پنجاب میں اقتدار کا سیاسی دنگل


پنجاب میں اقتدار کی جنگ ایک بڑی سیاسی کشمکش، تناؤ اور ٹکراؤ کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان اس اقتدار کی جنگ کا بڑا فیصلہ 17 جولائی کو پنجاب میں بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے جڑ گیا ہے۔ اگرچہ پنجاب کے وزیر اعلی کا انتخاب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 22 جولائی کو ہو گا لیکن عملی طور پر یہ فیصلہ 17 جولائی کے ضمنی نتائج میں ہی طے ہو جائے گا کہ اقتدار کی پگڑی کس کے سر سجے گی۔

مسلم لیگ نون کو اپنے اتحادیوں کی حمایت سمیت 177 لوگوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کو پانچ مخصوص نشستوں کے نوٹیفیکیشن کے بعد 173 لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ نون کو ان بیس ضمنی نشستوں میں سے 09 جبکہ تحریک انصاف کو 13 نشستیں اقتدار کے حصول کے لیے درکار ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 17 جولائی کا انتخاب دونوں بڑی سیاسی قوتوں کے لیے فیصلہ کن ہو گا اور یہ فیصلہ محض اس حالیہ اقتدار کی جنگ کو ہی نہیں طے کرے گا بلکہ اس کے کچھ خد و خال ہمیں نئے عام انتخاب کے تناظر میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

اگرچہ یہ ایک خالصتاً سیاسی لڑائی ہے اور اس کا فیصلہ سیاسی میدان میں ہی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت اور حزب اختلاف سے جڑے سیاست دانوں نے اس سیاسی لڑائی کو عدالتی محاذ پر لا کر کھڑا کر دیا یا دونوں نے اپنی سیاسی جنگ میں عدالتوں کے کندھوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں نے اس بنیادی نقطہ کو تسلیم کیا کہ وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب میں قانونی اور آئینی سقم تھا اور اسی بنیاد پر دوبارہ وزیر اعلی کا انتخاب کا فیصلہ دیا گیا۔

لیکن نئے انتخاب تک حمزہ شہباز کو وزیر اعلی کے طور پر برقرار رکھنا اور ان کے پہلے سے کیے گئے فیصلوں کی توثیق کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ حمزہ شہباز تو خود وزیر اعلی کے امیدوار ہیں وہ کیسے اپنی غیر جانبداری اور شفافیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ مسلم لیگ نون اگرچہ ایک بڑی سیاسی طاقت رکھتی ہے لیکن اس طاقت میں ان کو انتظامی طاقت کی براہ راست حمایت نے ان کا پلڑا انتخابی نتائج سے پہلے ہی جاری کر دیا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کا فیصلہ عملاً قانون یا آئین سے زیادہ سیاسی مفاہمت سے جڑا نظر آتا ہے جس میں عدالت نے کوشش کی ہے کہ تمام فریقین میں اتفاق رائے کر کے ایسا فیصلہ دیا جائے جو سب کو قابل قبول ہو۔

وزیر اعلی حمزہ شہباز کو تین حوالوں سے برتری حاصل ہے۔ اول وہ وزیر اعلی کے امیدوار ہونے کے باوجود بدستور نئے انتخاب تک خود ہی عملاً وزیر اعلی رہیں گے۔ دوئم کیونکہ وہ وزیر اعلی ہی رہیں گے اور سرکاری مشینری اور انتظامی اختیارات کی موجودگی ان کو اور زیادہ سیاسی سطح پر بھی مضبوط برقرار رکھے گی۔ سوئم وفاق میں ان ہی کی جماعت کی حکومت ہے اور ان کے والد وزیر اعظم ہیں اور یہ حمایت بھی ایک بڑی سیاسی سطح کی طاقت سے کم نہیں۔

لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون کے لیے یہ سیاسی جنگ جیتنا آسان نہیں اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ اول اس وقت عمران خان کی سیاست میں ایک پاپولر سیاست کا عنصر نمایاں ہے اور ان کا سیاسی بیانیہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ دوئم مسلم لیگ نون کے تمام امیدوار پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ہیں اور پارٹی کے لوگوں کو نظرانداز کر کے ان باغیوں کو ٹکٹ کے ملنے پر پارٹی اور پارٹی ورکرز میں مایوسی موجود ہے اور بالخصوص وہاں کے مقامی مسلم لیگی امیدوار انتخابی مہم میں زیادہ پرجوش نظر نہیں آتے۔

سوئم جو مہنگائی اور معاشی بدحالی سے جڑے مسائل ہیں اس کا بھی براہ راست اثر ووٹروں پر پڑ سکتا ہے اور اس تاثر کی نفی ہوئی کہ مسلم لیگ نون کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر ان مسائل کے باوجود مسلم لیگ نون کو انتخابی میدان میں اترنے اور انتخابی مہم یا اس کی حکمت عملی کو ترتیب دینے میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں زیادہ برتری حاصل ہے۔ مسلم لیگ نون کو اس کھیل میں پیپلز پارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے۔

تیرہ جماعتی اتحاد مسلم لیگ نون کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کا مشترکہ سیاسی دشمن یا حریف تحریک انصاف یا عمران خان ہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ان ضمنی انتخابات میں اپنا ایک بھی امیدوار نہ کھڑا کر کے مسلم لیگ نون کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے جو ان کی اپنی پارٹی کی داخلی سیاست کے کئی کمزور پہلووں کو اجاگر کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب کی سیاست میں ان کا مستقبل کیا ہے۔ ان ہی ضمنی انتخاب میں ایک بڑا فیصلہ تحریک لبیک کے امیدوار بھی کریں گے اگرچہ وہ انتخاب تو نہیں جیت سکیں گے مگر ان کے ووٹ فیصلہ کریں گے کہ وہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف میں کس کی جیت کا راستہ ہموار کرتے ہیں یا کس کا ووٹ بینک خراب کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے وقتی طور پر دو بڑے سیاسی حریفوں میں وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے ایک مفاہمتی فارمولہ تو پیش کر دیا ہے مگر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس فارمولہ کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی میں جاری بڑی سیاسی کشمکش، محاذ آرائی، تناؤ یا ٹکراؤ یا ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا عمل ختم ہو جائے گا ممکن نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ سیاسی لڑائی نئے عام انتخابات تک جاری رہے گی کیونکہ اصل لڑائی اگلے عام انتخابات میں پنجاب کے اقتدار پر قبضہ کی سیاسی جنگ ہے۔

اس حالیہ جنگ کا ایک بڑا فیصلہ جہاں ضمنی انتخابات کے نتائج سے ہو گا وہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ضمنی انتخابات کس حد تک شفافیت پر مبنی ہوں گے ۔ کیونکہ تحریک انصاف کو پہلے ہی الیکشن کمیشن پر شدید تحفظات ہیں اور اگر ضمنی انتخابات کے نتائج ان کی توقعات کے برعکس ہوئے تو اول وہ ان نتائج کو قبول کرنے سے ہی انکار کر دیں گے اور دوئم اس بات کا بھی امکان ہو گا کہ وہ 22 جولائی کو ہونے والے وزیر اعلی کے انتخاب کا بھی بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ مطالبہ بھی تحریک انصاف کی جانب سے شدت پیدا کرے گا کہ اگلے عام انتخابات موجودہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں قبول نہیں اور یہ عمل عام انتخابات کی ساکھ پر انتخابات سے پہلے ہی منفی عمل کو جنم دے سکتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف میں جاری اس بڑی سیاسی جنگ کا ایک بڑا دارو مدار بھی الیکشن کمیشن سے جڑا ہوا ہے اور سب کو اندازہ ہے کہ الیکشن کمیشن ہی بڑے امتحان میں ہے۔ اس نے اگر واقعی اپنی ساکھ کو قائم کرنا ہے جو کافی عرصہ سے سوالیہ نشان پر کھڑی ہے تو اسے کچھ واقعی کر کے دکھانا ہو گا اگرچہ یہاں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کی روایت سیاسی فریقین میں نہیں مگر ایک عمومی تصور ہی فیصلہ کرے گا کہ کیا واقعی انتخابات شفاف ہوئے ہیں یا یہ انتخاب بھی انتخاب کم اور سلیکشن سے زیادہ جڑا ہوا تھا۔

خاص طور پر میڈیا، انتخابات کی نگرانی پر مامور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی رائے انتخابی ساکھ کو قائم کرے گی۔ تحریک انصاف کے لیے بھی ان بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات زندگی اور موت کا کھیل ہے۔ کیونکہ اسی نتائج نے ان کے اقتدار سمیت مستقبل کی سیاست کا تعین کرنا ہے۔ تحریک انصاف کا اصل امتحان انتخاب والے دن کی مینجمنٹ سے جڑا ہوا ہو گا جس میں انتخابات کی نگرانی، انتظامات، ووٹروں کو باہر لانا، ووٹ ڈلوانا، پولنگ اسٹیشن کے انتظامات پر نگرانی اور موثر کنٹرول، انتخابی گنتی، پولنگ ایجنٹ جیسے امور اہمیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ آدھے سے زیادہ انتخاب کی اصل کھیل ہی انتخاب والے دن اپنی اعلی صلاحیتوں کو موثر انداز میں بروئے کا رلانا اور انتخابی نتائج کو اپنے حق میں کرنا ہوتا ہے۔ وگرنہ بڑی سے بڑی انتخابی مہم اور پرجوشیت بھی انتخاب والے دن اپ کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی۔

اس حالیہ لڑائی میں کیونکہ ہر محاذ پر سیاسی تقسیم بہت گہری ہے۔ اس تقسیم نے ووٹروں اور سیاسی کارکنوں اور ہر طبقہ کو بری طرح جکڑ لیا ہے اور اسی وجہ سے یہ لڑائی کمزور بلکہ کافی طاقت پکڑے گی۔ خاص طور پر یہ جو سیاست میں اختلاف رائے نے سیاسی دشمنی، سیاسی تعصب یا نفرت میں بدل دی ہے یہ زیادہ خطرناک کھیل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس لیے پنجاب کی لڑائی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس لڑائی کی ابتدا 2023 کے عام انتخابات کے تناظر میں نئی سیاسی صف بندی کی بنیاد پر شروع ہوئی ہے۔ کیونکہ دونوں جماعتوں یعنی مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کا بڑا سیاسی میدان یا جنگ پنجاب میں ہی لڑی جائے گی اور کوئی آسانی سے اس جنگ میں دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments