متعارف ہوا جو کسی مخصوص جگہ یا علاقے میں انٹرنیٹ تک بغیر تار کے رسائی کا ذریعہ تھا۔

وائی فائی کا لفظ وائی فائی آلائنس آرگنائزیشن سے آیا ہے لیکن اب یہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اسے رائل سپینش اکیڈمی کی ڈکشنری میں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

لیکن اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ جیسا کہ کمپنی کے بانی اراکین میں سے ایک فل بیلنجر نے انکشاف کیا کہ یہ مارکیٹنگ کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔

یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ وائی فائی آئی ای ای ای 802.11 کے معیار پر مبنی ہے جو کہ انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز یعنی انجینئرز کی ایک عالمی تنظیم کے تخلیق کردہ وائرلیس رابطوں کا ایک نظام ہے۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر تکنیکی شعبوں میں معیار اور ترقی کے لیے کام کرتی ہے۔

اور تقریباً پچھلے 25 برسوں سے وائی فائی نے اپنی ٹیکنالوجی میں مسلسل بہتری لاتے ہوئے معاشرے میں رابطوں کے طریقوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

امریکی یونیورسٹی آف سیان ڈیاگو میں سینٹر فار وائرلیس کمیونیکشن کے ڈائریکٹر سوجیت ڈے کہتے ہیں کہ ‘وائی فائی کا سب سے بڑا اثر اور فائدہ انٹرنیٹ تک مساوی رسائی ہے۔ تصور کریں کہ اگر دنیا صرف سیلولر یا سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ ترقی کرتی تو صرف امیر ہی اسے استعمال کر سکتے تھے۔’

وائی فائی تک سب کی رسائی اس لیے ممکن ہے کیونکہ یہ ایک غیر لائسنس یافتہ سپیکٹرم پر مبنی ہے۔

پروفیسر ڈے اس پر تجزیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب ہے کہ کوئی اسے کنٹرول نہیں کرتا، یقیناً اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات اس کی سروس کا معیار برا ہو سکتا ہے۔ کیبل نیٹ ورک کے مقابلے میں یہ کسی بندھن سے آزاد مفت نیٹ ورک ہے۔ وائی فائی کے بغیر دنیا بھر میں لاکھوں لوگ کسی بھی طرح کی انٹرنیٹ رسائی سے محروم رہتے۔‘

وائی فائی

لیکن وائی فائی معاشی اثرات کو بھی جنم دیتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانک انجینئرز میں اسٹینڈرڈز ایسوسی ایشن کی رکن ڈوروتھی سٹینلی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اس کے معاشی اثرات ’کئی ارب ڈالر سالانہ ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی اثر ہے۔ میرے خیال میں کنیکٹیویٹی کے لوگوں پر ہونے والے اثرات کو کم شمار کرنا مشکل ہے۔‘

وائی فائی الائنس کے اندازوں کے مطابق سنہ 2022 تک تقریباً 18 ارب وائی فائی فعال آلات استعمال میں آئیں گے۔

وائی فائی کی عالمی اقتصادی قیمت کا تخمینہ 2021 میں 3.3 کھرب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ ایک ٹیلی کام تحقیق کے مطابق سنہ 2025 تک اس کے 4.9 کھرب امریکی ڈالر ہونے کی توقع ہے۔

وائی فائی نے اپنے صارفین کو زیادہ موثر، قابل بھروسہ اور محفوظ کنکشن، ہائبرڈ یا دور دراز رہ کر کام کرنے کے لیے گھر اور کمپنیوں میں پیچیدہ کنیکٹیویٹی سسٹم اور انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) کے پرجوش مطالبہ کرنے والوں میں بھی بدل دیا۔

ایک ایسی دنیا جو تیزی سے جڑتی جا رہی ہے، ہم خود سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس کنیکٹیویٹی کا مستقبل کیا ہے؟ انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے وائی فائی کے بعد کیا آتا ہے؟

نیٹورک

نیٹ ورکس کے نیٹ ورک تک رسائی

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ وائی فائی پچھلی دو دہائیوں میں ترقی یافتہ دنیا میں تیزی سے داخل ہوا ہے، لیکن اب بھی کرہ ارض کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔

مثال کے طور پر انٹر امریکن انسٹی ٹیوٹ فار کوآپریشن آن ایگریکلچر (IICA) انٹر امریکن ترقیاتی بینک (IDB) اور مائیکروسافٹ کے 2021 کے مطالعے کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ لاطینی امریکہ میں 244 ملین افراد یعنی آبادی کا ایک تہائی حصہ انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتا۔

تاہم، کووڈ 19 وبائی مرض کے بعد رابطہ ایک اہم ضرورت بن کر سامنے آيا اور حکومتوں اور تنظیموں کی طرف سے بہت سی تکنیکی ترقیاں سامنے آئیں تاکہ دور دراز کے علاقوں تک رابطہ قائم ہو۔

سٹینڈرڈ ٹاسک فورس کی سربراہ ڈوروتھی سٹینلے کہتی ہیں: ‘وائی فائی اگر مکمل حل نہیں ہے تاہم یہ مجموعی حل کا ایک اہم حصہ ضرور ہے۔’

ماہرین اس ضمن میں انڈیا اور کینیڈا کے دور دراز علاقوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں جہاں سیٹلائٹ، فائبر آپٹکس اور وائرلیس کے ساتھ مخلوط رابطے کا نظام نافذ ہے۔

ڈروتھی کہتی ہیں کہ ‘اگر ہم مستقبل کے رابطے کے بارے میں بات کریں تو میرے خیال میں مختصر جواب یہ ہوگا کہ اس میں بہتری اور زیادتی آئے اور ان علاقوں کا احاطہ ہو جو آج اس کے تحت نہیں آتے۔’

انھوں نے اس ضمن میں میکسیکو سٹی کے حکام کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سنہ 2021 میں اس شہر کے 21,500 مفت انٹرنیٹ پوائنٹس کی بدولت اس نے دنیا میں سب سے زیادہ جڑے ہوئے شہر کا گنیز ورلڈ ریکارڈ حاصل کیا۔

ابھی کے لیے وائی فائی

وائی فائی کے آغاز کے بعد سے اس کے معیار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، عام طور پر رفتار میں بہتری، نئی خصوصیات یا ٹیکنالوجیز کا اضافہ اور ایک نیا شناختی نام سامنے آيا ہے۔

سنہ 2021 میں جاری کردہ 802.11ax، یا Wi-Fi 6 تازہ ترین ورژن ہے۔ یہ 9.6 گیگا بٹ فی سیکنڈ (Gbps) کی انتہائی تیز رفتار پیش کرتا ہے اور 2.4 گیگا ہرٹز 5 اور 6 گیگا ہرٹز فریکوئنسی بینڈز اور وسیع چینلز کو سپورٹ کرتا ہے۔

لیکن یہ ابھی تک مارکیٹ میں وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں ہے۔

اور انجینئرز 2024 سے پہلے سے ہی 802.11be، یا Wi-Fi 7 پر بہتر خصوصیات کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو جون 2022 کی ٹاسک فورس کی رپورٹ کے مطابق ‘ایک اہم سنگ میل’ ثابت ہو سکتی ہے۔

ہر چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ Wi-Fi کی کوئی حد نہیں ہے۔

وائی فائی

سٹینلی کا کہنا ہے کہ 'ہمیں ابھی تک اس کا متبادل نہیں ملا ہے، اور اندازہ یہ ہے کہ اگلے 10 سالوں میں وائی فائی کی مانگ میں 10 گنا اضافہ ہو گا، اس لیے ہم وائی فائی میں روز افزوں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں: ‘میرے خیال سے آنے والے دنوں میں ہم مزید وائی فائی دیکھیں گے۔ ہمارا مقصد زیادہ رینج، کارکردگی پر توجہ مرکوز کرنا ہے اور پہلے والے ورژن سے مطابقت کو جاری رکھنا ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ وہ تمام ڈیوائسز استعمال کریں جنھیں وہ پہلے ہی خرید چکے ہیں اور ان پر پیسہ لگا چکے ہیں۔’

وائی فائی میں پیشرفت نہ صرف رفتار کو بہتر کرتی ہے بلکہ بہت سے آلات کو ایک ہی وقت میں جڑنے اور اس رفتار کو برقرار رکھنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔

پروفیسر ڈے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘زیادہ سے زیادہ لوگ مختلف قسم کے آلات استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ صرف فون ہی نہیں بلکہ گھڑی، عینک وغیرہ سب۔ مستقبل میں زیادہ سے زیادہ جڑے ہوئے آلات ہوں گے۔ اس لیے وائی فائی اپ ڈیٹ ہوتے رہتے ہیں۔’

وائی فائی کے متبادل

اگرچہ وائی فائی کے پاس اب بھی بڑھنے کی کافی گنجائش موجود ہے اور یہ کنیکٹیویٹی کے لیے سب سے مستحکم ٹیکنالوجی ہے، لیکن انٹرنیٹ کنکشن کے کچھ متبادل ہیں جو مستقبل میں اس کی تکمیل کرسکتے ہیں یا شاید اس کی جگہ لے سکتے ہیں۔

سوجیت ڈے کا کہنا ہے کہ 5جی (5G) زیادہ تر یورپی ممالک، امریکہ اور لاطینی امریکہ میں آ رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ 5جی زیادہ تر 4جی ٹیکنالوجی پر مبنی تھے۔ اس لیے 5 جی کے حقیقی نفاذ میں چند سال لگیں گے۔

ٹیکنالوجی کمپنی ایرکسن کی ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2026 کے آخر تک لاطینی امریکہ میں موبائل سبسکرپشنز کا تقریباً 43 فیصد حصہ 5جی پر منبی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

ایلون مسک کا سیٹلائٹ انٹرنیٹ یوکرین پہنچ گیا مگر کیا یہ کارآمد ہو گا؟

فضائی سفر میں وائی فائی کے لیے سیارہ خلا میں

جب انٹرنیٹ نہیں ہوتا تو کیا ہوتا ہے

لیکن اس پر آنے والے اخراجات زیادہ ہوں گے۔

یوسی ایس ڈی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ ‘بہت سے لوگ 5 جی پلان کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے ان کے لیے وائی فائی اب بھی سب سے سستا متبادل ہے۔ لیکن یقیناً آپ وائی فائی کو گھر سے باہر نہیں لے جا سکتے، اس لیے 5جی کا ایک ایسا پلان ہونا چاہیے جس کا ہر کوئی متحمل ہو سکے۔’

روشنی کے ذریعے بھی ڈیٹا کی ترسیل کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ایل ای ڈی

ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر آف موبائل کمیونیکیشنز ہیرالڈ ہاس نے سنہ 2011 میں لائی فائی (Li-Fi) اصطلاح تیار کی، یہ ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ڈیٹا منتقل کرنے کے لیے ایل ای ڈی (LED) لائٹس کا استعمال کرتی ہے۔

روایتی وائی فائی راؤٹرز کا منفی پہلو یہ ہے کہ ایک ہی جگہ میں متعدد ڈیوائسز کے ایک ساتھ جڑنے سے یہ ایک دوسرے کے ساتھ مداخلت کر سکتی ہیں۔

لیکن لائی فائی کے خالق کا کہنا ہے کہ لائی-فائی ایک کمرے میں بغیر کسی مداخلت کے متعدد ایل ای ڈی لائٹس استعمال کر سکتا ہے۔

Li-Fi روایتی وائی فائی سے 100 گنا تیز انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کر سکتا ہے، جو 1 گیگا بٹ فی سیکنڈ (Gbps) کی رفتار پیش کرتا ہے۔

اور اس کے لیے روشنی کا ذریعہ چاہیے، جیسے کہ معیاری ایل ای ڈی لیمپ یا بلب، ایک انٹرنیٹ کنکشن، اور فوٹو ڈیٹیکٹر۔

پروفیسر ڈے کے مطابق اس قسم کی ٹیکنالوجی اندرونی حصے کے لیے بہت مؤثر ہے، لیکن اس کے لیے بنیادی ڈھانچے کی اضافی لاگت کی ضرورت ہوگی، اس لیے یہ کوئی سستا متبادل نہیں ہے۔

تفصیلات بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک ایسے دفتر کا تصور کریں جہاں آپ کو صحیح ریفلیکٹر لگانے ہوں، اس کی رفتار اور رابطے کی سطح کے لحاظ سے کچھ فوائد ہیں، لیکن اس کے نقصانات یہ ہیں کہ اس کے لیے عام اصطلاحات میں نئے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوگی۔’

اور سیٹلائٹ کے ذریعے رابطہ بھی ہے ایک متبادل ہے۔

سپیس ایکس کا سٹارلنک

سپیس ایکس کا سٹارلنک

ارب پتی ایلون مسک کی سٹار لنک جیسی کمپنیاں دور دراز اور دیہی مقامات پر تیز رفتار براڈ بینڈ سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس 110 ڈالر ماہانہ پلان کے ساتھ پیش کرتی ہیں جس کی ایک بار ہارڈ ویئر ڈیوائس کی قیمت 599 امریکی ڈالر ہے۔

سٹینلے کہتے ہیں کہ ‘سٹار لنک ہمارے کنیکٹیویٹی پورٹ فولیو میں ایک جدید اضافہ ہے۔ میرے خیال میں اس میں موجودہ سیٹلائٹ کی تعیناتی کو بڑھانے اور اس ٹیکنالوجی کو شاید زیادہ سستی اور وسیع بنانے کی صلاحیت ہے۔’

بہرحال سیٹلائٹ کمیونیکیشن میں زیادہ تاخیر ہوتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ تاخیر وائی فائی یا سیل فون سے زیادہ ہے۔

پروفیسر ڈے کا کہنا ہے کہ ‘اس مسئلے کو کم کرنے کے لیے، کچھ کمپنیوں کے پاس کم مدار میں پرواز کرنے والے سیٹلائٹ ہیں اور ان میں وقفے کے مسائل کم ہیں۔ اب وہ سیٹلائٹ اور وائی فائی کو بھی مربوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

‘اگر یہ انضمام اگلے چند سالوں میں کامیابی کے ساتھ ہوتا ہے، تو یہ صرف چند لوگ ہی نہیں ہوں گے جو دور سے کام کر سکیں گے۔ اور بھی بہت سے لوگ اس قابل ہو جائیں گے کیونکہ وہاں ہر جگہ وائی فائی کنیکٹیویٹی ہوگی۔’

پروفیسر ڈے نے گوگل کے بیلون پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ کچھ کمپنیوں پر بھی روشنی ڈالی جو کنیکٹیویٹی پیش کرنے کے لیے ڈرون کی جانچ کر رہی ہیں۔

وہ متنبہ کرتے ہیں: ‘میرے خیال میں بہترین رابطہ ہوا سے ہوگا کیونکہ اس میں بنیادی ڈھانچے کی لاگت بہت کم ہو گی۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘آپ ان علاقوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جہاں فائبر آپٹکس نہیں ہیں، خاص طور پر پسماندہ ممالک میں جو زیادہ ترقی یافتہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔’

گوگل گلوب دور دراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی کا موجب ہو سکتا ہے

گوگل گلوب دور دراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی کا موجب ہو سکتا ہے

مستقبل کا رابطہ

یہ واضح ہے کہ اس وقت متعدد ٹیکنالوجیز ہیں جن کا تجربہ کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں ان کا استعمال کیا جائے گا۔

سٹینلے کہتے ہیں کہ ‘کوئی ایک بھی ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے جس میں سب کچھ شامل ہو۔ کنیکٹیویٹی کی اتنی مانگ ہے کہ ہمیں تمام چیزوں کو لینے، مصنوعات کو ایک ساتھ رکھنے اور انھیں مارکیٹ میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی ہر جگہ جڑے رہنے کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔’

وہ شرطیہ کہتے ہیں کہ ‘مستقبل کے لیے ہمارا وژن یہ ہے کہ ہر کوئی جڑا ہوا ہو۔’

پروفیسر ڈے کے لیے اگلے 10 سے 20 سالوں میں کنیکٹیویٹی کا منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ ‘جدید دور میں کنیکٹیویٹی کا پیدائشی حق ہونا چاہیے۔’

انھوں نے بات کو حتمی شکل دیتے ہوئے کہا: ‘کیونکہ ہم کنیکٹیویٹی کے بغیر تعمیری طور پر کچھ نہیں کر سکتے۔’

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments