با شعور با اختیار مائیں، با شعور با اختیار نسلیں


گزشتہ چند دنوں سے ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں ایک نوجوان بچی پی ایس او کے ایک پٹرول پمپ پر سیل گرل کی نوکری کر رہی ہے اور پٹرول پمپ پہ نصب ڈسپنسر مشین کی نوزل ہاتھ میں پکڑے گاڑیوں میں تیل بھر رہی ہے۔ جیسا کہ روایت ہے کہ سوشل میڈیا پر اس تصویر کو لے کر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ بعض افراد اس بچی کی مشکلات غیب سے حل ہونے کی دعائیں کر رہے ہیں اور بعضی اکثریت بچی اور پٹرول پمپ کی انتظامیہ کے اس اقدام کو سراہ رہی ہے۔

غیب سے مسائل کے حل کی دعائیں کرنے والوں سے بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہی ہماری غیب سے وابستہ امیدیں ہیں جنہوں نے آج ہمیں نہ صرف دنیا سے کاٹ کر بہت پیچھے رکھ چھوڑا ہے بلکہ ذلت و محرومی بھی ہمارے گلے کا طوق بنا ڈالی ہے۔ یہی غیب سے مدد کی امیدیں ہی ہیں جنہوں نے ہمیں دنیا سے بچھڑے ہوئے لوگوں میں شمار کروایا ہے۔ معجزوں کے انتظار میں بیٹھنے والے جان لیں کہ معجزے کو ظہور کے لیے اسباب و عوامل کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ یہاں کوشش شروع ہوئی وہاں معجزے عمل کی راہ میں کوشش کرنے والے کی جانب چل دیے۔

ذاتی طور پر مجھے یہ تصویر دیکھ کر انتہائی خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا۔ نطشے کہتے ہیں : ”زندگی جینے کے لیے اور درد سہنے کے لیے آپ کو درد سے ہی امید کی کوئی راہ نکالنی ہو گی ورنہ زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔“ اس معاشرے سے جڑی امیدیں آخری سانسیں لے رہی ہوتی ہیں کہ پھر سے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا دم توڑتی امیدوں کو نئی سانسیں بخش دیتا ہے۔

بچی تو باہمت اور پر اعتماد ہے ہی جس کی جتنی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔ ساتھ ہی پی ایس او پٹرول پمپ کی انتظامیہ داد و تحسین کی حق دار ہے کیونکہ میری ناقص معلومات کے مطابق یہ فیصلہ کلی طور پر انتظامیہ کا ہی ہو سکتا ہے۔ بعض افراد یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پی ایس او کمپنی داد کی مستحق ہے جبکہ آئل فیلڈ سے وابستہ ہونے کے سبب میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ آئل کمپنیوں کو فقط اپنا تیل بیچنے سے غرض ہوتی ہے وہ پٹرول پمپس کے عملے وغیرہ جیسے غیر اہم معاملات میں دلچسپی نہیں لیتیں۔ ہاں اگر یہ سائٹ کمپنی خود آپریٹ کر رہی ہے تو الگ بات ہے۔ بہرحال جو بھی ہو یہ ایک اچھا اور لائق تحسین اقدام ہے جس کو سراہنا چاہیے۔

پٹرول پمپ انتظامیہ واقعی شاباشی اور احترام کے قابل ہے جنہوں نے ایک ایسے پدر سری معاشرے میں جہاں صنف نازک کو صرف سیکس مشین سمجھا جاتا ہے یا صرف جس کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی جیسے رشتوں کی پہچان سے جانا جاتا ہے، جہاں عورت کی انفرادی پہچان نہ ہونے کے برابر ہے، جہاں عورت کو انسان سمجھنے کے بجائے صرف ایک جنس سمجھا جاتا ہے، وہاں ایک نوجوان خاتون کو نوکری دے کر میں سمجھتا ہوں کہ برابری کا حق دیا ہے۔ پمپ انتظامیہ نے نوکری دی ہے تو ظاہر ہے اس بچی کی دوران ڈیوٹی حفاظت کا ذمہ بھی پٹرول پمپ انتظامیہ کا ہی ہو گا۔ انتظامیہ کو ایسے دلیرانہ اور فرسودہ روایات کے خلاف روایت شکن اقدام پر جھک کر تعظیم پیش کرنے کا دل کرتا ہے۔

اس پی ایس او پٹرول پمپ سے متعلقہ معلومات تو دستیاب نہیں ہیں البتہ اس سے قبل ٹوٹل پارکو کمپنی کے لاہور میں موجود دو پٹرول پمپس پر پمپ انتظامیہ کی جانب سے ایسے دلیرانہ اور قابل تحسین اقدام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ایک پٹرول پمپ تو ٹوٹل پارکو کمپنی خود آپریٹ کرتی ہے جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ذمہ دارانہ فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ ہر وہ کمپنی، ادارہ اور محکمہ جہاں خواتین کو کام کرنے کے مواقع دینے کے ساتھ ساتھ ان کا عزت و احترام بھی برقرار رہتا ہے یقیناً اندھیرے میں روشنی کی واضح کرن ہیں۔

کسی دانا کا قول ہے کہ اگر ماں ان پڑھ ہو گی تو جہالت نسلوں میں سفر کرے گی۔ اسی طرح اگر مائیں بے بس اور اپنے حقوق سے ناواقف ہوں گی تو نسلیں بھی اداس اور نالائق و نا اہل ہی پیدا ہوں گی۔ اگر معاشرے میں بہتری لانی ہے تو خواتین کو ہر سطح پر با اختیار بنانا ہو گا، انہیں برابری کے حقوق دینے ہوں گے۔ ان کو اعتماد دینا ہو گا اور ان کے اعتماد پر ان کی بے لوث حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ با اختیار مائیں، با اختیار نسلیں۔ با اعتماد مائیں، با اعتماد اولادیں، با شعور مائیں، با شعور اولادیں۔

میری بھی ایک بیٹی ہے۔ جب میں معاشرے کی جہالت اور خاص کر خواتین کے ساتھ پیش آنے والے نا خوشگوار واقعات سنتا یا دیکھتا ہوں تو اپنی بچی کے مستقبل کے بارے میں انتہائی فکر مند ہو جاتا ہوں۔ مگر متذکرہ بالا ایسے اقدامات دیکھتا یا سنتا ہوں تو ہلکی سی تسلی ہونے لگتی ہے۔ میرا خواب ہے کہ میری بچی بڑی ہو کر جب تعلیمی یا عملی میدان میں قدم رکھے تو اسے وہ کچھ نہ سہنا پڑے جو آج کی بچیوں کو سہنا پڑتا ہے۔

بچی اور انتظامیہ کے لیے بیشمار نیک خواہشات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments