شربتاں والے گئے تے خربوزیاں والے آ گئے


موجودہ سیاسی صورت حال نے عوام کو بے یقینی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اب یہ سیاسی گرد ذرا بیٹھی ہے تو چلیں عوام نے کوئی راہ تو متعین کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کچھ ایسے حالات پیدا ہوتے جن میں عوام ذرا سکھ کا سانس لے پاتے، لیکن خیر سے یہ نوبت کبھی نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومتوں کے آنے یا جانے سے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس خطے میں کبھی کوئی حکومت قائم نہیں ہوئی جسے چیلنجز کا سامنا نہ ہو۔ بالکل اسی طرح موجودہ حکومت کے سامنے بھی کئی چیلنجز ہیں۔ بہت ساری الجھنیں اس کے سامنے منہ کھولے کھڑی ہیں۔ جن کی حقیقت سے انکار احمقانہ حرکت ہو گی۔

جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں انھیں ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی حکومت کو کوئی مسئلہ درپیش ہی نہ ہو۔ یہ مسائل پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک حل ہو سکتے ہیں یا پھر حکومت پر کہ وہ انھیں حل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔ اور جس طرح کے مسائل ہمیں درپیش ہیں ان کے حل کے لیے غیر معمولی جذبے کی ضرورت ہے۔ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی حکومت جانے لگتی ہے تو وہ خود کو بچانے میں باقی تمام معاملات کو بھلا بیٹھتی ہے۔

اور یہی کام جانے والی حکومت نے بھی بڑے بھرپور انداز میں کیا۔ حکومت خود کو بچانے کے چکر میں ایسے گرفتار ہوئی کہ کسی کو ملکی مسائل یا معیشت سے کوئی سروکار نہ رہا۔ یوں عوام کے۔ سائل میں مزید اضافی ہوا۔ کرونا وبا اور لاک ڈاؤن نے معیشت کو جو نقصان پہنچایا تھا ابھی تک اس کا ازالہ نہیں ہو سکا۔ بے روز گاری اپنے پاؤں پھیلائے جا رہی ہے جسے روکنا اب ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ملکی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں، جو کسی نہ کسی صورت عوام کے خون پسینے سے ہی نکالے جائیں گے۔

موجودہ سرکار سابقہ حکومت کو گرانے میں کامیاب تو ہو چکی ہے لیکن اس کے سامنے ان جیسے مسائل کا انبار ہے۔ نئی حکومت سے کوئی خاص امیدیں بھی وابستہ نہیں کی جا سکتیں کیونکہ اس کے پاس باقی ایک سال ہے۔ اور اس عرصے میں کیا تیر مارا جا سکتا ہے یہ عوام خوب جانتے ہیں۔ ہاں البتہ عوام کو چھوٹے موٹے ریلیف دیے جا سکتے ہیں۔ سابقہ حکومت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے دعوے تو بہت بڑے کیے مگر ان پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔

دعوے کرنا بہت پرانی سیاسی کھیل ہے اور ان کی مدد سے گاہے گاہے سیاستدان اپنے کام نکالتے رہتے ہیں۔ اب یہ وقت گزرے دنوں کو یاد کرنے یا ان پر افسوس کرنے کا نہیں ہے۔ موجودہ سرکار کو چاہیے کہ وہ بڑے دعووں کی روایت کو نہ دوہرائے بلکہ جس قدر ممکن ہو سکتا ہے عوام کو چھوٹے پیمانے پر سکون مہیا کرے۔ گو کہ ایسا ہونا بھی بہت مشکل ہے اور نہ کہیں ایسا کچھ نظر آ رہا ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں کبھی بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہیں۔

آپ دنیا میں کہیں چلے جائیں کوئی بھی قوم غلامی کو ترجیح نہیں دے گی۔ آپ کسی بھی انسان سے پوچھ لیں وہ آزادی کا خواہاں ہی نظر آئے گا۔ اس دھرتی پر ہم کوئی پہلی قوم نہیں ہیں جنھوں نے آزادی اور خود داری کا نعرہ لگایا ہے۔ لیکن بڑی سادہ سی بات ہے کہ اگر ہم بھوکے پیٹ نعرہ لگائیں گے تو اس کی آواز زیادہ سے زیادہ کہاں تک جائے گی؟ اگر پیٹ بھرا ہوا ہو تو پھر بھی بات کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ تو ہمیں ذرا سکون سے سوچنا چاہیے تھا کہ یہاں ہمیں سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہے۔

ہمیں بہ حیثیت قوم اپنے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ لیکن یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس کا مطلب کسی طور بھی یہ نہیں کہ ہم اپنی آزادی اور خودمختاری سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ اور ویسے بھی اگر ہم پوری قوم کو بھوکا مار دیں گے تو پیچھے نعرے لگانے کے لیے کون بچے گا؟ اس کے لیے سب سے پہلے تو قوم کا زندہ ہونا بہت ضروری ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت سے جس قدر ہو سکے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرے۔ ویسے تو یہ حکومت ماضی میں بھی کئی بار بر سر اقتدار آ چکی ہے اور اس نے عوام کا وہ استحصال کیا ہے جس کی ٹیسیں ابھی تک اٹھ رہی ہیں۔ اور اب بھی اگر وہی استحصال جاری رہا اور سابقہ حکومت عوام سے بھوکے پیٹ نعرے لگواتی رہی تو پھر عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments