پاکستان میں عام افراد کیسے ڈیجیٹل قرضوں کے پھندے میں پھنستے ہیں؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


پاکستان، خواتین، بینکنگ
‘میں نے آن لائن پرسنل لون ایپ سے 27000 روپے قرض لیا اور نوے دن میں 34200 لوٹانے تھے تاہم چھ دن بعد ہی کمپنی سے فون آگیا کہ آپ کو قرضہ ادا کرنا ہے۔ ایپ پر نوے دن میں قرضہ ادا کرنے کا کہا گیا، اس پر کمپنی کے ریکوری ایجنٹ سے بحث شروع ہو گئی اور اب تو حالات یہ ہیں کہ ریکوری ایجنٹ کی جانب سے مجھے گالیاں تک دی جا رہی ہیں۔‘

پنجاب کے شہر وزیر آباد کے رہائشی عاطف کے بیٹے کی ٹانگ کا آپریشن تھا۔ انہیں پیسوں کی شدید ضرورت تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ دوستوں یا رشتہ داروں سے پیسے ادھار مانگتے، ان کی نظر سوشل میڈیا پر قرضہ دینے والی ایک کمپنی کے اشتہار پر پڑی جو نوے دن کے لیے قرضہ دی رہی تھی۔

عاطف نے جھٹ سے قرض کے لیے اپلائی کیا اور ایک آدھ دن میں انہیں رقم بھی مل گئی۔ عاطف نے بیٹے کے علاج کے لیے ہسپتال سے رابطہ کیا اور آپریشن کے لیے انھوں نے کچھ وقت دیا۔ قرضہ لینے کے ٹھیک چھ دن بعد ان کے موبائل فون پر آن لائن قرضہ دینے والی کمپنی کے ایجنٹ کی جانب سے فون آیا کہ قرض لوٹانے کی تاریخ ہو گئی۔

عاطف اس فون کال سے حیران و پریشان ہوئے اور ایجنٹ کو بتایا کہ انہیں نوے دن بعد قرضہ واپس کرنا ہے۔ ایجنٹ کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ نہیں آپ کی قرض ادائیگی کا وقت ہو گیا اور آپ کو یہ ادا کرنا ہے۔

ایجنٹ کی جانب سے کہا گیا کہ اگر آپ قرضہ نہیں دے سکتے تو آپ ایکسٹنشن منی یعنی قرضہ ادائیگی کی تاریخ میں توسیع کے لیے 6600 روپے جمع کرا دیں تو آپ کو دس دن مزید مل جائیں گے ۔ عاطف نے اپنی بیوی کو بتایا۔ دونوں میاں بیوی بچے کے علاج کے لیے فکرمند اور دوسری جانب سے یہ نئی مصیبت ان کے سر پر ٹوٹ پڑی۔ جیسے تیسے کر کے عاطف نے ایک دوست سے 6600 روپے لے کر ایکسٹنشن منی ادا کی۔

دس دن گزرنے کے بعد ریکوری ایجنٹ کی جانب سے ان کے فون پر دوبارہ کالیں آنا شروع ہوئیں کہ آپ قرضہ ادا کریں۔ عاطف نے بتایا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور نوے دن میں پیسے جمع کرا دیں گے تاہم ایجنٹ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ پیسے ادا کریں، ایکسٹنشن منی دے کر مزید دس دن کے لیے توسیع لے لیں یا پھر ان کے رشتہ داروں کو فون کر کے بتایا جائے گا۔

عاطف نے بی بی سی نیوز کو بتایا ک ایجنٹ کی جانب سے کال ختم ہونے کے کچھ دیر بعد ان کے ایک دو رشتہ داروں کی جانب سے کال بھی آ گئی کہ سنا ہے تم نے قرضہ لیا اور اب ادا نہیں کر رہے۔ عاطف نے بتایا کہ انہوں نے مزید قرضہ پکڑ کر 6600 روپے کی رقم دے کر مزید دس دن کی توسیع مانگ لی۔

عاطف کہتے ہیں کہ اب تک 13200 روپے ایکسٹنشن منی کے نام پر کمپنی کو دے چکے ہیں اور ابھی بھی انہیں 34200 کا قرضہ واپس کرنا ہے اور اب تو ایجنٹ کی جانب سے انہیں دھکمیاں دی جاتی ہیں اور بات گالم گلوچ تک پہنچ چکی ہے۔

