شہدائے بدر رضوان اللہ علیہم اجمعین۔۔


رحمت اللعالمین ﷺ نے مکہ میں دین کی دعوت کا آغاز کیا۔ وہ امین و صادق بھی تھے، غمخوار بھی تھے، مہمان نواز بھی تھے، خوش مزاج بھی تھے، صاحب اخلاق و صاحب کردار بھی تھے جس کا اعتراف سب ہی کیا کرتے تھے، اس سے اگے وہ ایک اچھے خاندان کے چشم و چراغ بھی تھے لیکن اس سب کے باوجود روز بروز ان کی مخالفت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو اللہ تعالٰی کی حکم سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے اسے دعوت کا مرکز ٹھہرایا جو اگے چل کر ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست کا روپ دھار گیا۔

مشرکین مکہ اور دیگر اسلام دشمن عناصر نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور نوبت جنگ تک آ گئی اور یوں مدینہ منورہ سے 180 کلومیٹر دور بدر کے میدان میں حق و باطل کا پہلا معرکہ ہوا جس میں باطل کو شکست ہوئی اور حق غالب آ گیا اور یوں یہ دن ”یوم الفرقان“ ٹھر گیا۔ اس جنگ میں 70 کفار قتل اور 70 گرفتار ہو گئے جبکہ 14 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔

313 نفوس قدسیہ، رسول اللہ ﷺ کا کل سرمایہ۔ ایک ایک پتھر کو چنا، تراشا اور ہیرا بنا کے رکھا۔ یہ پاکیزہ ترین لوگ تو دراصل رسول اللہ کے دعاوں اور آخری شب کے آنسوؤں کا ثمر تھا۔

یہ عظمت کے مینار ایمان و اخلاص کی دولت سے مالامال تھے اور جن کے دل پیارے آقا ﷺ کے عشق و محبت اور جذبہ ٔاطاعت سے لبریز تھے۔ اسی سرمایہ کے ساتھ رسول اللہ، مشرکین مکہ کے سامنے آ کھڑا ہوئے گویا رسول اللہ نے اپنی پوری محنت کے ثمر کو اس میدان میں پیش کیا تبھی تو فرمایا کہ

یا اللہ!
اگر یہ مسلمان ہلاک ہو گئے تو پھر روئے زمین میں تیری عبادت کبھی نہیں کی جائے گی۔

ایمان، اخلاص، محبت، اعتماد، بہادری، سپردگی، جانبازی، قربانی، ایثار، جذبہ جہاد اور شوق شہادت جیسے جتنے عنوانات ہیں، یہ سب مظاہر یہاں ملتے ہیں اور بدرجہا ملتے ہیں۔ اسی بناء اہل بدر سے اللہ اور رسول راضی رہے اور روئے زمین پر مقدس ترین، مقرب ترین اور محبوب ترین ٹھہرائے گئے۔

ان ہی میں سے 13 نگینے ہمارے سامنے اس جگہ آرام فرما ہیں۔

مقبرہ شہدائے بدر کی زیارت کا موقع بہت سارے لوگوں کو ملا ہو گا مگر اس متعین مقام کی زیارت کی سعادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہو گی۔ اللہ الرحم الراحمین نے ہمیں یہ سعادت نصیب فرمائی۔

یہاں بیٹھ کر جو احساسات اور جذبات ہوتے ہیں، الفاظ میں اس کا اظہار شاید ممکن نہیں۔ اپنی کم مائگی، گناہ گاری اور خطا کاری کا احساس شدت کے ساتھ نہ ہونا تو ایمان کی کمزوری ہوگی۔

خدشہ اور خوف مسلسل دامن گیر رہا کہ یہاں کی زمین، یہ مٹی، یہ پتھر، یہ کنکر یہ بھی تو مقدس ہیں، مکرم ہیں، معزز ہیں اور بیش قیمت بھی، یہاں ناپاک قدم رکھتے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن حیلہ یہ پکڑا کہ ہم پہاڑ کی سمت سے آئے اور وہی ساتھ ہی بیٹھ گئے، شوق، طلب، چاہت ان سب نے مل کر آنکھوں پہ پٹی باندھی اور یہاں تک آنے کی بیباکی کی ہمت ہوئی۔

بس ہم نے تو اپنے رب سے یہ مانگا کہ الہی یہ تیرے محبوب کے دل کے ٹکڑے ہیں اور آپ ان سے راضی ہیں، قیامت کے دن ہمیں ان پاکیزہ نفوس کے ساتھ اٹھا۔

میں عاصی پر خطا ہوں اور تو ستار بھی غفار بھی ہے
میں مجرم روسیہ ہوں اور تو کریم بھی ہے رحیم بھی ہے
میرے جرم و سیہ کاری پہ رحمت تیری بھاری ہے
کہ میں سب سے برا ہوں اور تو رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے

نوٹ: مقبرہ شہدائے بدر میں قبلہ کے جانب بالکل آخری سرے پر ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے، اسی کے دامن میں یہ مرقد واقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments