نوپور شرما کیس: سخت ریمارکس دینے والے سپریم کورٹ کے جج سوشل میڈیا صارفین کے نشانے پر کیوں؟

شکیل اختر - بی بی سی اردو، دہلی


نوپور شرما کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں دیے گئے متنازع بیان کے بعد کھڑا ہونے والا ہنگامہ کسی صورت ٹلنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور اب انڈین سپریم کورٹ کے اُس دو رکنی بینچ کے جج صاحبان سوشل میڈیا پر ہندو دائیں بازو کے صارفین کے ہاتھوں نشانہ بن رہے ہیں جنھوں نے نوپور شرما کے بیانات پر اُن کی سرزنش کی تھی۔

انڈیا کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس پردی والا نے ججوں پر ذاتی نوعیت کے حملوں کے بعد سوشل میڈیا کے استعمال پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس طرح کے غلط استعال کو روکنے کے لیے ضابطے بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

جسٹس پردی والا اس دو رُکنی بینچ میں شامل تھے جس نے جمعہ کے روز نوپور شرما کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیغمبر اسلام کے بارے اُن کے متازع بیان سے پورے ملک کی فضا خراب ہوئی ہے۔

نوپور شرما کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران ججوں نے اُن کے متنازع بیان کے حوالے سے جو سخت تبصرے کیے تھے اس پر سوشل میڈیا میں کئی حلقوں بالخصوص دائیں بازو کے نظریات کے حامی افراد کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

نوپور شرما

نوپور شرما

ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس پردی والا نے کہا ’فیصلوں کے لیے ججوں پر ذاتی حملوں سے ایک ایسی خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی جس میں جج اپنا فیصلہ قانون کے بجائے میڈیا کا موڈ دیکھ کر کرنے لگیں گے۔ اس سے قانون کی حکمرانی کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا فیصلوں کا معروضی تجزیہ کرنے کے بجائے ججوں پر ذاتی نوعیت کے تبصرے کر رہا ہے اور اس رحجان سے عدلیہ کے ادارے کو اور اس وقار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

جشٹس پردیوالا نے مزید کہا کہ ’انڈیا میں، جو ابھی ایک مکمل اور پختہ جمہوریت نہیں ہے، سوشل میڈیا کو اکثر خالص قانونی اور آئینی معاملوں کو سیاسی رنگ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’ہمارے آئین کے تحت قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے ملک میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ضوابط وضع کرنا لازمی ہے۔‘

گذشتہ جمعہ کو جسٹس پردی والا اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل دو ججوں کے بینچ نے نوپور شرما کی وہ درخواست مسترد کر تھی جس میں انھوں نے ملک کی کئی ریاستوں میں اُن کے خلاف دائر کیےگئےمقدموں کو یکجا کر کے دلی منتقل کرنے کی التجا کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

نوپور شرما کا متنازع بیان: ’ایک منھ پھٹ نے پورے ملک میں آگ لگا دی‘

جودھ پور، الور اور اب اودے پور، راجستھان کے شہروں میں کیا ہو رہا ہے؟

کنہیا لال کیس: عینی شاہد نے کیا دیکھا اور پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

جج سوریہ کانت نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ نوپور شرما نے اپنے متنازع بیان سے ملک کی فضا خراب کر دی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت ملک میں جو ہو رہا ہے اس کے لیے نوپور شرما تن تنہا ذمے دار ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ملک کے لیے خطرہ ہیں۔

عدالت کی جانب سے اس نوعیت کے سخت ریمارکس آنے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔

دائیں بازو کی ایک میگزین کی مدیر ایم جے شرما نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے ’کس دفعہ کے تحت نوپور شرما اودے پور کے کنہیا لال کے قتل کی ذمہ دار ہیں؟‘

آنند رنگناتھن نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’نوپور شرما کو اب کولکتہ کی عدالت میں پیش ہونا ہو گا جہاں ممتا بینرجی نے ایک ریلی میں وعدہ کیا ہے کہ ’ہم انھیں چھوڑیں گے نہیں۔‘ انھیں حیدآباد کی عدالت میں جانا ہو گا جہاں جمیل نامی شخص نے کہا ہے کہ ’ہم انھیں چوراہے پر لٹکا دیں گے‘ اور انھیں کشمیر بھی جانا ہو گا جہاں عادل نامی شخص نے ایک مسجد کے مائیک سے اعلان کیا ہے کہ ’ہم ان کا سر قلم کریں گے‘۔۔۔ تھینک یو سپریم کورٹ۔‘

ابھیجیت مجمدار نے ایک ٹویٹ میں جسٹس پردی والا کے ریمارکس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ ’آپ سب کے لیے ضابطے بنائیے لیکن عدلیہ سے جوابدہی اور شفافیت کا کبھی بھی مطالبہ نہ کیجیے۔ ججوں کی تعیناتی کا نظام فرسودہ ہے، یہ پوری طرح اقربا پروری کا شکار ہے۔‘

چانکیہ نام کے ایک صارف نے لکھا کہ ’اسلامی جمہوریہ ہند میں آپ کا خیر مقدم ہے۔۔۔ سپریم کورٹ صرف ایک بات کہنا بھول گئی۔ ان سب کو کھڑے ہو کر کہنا چاہیے تھا۔۔۔ سر تن سے جدا۔‘

دی بنگالی گائی نام کے ایک اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا گیا ہے کہ ’کون ہیں یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ؟ اب حد ہو چکی ہے۔ ان ججوں کو برطرف کرنا چاہیے۔‘

ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ایس این ڈھینگرا نے ’اوپ انڈیا ڈاٹ کام‘ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’اگر وہ ( دونوں جج موصوف ) تقریر کرنا چاہتے ہیں تو انھیں سیاست داں بن جانا چاہیے۔‘

جبکہ دوسری جانب نوپور شرما کے بارے میں جسٹس پردی والا اور جسٹس سوریہ کانت کے جمعہ کے سخت ریمارکس کے بعد نوپور شرما کی گرفتاری کے مطالبے میں بھی شدت آ رہی ہے۔ ان کو ابھی تک گرفتار نہ کیے جانے کے لیے پولیس پر نکتہ چینی بھی کی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments