اورحان پاموک کے ناول ’‘سنو”کا ایک جائزہ
اورحان پاموک کو پاکستان میں پذیرائی ’‘ میرا نام سرخ ”کے حوالے سے ملی۔ پاموک کا مجوزہ ناول 2002 ء میں شائع ہوا۔ یہ پاموک کا چھٹا ناول ہے۔ ترکی زبان میں برف کو ’‘ Kar“ کہا جاتا ہے اور یہی اس ناول کا ٹرکش عنوان ہے۔ ناول کے بنیادی کردار کے نام کا مخفف بھی قاؔ (Ka) ہے اور اس ناول کو ترکی کے شمال مشرق میں واقع شہر قارص (Kars) جو آرمینیا کی سرحد پر واقع ہے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
’‘ برف ”ایک سیاسی سنسنی خیزی سے بھرپور، ایک رومانوی، اور جدید ترکی کے لوگوں کو گھیرنے والے گہرے مذہبی اور سیاسی مخمصوں کا جائزہ ہے۔ یہ ایک جادوئی کہانی ہے جس میں محبت ہے، فن ہے، طاقت کا استعمال ہے، مختلف آرزوئیں ہیں اور ایک دور افتادہ شہر میں سیاسی اسلامسٹوں کی ہلچل ہے۔ زیادہ تر کہانی ایک تیسرے شخص کی زبان سے بیان ہوئی ہے جب کہ کبھی کبھار ایک راوی ظاہر ہوتا ہے جو قاؔ کے دوست کے طور پر قاؔ کی کہانی کو مختلف جرائد اور اس کی خط و خطابت سے اخذ کر کے سناتا ہے۔
جرمنی میں بارہ سال کی سیاسی جلاوطنی کے بعد ، جب ایک غیر معروف ترک شاعر جو اپنی والدہ کی آخری رسومات کے لیے اپنے آبائی وطن استنبول واپس آیا تو اس کو وہاں کے ایک اخبار کے دوست نے اسے میونسپل کمیٹی کے انتخابات کی رپورٹنگ کے لیے دور افتادہ اناطولیہ کے قصبے قارص کا سفر کرنے اور اس کے ساتھ ہی خواتین کی خودکشیوں کے ایک پریشان کن سلسلے کے بارے میں تحقیق کا کہا جنہیں سیکولر حکومت نے اسکول میں سر پر اسکارف پہننے سے منع کیا ہے۔
دو دن کے طویل سفر کے بعد وہ برفانی طوفان کے درمیان قارص پہنچا۔ یہ طوفان تین دن تک جاری رہا، طوفان اتنا زیادہ شدید تھا کہ اس نے شہر کو جدید دنیا سے منقطع کر دیا اور یوں شہر تیزی سے حالات کے ایک پیچیدہ مجموعے کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی قاؔ قارصؔ پہنچتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس کے محرکات خالصتاً صحافیانہ نہیں ہیں کیونکہ قارص جو کبھی عثمانی اور پھر روسی شان و شوکت کا مظہر رہا ہے اب ثقافتی طور پر غربت اور گھٹن کا شکار ایسا گرے ایریا ہے جہاں اس کی ایک پرانی خوب صورت دوست آئی پیکؔ بھی رہتی ہے۔ جس ہوٹل میں قا ؔٹھہرتا ہے آئی پیک ؔ اس ہوٹل کے مالک کی بیٹی ہے۔ وہ اپنی خوبصورت دوست آئی پیک سے ملتا ہے، جس نے حال ہی میں اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کی ہے اور قاجلد ہی اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور بارہا اسے آئی پیک سے وصل کے مواقع ملتے ہیں۔
دریں اثنا وہ مقامی تھیٹر میں ایک قتل کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ اسلامی ہائی اسکول کے ایک آئیڈیلسٹ طالب علم کے ساتھ خدا کے ممکنہ وجود پر گفتگو کرتے ہوئے پایا جاتا ہے، اسے ایک مشہور اسلامی دہشت گرد سے ملاقات کے لیے لے جایا جاتا ہے اور اس کی ایک خفیہ مقام پر اس سے ملاقات ہوتی ہے۔ چار سال کے بعد یکا یک لکھے بغیر نظمیں اس کے ذہن میں پوری طرح سے آتی ہیں اب وہ نظم پر نظم لکھ رہا ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں پورے عروج پر ہیں۔
اگرچہ خواتین کی خودکشیوں کی وجہ ایک معمہ بنی ہوئی ہے، قاؔ ایک تھیٹر میں ہونے والی فوجی بغاوت میں پھنس گیا ہے جس کا مقصد سیاسی اسلام پسندوں کو سزا دینا ہے جن کی طاقت قارص میں عروج پر ہے۔ سب جانتے ہیں کہ طوفان تھمنے پر بغاوت ٹوٹ جائے گی لیکن پھر بھی ہر کوئی ایسا برتاؤ کرتا ہے جیسے یہ سیاسی تھیٹر اصلی ہو۔ اتحاد بنائے جاتے ہیں، اتحاد ٹوٹتے ہیں، سوال کیے جاتے ہیں اور جواباً سیکولر کردار سخت مذہب پرستوں کے ساتھ لڑتے ہیں۔
اس تمام عرصے میں اس کی مختلف الخیال لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جن میں ایک سابق کمیونسٹ ہے، دوسرا ایک سیکولرسٹ ہے، تیسرا ایک فاشسٹ قوم پرست ہے، چوتھا ایک ممکنہ اسلامی انتہا پسند ہے، پانچوں ایک اعتدال پسند ہے، چھٹا ایک قوم پرست ہے، ساتواں ایک فوجی ہے، آٹھواں ایک سیکرٹ سروس کا ایجنٹ ہے، نواں ایک سپاہی ہے اور پھر خاص طور پر دسواں ایک انقلابی اداکار ہے۔ مرکزی بحث سیکولرازم اور عقیدہ کے باہمی تعلق سے متعلق ہے جو ترکی کی بیسویں صدی کی تاریخ کا حوالہ ہیں۔ آخر کار انقلاب ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں ایک دم سے ایک کریکٹر ظاہر ہوتا ہے جو بتانا شروع کرتا ہے کہ آئی پیکؔ اور قا ؔجرمنی چلے گئے تھے وہاں قاؔ مارا گیا یا قتل ہو گیا یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ ایک ناول نگار اورحان ہے جو اس کی موت کے کئی سال بعد قا ؔکی زندگی کو دوبارہ بیان کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ہم قارص پہنچے سے پہلے کی قاؔ کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں اب یہ راوی تیزی سے اس کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ وہ قاؔ کی زندگی کے متعلق کھوج لگانے کے لیے فرینکفرٹ کا دورہ کرتا ہے، اس کی نوٹ بک پڑھتا ہے اور اس کی نظمیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں تک کہ خود قارص جاتا ہے اور وہاں ان لوگوں سے ملتا ہے جن لوگوں سے قؔا ملا تھا اور یوں قا ؔکی کہانی بیان ہوتی ہے۔
ہمدردی اور عقل، ستم ظریفی اور کراہت کو متوازن کرتے ہوئے، ’‘ برف ”ترکی جیسی سرزمین میں زندگی کی گہری مشکلات اور تضادات کو عیاں کرتی ہے۔ جہاں مغربی طرز کی جمہوریت اور اسلامی بنیاد پرستی خطرناک حد تک متصادم ہیں۔ یہ ناول ترکی کے سیاسی اور سماجی تنازعات کو ظاہر کرتا ہے : ریاست اور معاشرے کے درمیان، سیکولرازم اور مذہب کے درمیان، مغرب اور ترکی کے درمیان، اور صوبائی اور میٹروپولیٹن حکومت کے درمیان۔ ان حوالوں سے یہ ایک تحیر آمیز ناول ہے۔ Snow کا اردو ترجمہ ’‘ جہاں برف رہتی ہے“ کہ عنوان سے ہو چکا ہے۔ اسے بک کارنر جہلم نے چھاپا ہے۔
- پرنس ہیری کی سوانح عمری ”اسپیئر“ کا ایک جائزہ - 20/01/2023
- ناہید سلطان مرزا کے ناول ’‘ تقسیم سے تقسیم تک ”کا احوال - 11/10/2022
- غافر شہزاد کے ناول ’‘ مکلی میں مرگ ”کا ایک جائزہ - 26/09/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).