انڈیا میں بہت سے لوگ اہم بینکوں سے قرض لینے کے اہل نہیں کیونکہ وہ ان کی تمام شرائط پوری نہیں کرتے

پنجاب کے ضلع لیہ کے رہائشی ثمر الٰہی نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ وہ گذشتہ دو دن سے سو نہیں سکے کیونکہ انھوں نے پرسنل لون ایپ سے تین مہینے کی ادائیگی کے لیے قرضہ لیا تھا اور دس دن کے بعد ان کی جانب سے قرضہ ادائیگی کا کہا جا رہا ہے اور ان کے رشتہ داروں کو بتانے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

کراچی کے حسن علی نے بھی آن لائن ایپ کے ذریعے قرضہ لیا اور 21000 قرض پر انہیں 16800 روپے ملے جو کمیشن کے نام پر کاٹ لیے گئے اور پھر کمپنی کی جانب سے انہیں تنگ بھی کیا گیا۔

عاطف، ثمر الٰہی اور حسن علی آن لائن ایپس کے ذریعے ذاتی قرضہ لینے والے متاثرین میں شامل ہیں جو قرضہ لینے کے بعد کمپنیوں کی جانب سے ناروا سلوک کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایسے سینکڑوں متاثرین موجود ہیں جنھوں نے آن لائن ذاتی قرض کی ایپس کی جانب سے ناجائز طریقوں سے پیسوں کی واپسی اور ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں ڈرا دھمکانے کے اپنے تجربات شئیر کیے ہیں۔

جہاں ایک جانب آن لائن قرضہ دینے کی ایپ کے بارے میں کمپنیوں کی جانب سے روا رکھے گئے ناروا سلوک پر لوگ نالاں نظر آتے ہیں وہیں پر کچھ لوگوں کے مطابق انھوں نے ان آن لائن ایپس سے قرضہ لیا اور اپنے وقت پر لوٹ بھی دیا اور انہیں اس سلسلے میں کوئی تلخ تجربہ نہیں ہوا۔

ایسے ہی افراد میں کراچی کے رہائشی عبید صغیر بھی شامل ہیں جو بتاتے ہیں کہ انھوں نے 15000 کا قرضہ لیا اور کمپنی کی جانب سے دیے گئے وقت میں اسے لوٹا دیا۔

قرض کی آن لائن ایپس کیا ہیں؟

سوشل میڈیا پر قرضہ دینے کی بہت ساری آن لائن ایپس موجود ہیں جو لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کرتی ہیں۔ ڈیجیٹل قرضہ دینے کی یہ کمپنیاں مختلف ناموں سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں اور ان میں زیادہ تر کمپنیاں 10000 سے 50000 ہزار تک قرضہ فراہم کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی جانب سے تیز، آسان ، بروقت طریقوں سے قرضہ دینے کے اشتہار سوشل میڈیا پر چلتے ہیں جس میں قرضہ لینے والے خواہش مند افراد کو ایک سے دو دن میں قرضہ کی سہولت دینے کا پیش کش کی جاتی ہے

بینک

آن لائن قرضہ دینے والی یہ ایپس پاکستان میں پلے اسٹور سے سب سے سے زیادہ ڈاون لوڈ ہونے والی ایپس میں شامل ہیں۔

پاکستان میں ڈیجیٹل قرضہ دینے کی ایپس کے بارے میں حکومتی ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے اس سلسلے میں اپنے تحریری موقف کے ذریعے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ڈیجٹیل قرض دینے والی کچھ ایپس نان بنکنگ کمپنیوں سے منسلک ہیں اور انہیں ایس ای سی پی کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور باقاعدہ اس سلسلے میں انہیں لائسنس دیا جاتا ہے یا انہیں سٹیٹ بینک لائسنس دیتا ہے تاہم بہت ساری ایسی ایپس بغیر لائسنس کے کام کر رہی ہیں جو غیر قانونی ہیں کیونکہ قرضہ دینا ایک لائنسس یافتہ عمل ہے اور پاکستان کا قانون کسی کو نجی طور پر قرضے دینے کی ممانعت کرتا ہے۔

آن لائن قرضہ ایپس کیسے لوگوں کو پھنساتی ہیں؟

ایک آن لائن ایپ پر ریکوری ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے شارق (فرضی نام) نے آن لائن ایپ قرضے کے حصول اور کمپنی کی جانب سے کیسے قرض لینے والے کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے، اس کے بارے میں بی بی سی نیوز کو بتاتے ہوئے کہا کہ آن لائن ایپ پر جب کوئی قرضے کے لیے اپلائی کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے کمپنی کی جانب سے صحیح معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ ایپ میں قرضے کی مالیت اور اس کی واپسی کی جو تفصیلات دی گئی ہوتی ہیں وہ صرف دھوکا ہوتا ہے۔

شارق بتاتے ہیں کہ ‘وہ چاہے چھوٹا قرضہ ہو یا بڑا کمپنی سات دن بعد اس کی ادائیگی کا تقاضہ شروع کر دیتی ہے جب کہ ایپ میں یہ نوے دن لکھا ہوتا ہے۔ جب کوئی قرض اپلائی کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اسے نوے دن قرضہ دینا ہے جب کہ قرضہ ملنے کے بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ سات دن کے بعد ادا کرنا ہے۔ ایسے میں اگر قرض لینے والا ہیلپ لائن پر کال کرے تو وہ ہر وقت مصروف ملتی ہے اور کسٹمرز کو کوئی رسپانس نہیں دیا جاتا۔‘

شارق نے بتایا کہ ‘اگر قرض دہندہ پیسے واپس نہ کر سکتے تو اس سے ایکسٹنشن منی کے نام پر پیسے وصول کیے جاتے ہیں کہ قرض کی ادائیگی کے لیے ہفتہ دس دن کی توسیع دی جاتی ہے۔ اگر کوئی قرضہ ادا نہ کر سکے تو اسے دھکمیاں بھی دی جاتی ہیں اور اس کے رشتہ داروں کو بھی بتایا جاتا ہے تاکہ وہ شخص ذہنی اذیت کا شکار ہو۔‘

شارق نے بتایا کہ انہیں بہت سارے لوگوں پر ترس بھی آیا لیکن کمپنی کی انتظامیہ اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں دیتی۔

وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے قرضہ لینے والے یہ افراد کسی مجبوری کے تحت قرضہ لیتے ہیں اور جلدی میں کمپنی کی ایپ کو بس سرسری پڑھ کر قرضے کے لیے اپلائی کر دیتے ہیں یا بہت سارے افراد تو یہ پڑھنے کا بھی تردد نہیں کرتے اور ان کمپنیوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

ایس ای سی پی کی جانب سے اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈیجیٹل قرض دینے اور لینے کے سلسلے کی نگرانی کر رہا ہے اور اس سے جڑے بنیادی خطرے کو بھی دیکھ رہا ہے تاکہ اس سلسلے میں ضروری ریگولٹیری مداخلت کے ذریعے قرض دہندگان اور صارفین کو محفوظ رکھا جا سکے۔

کمپنیوں کی جانب سے قرض دہندگان کو ڈرانے دھمکانے کے معاملے پر ایس ای سی پی نے کہا کہ قرض دینے والوں کو صحیح معلومات اور قرض فراہم کرنے کی تمام شرائط کو صحیح طریقے سے بتانا چاہیے اور کسی شکایت کی صورت میں متعقلہ کمپنی سے رابطہ کرے اور وہاں سے داد رسی نہ ہونے کی صورت میں ایس ای سی پی سے رابطہ کرے اور https://sdms.secp.gov.pk/ پر اپنی شکایت درج کرائے۔

ڈیجیٹل قرض ایپ میں بڑھتی ہوئی شکایات کی کیا وجہ ہے؟

ڈیجیٹل قرضہ فراہم کرنے والی ایپ کے خلاف بڑھتی شکایات کے سلسلے میں ماہر سرمایہ کاری اور مالی امور کے ماہر عمار خان نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ نارمل بینکاری نظام میں سٹیٹ بینک کی جانب سے بہت سخت نگرانی رکھی جاتی ہے۔

پاکستان

وہ کہتے ہیں کہ ‘دنیا بھر میں کنزیومر فنانسنگ ایک ریگولیٹڈ بزنس ہوتا ہے تاکہ صارف کے مفاد کا تحفظ کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا دنیا بھر میں ڈیجٹیل طریقے سے قرضے دینے کی ایپس کام کر رہی ہیں تاہم پاکستان میں تو یہ `لون شارک‘ بن چکی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں شفافیت نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی نوجوانوں اور خواتین کے لیے بینک سے قرض لینا کتنا مشکل؟

’قرض واپس نہ کرنے والے کو صرف وعدہ یاد دلاتے ہیں، عدالت لے کر نہیں جاتے‘

پاکستانی نوجوان کے لیے ’اپنا کاروبار‘ کرنا کتنا مشکل ہے؟

انھوں نے کہا اس قسم کی ڈیجیٹل قرض ایپس پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم ان کے کام کے طریقوں پر نگرانی رکھنی چاہیے جیسا کہ وہ قرض دہندگان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور ان کے خاندان کے لوگوں تک کو ہراساں کرتے ہیں۔

عمار خان نے بتایا کہ یہ قرضہ اکثر غریب لوگ لیتے ہیں جنہیں فوری طور پر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور صحیح طرح سے پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتے۔ اکثر ان ایپس پر بلا سود قرضے کی فراہمی کے اشتہار چلتے ہیں اور یہ لوگ جھانسے میں آجاتے ہیں۔ قرض کی ادائیگی کے لیے جب کمپنی کی جانب سے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے پتا نہیں ہوتا کہ کون سا ایسا فورم ہے کہ جہاں پر وہ اپنی شکایت درج کر ا سکیں یا پھر کمپنیوں کی جانب سے ڈرانے دھمکانے پر خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔

عمار خان نے کہا جس طرح سٹیٹ بینک نے 2009 میں پالیسی جاری کی کہ بینکوں کی جانب سے قرض لینے والے صارفین کو ڈرایا اور ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ ایس ای سی پی کے اندر اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ اس پر کوئی کارروائی کرے۔

ایس ای سی پی نے اس سلسلے میں اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ اس کی جانب سے لون شارک کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور قرض لینے والوں کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ قرض لینے سے پہلے تمام شرائط کا بغور مطالعہ کر لیں جس میں قرض پر سود، سروس چارجز، تاخیر سے قرض کی ادائیگی پر جرمانے وغیرہ شامل ہیں۔

ایس ای سی پی ا س سلسلے میں اضافی قواعد و ضوابط متعارف کروانے پر بھی غور کر رہی ہے، جس کے ذریعے قرض لینے والے افراد کے ساتھ بہتر رویے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

ڈیجیٹل قرض دینے کی کمپنیاں کیا مقامی ہیں یا غیر مقامی؟

پاکستان میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر قرضہ دینے والی کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمار خان نے کہا کہ ان کمپنیوں میں مقامی کے ساتھ غیر مقامی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

انھوں نے کہا زیادہ تر مقامی کمپنیوں کے ساتھ چینی افراد پر مشتمل انتظامیہ کی کمپنیاں بھی اس سلسلے میں آن لائن پلیٹ فارم پر کام کر رہیں ہیں۔

دوسری جانب چین میں آن لائن قرضہ دینے والی کمپنیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔

عمار خان کہتے ہیں کہ ‘ایس ای سی پی سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ان ایپس کے ذریعے چین سے ڈیٹا شئیر کیا جا رہا ہے جب کہ چین میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے قرضہ دینے کی ایپس پر پابندی لگی ہوئی ہے۔‘

ایس ای سی پی نے اس سلسلے میں اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ این بی ایف سی یعنی غیر بینکاری فنانس کمپنیوں کے قواعد و ضوابط کے تحت کوئی بھی ایسی کمپنی اپنے بزنس کے متعلقہ ریکارڈ یا دستاویزات کو پاکستان سے باہر منتقل اس وقت تک نہیں کر سکتی ہے جب تک کمیشن اسے اس بات کی اجازت نہ دے۔

ادارے نے کہا کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ایس ای سی پی مزید ایسے ضوابط بنانے پر غور کر رہا ہے جس کے تحت کوئی بھی کمپنی اپنے صارفین یا قرض دہندگان کا ڈیٹا پاکستان کے اندر ہی محفوظ طریقے سے رکھ سکے۔

چین میں ڈیجیٹل قرضہ دینے والی کمپنیوں پر پابندی اور پاکستان میں اس کی اجازت پر ایس سی ای پی نے کہا قرضہ دینا ایک قانونی عمل ہے اور ایسی ایپ کے ذریعے ان طبقات کو قرضے تک رسائی مل سکتی ہے جن کی تجارتی بینکوں تک قرضوں کے حصول کی رسائی نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments