اسحاق ڈار کی واپسی قومی ضرورت ہے


معاملات کو افسوس یا طعنہ زنی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اگر ان سے سبق سیکھ لیا جائے تو کامیابی قدم چومنے کے لئے بے چین ہوتی ہے ہر دروازہ کھل جاتا ہے اگر نیت صاف ہو۔ بنگلہ دیشی سفیر نے فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے بیان کیا کہ بنگلہ دیش میں کپاس کی ایک گانٹھ بھی پیدا نہیں ہوتی ہے مگر چین کے بعد وہ گارمنٹس کو دنیا بھر میں برآمد کر رہا ہے۔ ہزار وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ مغربی دنیا کی بنگلہ دیش کو دی گئی تجارتی مراعات کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے اور بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر پھر بھی یہ سوال بدستور قائم رہے گا کہ اگر کپاس کی ایک گانٹھ بھی پیدا نہ کر سکنے والا ملک گارمنٹس میں اتنی کامیابی حاصل کر گیا ہے تو جس ملک میں کپاس ہی کپاس موجود ہے اس کی کامیابی کس سطح پر ہونی چاہیے تھی؟

اور آج کس انحطاط کا شکار ہے؟ اور اس انحطاط کی وجوہات کیا ہے؟ اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ معاملہ صرف گارمنٹس یا ایک دو مصنوعات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اتنی زیادہ وسائل کی قوت رکھنے والی مملکت اپنی معیشت کو زندہ رکھنے کی غرض سے قرضے کی فراہمی پر انحصار کر رہی ہے ورنہ دیوالیہ ہونے کا صرف امکان نہیں بلکہ کم و بیش یہ یقینی ہو چکا تھا۔ ایسی کیفیت میں معیشت کے استحکام کی غرض سے کڑوے کسیلے فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔

عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروانے کے بعد ، اپنی حکومت کی یقینی رخصتی کو سامنے دیکھتے ہوئے اس حوالے سے اقدامات سے جان بوجھ کر آنکھیں چرائی کہ اگلی حکومت کے لیے گڑھا تیار کر دیا جائے۔ ایک سوال اور بھی وجود پاتا ہے کہ جب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا اور سابق حکومت اس کے لئے ماحول تیار کر چکی تھی تو پھر یہ سب پی ٹی آئی کو ہی کرنے دیا جاتا تا کہ وہ خود اس کے سیاسی اثرات کو بھگتتے۔

حمایت سے ہاتھ کھینچا ہی اس لئے گیا کہ یہ دیکھ لیا گیا تھا کہ قیمتوں کو اس قدر بڑھانے کے باوجود پی ٹی آئی میں وہ صلاحیت موجود نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لے۔ اور اسی لئے پیچھے ہٹ گئے کہ سیاست کو بندشوں سے آزاد کر کے اس کے فطری بہاؤ کا موقع فراہم کیا جائے ورنہ دیوالیہ ہونا نوشتہ دیوار تھا۔ اور سیاسی قوتوں کے سامنے بھی دو راستے تھے ایک یہ کہ وہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں ملک ڈوبتا ہوا دیکھتے رہتے اور تالیاں پیٹتے کہ دیکھو اس سوغات نے کیا گل کھلا دیے ہیں مگر یہ صرف تماش بینی ہوتی۔

دوسری صورت یہ تھی کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھا جاتا اور سیاسی نفع نقصان کو پس پشت ڈالتے ہوئے وطن عزیز کو انتہائی بے یقینی کی کیفیت سے گلوخلاصی دلانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی جاتی اور یہی دوسرا راستہ اختیار کیا گیا کیونکہ قومی بقا اسی میں پنہاں ہے۔ قومی معیشت کو جو اس وقت سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ پیٹرول کی بڑھتی قیمت اور بدترین لوڈشیڈنگ کی صورت میں ہے۔ جس سے معمولات زندگی بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ مہنگائی بھی زندگی کو اجیرن کیے بیٹھی ہے۔

لوڈشیڈنگ کا ہونا تو بڑی بدقسمتی ہے اس لئے کہ جب نواز شریف کی حکومت قائم تھی تو اس وقت اس تعداد میں بجلی کے پلانٹ لگا دیے گئے تھے کہ 36 ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی پاکستان کو صلاحیت حاصل ہو گئی جب کہ اس وقت اس موسم میں بھی پاکستان کی مجموعی ضرورت 29 ہزار میگا واٹ تک ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہم شارٹ فال اور لائن لاسز کو ملا کر سات ہزار میگا واٹ کی کمی کا شکار ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان حکومت نے صرف بغض نواز شریف میں ان منصوبوں کو سوتیلا کر دیا جو نواز شریف دور حکومت میں لگائیں گئے تھے خود نئے منصوبے لگانے سے مکمل ”پرہیز“ کیا۔

بجلی کے ان منصوبوں کو ضروری دیکھ بھال سے محروم رکھا بہت سارے اس لیے غیر فعال ہوئے۔ جان بوجھ کر نہ تو گیس کو کم قیمت پر خریدا گیا بلکہ خریدنے کا آرڈر ہی نہیں دیا گیا کہ اگر ہم نہیں تو جو چاہے مرضی ہو جائے۔ موجودہ حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے اب پاکستان دیوالیہ ہونے سے تو محفوظ ہو گیا ہے مگر مہنگائی کے عفریت کا کیا کیا جائیں؟ اس سوال کا بس ایک ہی جواب ہے اور وہ اسحاق ڈار ہے۔ اسحاق ڈار سے اکثر رابطہ رہتا ہے اور وہ پر یقین ہے کہ مہنگائی کا توڑ کیا جا سکتا ہے اور ڈالر کی طنابیں کھینچی جا سکتی ہے۔

ماضی میں بھی وہ یہ کمال کر چکے ہے کہ وہ ڈالر کو سو روپے سے نیچے لانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور پھر یہ صرف کوئی وقتی طور پر نہیں ہوا تھا بلکہ اس کو ایک مستقل حکمت عملی کے ذریعہ استحکام دے دیا گیا تھا تاکہ عوام مہنگائی سے محفوظ رہ سکیں۔ معاشی مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ ان کو مواقع سے فائدہ اٹھانا بھی خوب آتا ہے۔ عالمی منڈی میں جب پٹرول کی قیمت کم ہوئی تھی تو انہوں نے اس کے ثمرات کو عام آدمی تک منتقل کر دیا تھا اور مہنگائی کی کمر توڑ دی تھی۔

اس وقت پیٹرول کی عالمی منڈی میں قیمت بہت زیادہ ہے مگر صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے بعد پیٹرول کی عالمی منڈی میں قیمت کے کم ہو جانے کے بہت واضح امکانات موجود ہیں۔ اس حوالے سے حکمت عملی کو جلد از جلد بنانے کرنے کی ضرورت ہے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسحاق ڈار جو مسلم لیگ نون کا معاشی چہرہ بھی ہیں، کی وطن واپسی کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ اختیار اب اسحاق ڈار یا ان کی جماعت کا نہیں کہ وہ کب واپس آئیں اور واپس آئیں بھی یا نہیں بلکہ اب ملک کے معاشی حالات طے کر چکے ہیں کہ ان کو آنا ہو گا اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوگی کیونکہ معاشی معاملات میں کامیابی اب انہی کے فیض سے ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments