کیا یہ دنیا کی عجیب و غریب سرحد ہے؟

لیری بلیبرگ - بی بی سی ٹریول


دنیا کی غالباً سب سے عجیب و غریب سرحد ایک تنگ سی پگڈندی ہے جو سائیکل سواروں کے لیے مخصوص ہے اور اس علاقے تک رسائی دیتی ہے جو یورپ کا میدان جنگ بھی رہ چکا اور جہاں ثقافت اور جغرافیہ کا ملاپ ہوا تھا۔

نکولائی میئر اپنے ریسٹورنٹ سے وقت نکال کر جغرافیے کا ایک سبق دینے کے لیے نکلے۔

’ہم بیلجیئم میں ہیں‘ انھوں نے کھڑکی سے باہر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’یہ سڑک جرمنی میں ہے اور اس کے بعد بیلجیئم کا علاقہ ہے۔‘

اس کے بعد پھر جرمنی اور یہ سارا علاقہ تقریباً 50 میل پر پھیلا ہوا ہے۔

میں نے ایک چپس اٹھایا جس کے بارے میں مجھے یہ بتایا کہ گیا تھا کہ بیلجیم کی خاص غذا ہے، اسے مائونیز میں لگایا اور اس کو کھانا شروع کیا اور ساتھ ہی میں اس سرحدی علاقے کی بھول بھولیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔

سائیکلوں کے لیے مخصوص گزر گاہ سنہ 1899 کی اس ٹرین کی پٹری کے راستے پر بنائی گئی ہے جسے وینباہن یا فین ریلوے کہتے ہیں اور جو جرمی کے شہر آچن کو لیگزمبرگ سے ملاتی ہے۔

یہ ریل کی پٹری، جرمنی کے پروشین سرکاری ریلوے نے کوئلہ، لوہا اور سٹیل لے جانے کے لیے بنائی تھی۔ اس پٹری کی وجہ سے علاقے کی صنعتی ترقی شروع ہوئی اور جنگ عظیم اوّل کے دوران اسے فوجی رسد کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔

سنہ 1919 میں جب پہلی جنگ عظیم کا اختتام ہوا تو معاہدہ ورسالیز کے تحت وہ متنازع زمین جس پر جرمنی کا دعوی تھا وہ بیلحیم کو دے دی گئی اور اس کے ساتھ وہ ریل کی پٹری بھی جو اس علاقے میں بنائی گئی تھی۔

اس میں 28 کلو میٹر کی ایک راہداری بھی شامل تھی جس کی وجہ جرمنی کی سرزمین کے کچھ حصے باقی ملک سے بالکل کٹ کے رہ گئے۔

اس کا ایک حصہ بیلجیم میں شامل کر لیا گیا لیکن سنہ 1958 میں جرمنی کو واپس کر دیا گیا لیکن پانچ دیگر خطے ایسے باقی رہ گئے جو دوسروں کی سرحد سے مکمل طور پر گھرے ہوئے تھے۔

آج اس طرح کا ایک رقبہ جو وینباہن کی وجہ سے بنا صرف ڈیڑھ ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں صرف ایک فارم ہے۔ باقی علاقوں میں چھوٹے قصبے ہیں اور دیہات کے حصے ہیں جن میں سے سب سے بڑا 1800 ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

20ویں صدی کے آخری حصے میں اس پٹری اور ریل کی آمد و رفت ختم ہو گئی اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے اس پر سیاحوں کے لیے ٹرین سروس شروع کرنے کی کوشش کی۔

لیکن سنہ 2013 میں ریل کی پٹری کا راستہ ایک بار پھر آباد ہو گیا جب 125 کلو میٹر طویل یہ پکا راستہ جو جرمنی، بیلجیم اور لیگزمبرگ کو ملاتا ہے اس سائیکل چلانے کے شوقین حضرات کے لیے وقف کر دیا گیا۔

اب یہاں یورپ بھر سے سائیکل چلانے کے شوقیں حضرات آتے ہیں جو قرونِ وسطی کے دور کے قصبوں، قدرت کے لیے محفوظ کردہ علاقوں اور دھند میں ڈھکے وسیع میدانوں سے گزرتا ہے۔

وہ کبھی ایک ملک کی سرحد سے نکل دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہوئے اس بے تکی سرحد پر حیرت کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن مقامی لوگ اس پر کبھی کبھار ہی توجہ دیتے ہیں۔

محض فرنچ فرائز کے لیے سرحد عبور کرنا پاگل پن لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جانوروں کی سمگلنگ سے متعلق پانچ عجیب و غریب واقعات

قرونِ وسطیٰ کا ’بیہودہ‘ نام والا پھل جو پراسرار طور پر غائب ہو گیا

رات گئے گھنٹی بجا کر بھاگنے والے انڈین، پاکستانی سفارتکاروں کے لیے ’امن کا اگ نوبل انعام‘

کرسچن سٹروٹز جو ایک بینکر ہیں اور جرمنی میں رہتے ہیں ان کا کہنا ہے انھیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہو رہا ہوں جب وہ میار کے نکلی امبس ریسٹوارنٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں۔ یہ مشرقی بیلجیم کا وہ حصہ ہے جہاں جرمن زبان بولی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے بالکل معمول کی بات ہے اور ایک لمحے کے لیے یہ پاگل پن لگتا ہے۔

حقیقتاً یہاں کوئی پریشانی نہیں ہوتی جس کی بڑی وجہ شنجن معاہدہ ہے جس کا اطلاق سنہ 1995 میں ہوا اور یورپ میں سرحدوں کو بے معنی بنا دیا اور سرحدی کنٹرول تقریباً ختم ہو گئے۔

ایک علاقے میں جرمنی کا بس سٹاپ ایک بیلجیم کی سڑک پر ہے۔ ایک علاقے میں ایک ڈاکیے کو ہر روز بیلجیم کی سرزمین سے گزر کر جرمنی کے حصے میں جانا پڑتا ہے تاکہ ڈاک پہنچائی جائے۔

لیکن وبا کے دور میں اس علاقے کے رہائشیوں کو یادہانی کرانی پڑی کہ وہ دو ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

بیلجیئم اور جرمنی کی کووڈ کے خلاف حکمت عملی مختلف تھی جس کی وجہ لوگوں کو کبھی ایک علاقے میں کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے ویکسین سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی تھی جب کہ دوسری طرف ایسی کوئی شرط نہیں تھی۔

گو کہ یہ ایک الگ تھلگ علاقہ لگتا ہے، لیکن اس خطے نے بارہا خود کو تاریخ کے سنگم پر پایا ہے۔ شارلمین نے اپنی قرون وسطیٰ کی سلطنت آچن سے حکومت کی، جہاں سے وینباہن شروع ہوتا ہے۔ بعد میں، نپولین نے قصبوں کو ملانے والی سڑک کی تعمیر کا حکم دیا جو بالآخر ریلوے سے منسلک ہو گی۔

ہٹلر نے 1940 میں اس علاقے اور ریل لائن پر قبضہ کر لیا تھا، اور سائیکل سوار اب بھی ’ڈریگن کے دانت‘ کنکریٹ کی رکاوٹوں کو دیکھ سکتے ہیں جو اتحادی ٹینکوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے تھرڈ ریخ کی طرف سے کھڑے کیے گئے دفاع کا حصہ تھے۔ چار سال بعد، امریکی فوجی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنے راستے پر پہنچ گئے اور آج روئٹجن کے انکلیو تک پہنچ گئے، جو دوسری جنگ عظیم کے دوران آزاد ہونے والا پہلا جرمن گاؤں بن گیا۔

جنگ کے بعد، علاقے نے ایک اور قسم کی سرگرمی دیکھی۔ مقامی لوگوں کو احساس ہوا کہ وہ بیلجیئم سے کافی کی پھلیاں جرمنی میں سمگل کر کے منافع کما سکتے ہیں، جہاں قیمتیں تین گنا زیادہ تھیں، جس سے اس خطے کو ’گناہ بھری سرحد‘ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی.

کچھ لوگ ممنوعہ اشیا کو ہائی فینز کے پار لے جاتے ہیں، جو وینباہن سے زیادہ دور نہیں ہے اور دلدلی علاقہ ہے جو اپنے بدلتے موسم اور غیر محفوظ سرحد کے لیے جانا جاتا ہے۔

لیکن زیادہ تر اسمگلنگ کا مرکز متزینچ پر تھا، جو وینباہن انکلیو میں سے ایک ہے۔ اس قصبے میں اس دور کے مجرموں کی یاد میں کانسی کا ایک مجسمہ نصب ہے جو ایک ایسے آدمی کا ہے جو پیٹھ پر کافی کی بوری اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ مجسمہ سڑک کے بیچ میں ایک چٹان کے ساتھ ٹکا ہوا ہے۔

جنگ عظیم دوئم کے پانچ سال کے عرصے کے دوران، سمگلر 1,000 ٹن سے زیادہ کافی لے کر سرحد پار لے گئے، جس سے جنگ کے دوران اس غریب علاقے میں پیسہ آیا۔

یئر جیکولین ہپرٹز، جن کے والد غیر قانونی تجارت میں ملوث تھے، مذاق میں اس سرگرمی کو ’علاقائی ترقی کی ابتدائی قسم‘ قرار دیتے ہیں۔

کافی کیریئرز یا ہرکاروں نے حکام کے ساتھ تیزی سے ڈھٹائی سے بلی اور چوہے کا کھیل کھیلا۔

کافی کی بوریاں کندھوں پر لاد کر لیے جانے والوں کی حکام کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھلا کر چلتا رہتا تھا اور ہالی ووڈ کی کسی فلم کا پلاٹ لگتا ہے۔ مرد پیدل، سائیکل اور کار سے سفر کرتے، یہاں تک کہ اسے لے جانے کے لیے ایمبولینس بھی استعمال کرتے ہیں۔ جب پولیس پیچھا کرتی تو اسمگلر تعاقب کرتی پولیس گاڑیوں کو روکنے کے لیے تیز دھار دھاتی کانٹے سڑک پر گرا دیتے تھے۔ جرمن حکام، ان سمگلروں کا پیچھا کرنے کے لیے خاص آلات سے لیس، تیز رفتار گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔ سڑک پر پڑے کانٹوں کو دور کرنے کے لیے پولیس اپنی گاڑیوں کے آگے ایک ہل جوڑ لیتے تھے، ایک ایسی تخلیق جسے مقامی لوگ ’جھاڑو پورش‘ کہتے تھے۔

آخر کار، مٹزنچ کے تقریباً 50 شہری کولون کے قریب پکڑے گئِے۔ اس چھوٹے سے شہر کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔ اس وجہ سے پورا علاقہ ذریعہ معاش سے محروم ہو گیا اور اس کی مرد آبادی کا اتنا بڑا حصہ کہ اس کی میونسپل فٹ بال ٹیم مقابلہ نہیں کر سکی کیونکہ اس کے پاس کھلاڑیوں کی کمی تھی۔

بہت سے سمگلروں نے متزینخ کے جنگ سے تباہ شدہ چرچ کی تعمیر نو میں مدد کے لیے رقم عطیہ کی تھی، اور قصبے کے کیتھولک پادری نے جیل میں قیدیوں سے ان کی رہائی کی درخواست کی۔ میئر نے کہا کہ آج بھی یہ چرچ سینٹ موچا کے نام سے مشہور ہے۔

ان سمگلروں کو سخت سزائیں نہیں دی گئیں، ممکنہ طور پر اس لیے کہ جرمن حکام نے محسوس کیا کہ یہ قصبہ بالآخر بیلجیئم میں شامل ہونے کے لیے ریفرنڈم میں ووٹ دے سکتا ہے۔

آج، سرحد کھلی ہوئی ہے، سرحد کہاں ختم ہو رہی ہے اس کی نشاندہی سڑک کے کنارے لگا صرف ایک نشان ہے۔ وینباہن کے اطراف میں، کبھی کبھار کنکریٹ کا بنا یہ نشان گھاس میں چھپ جاتا ہے۔ سڑک کے ایک طرف بی اور دوسری طرف ڈی کا نشان ہے جو بیلجیئم اور ڈوئچ لینڈ کے مخففات ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ پیچیدہ سرحد بیلجیئم کے رارین میں میئر کی چپ شاپ کے قریب پھیلی ہوئی ہے۔

فرنچ فرائز کھانے کے بعد میں نے بین الاقوامی سفر کا آغاز کیا، بیلجیئم سے مختصر طور پر چلنے کے بعد جرمن ہائی وے 258 کو پار کرکے وینباہن تک پہنچا، جس نے مجھے دوبارہ بیلجیئم پہنچا دیا۔

میں پگڈنڈی کے ایک ریستوران، میں داخل ہوا، جس کی بجلی اور پانی جرمنی سے آتی ہے، حالانکہ یہ کاروبار بیلجیئم کے ذریعے باقاعدہ اور لائسنس یافتہ ہے۔ کیفے کے مالک والٹراڈ اور نوربرٹ سیبرٹز جرمنی میں مزید 200 میٹر مشرق میں رہتے ہیں.

والٹراڈ نے کہا کہ اس کے زیادہ تر گاہک عام طور پر سائیکل سوار ہوتے ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments