قرآن کی اجمالی تصویر [پانچویں قسط]


 

قرآنی بیانیہ ایسا مستند بیانیہ ہے جو ہزاروں سال پر محیط مذہبی تاریخ و روایات کی تصحیح کرتا ہے۔ قرآن نے ماضی کی امتوں اور قوموں کے خیالات، عقائد اور روایات کی تصحیح کی ہے، بطور خاص اللہ اور اللہ کے رسولوں کی طرف جو غلط اور جھوٹی باتیں منسوب کی گئیں تھیں قرآن نے ان کی نفی کی اور اللہ اور انبیاء کرام کے بارے میں صحیح فکر پیش کی، ان پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور ان کے تعلق سے صحیح تصور پیش کیا۔ مثلاً حضرت عیسیؑ کے بارے میں فرمایا:

وقولھم انا قتلنا المسیح عیسى ابن مریم رسول اللہ وما قتلوہ وما صلبوہ ولٰکن شبہ لھم ۚ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شکٍ منہ ۚ ما لھم بہ من علمٍ الا اتباع الظن ۚ وما قتلوہ یقیناً‎﴿ 157 ﴾بل رفعہ اللہ الیہ ۚ وکان اللہ عزیزاً حکیماً ‏ ‎ (النساء: 158 )

”اور ان کے اس دعوے کے سبب کہ انہوں نے اللہ کے رسول یعنی عیسیٰ مسیح ابن مریم کو قتل کر دیا ہے (ہم نے ان پر لعنت کردی) ۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے عیسی مسیح کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی انہیں سولی دی، البتہ یہ سارا معاملہ (اللہ کی طرف سے ) ان کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔ اور جو لوگ اس معاملے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں اس (واقعہ) کا کچھ علم نہیں بلکہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں، حقیقت میں انہوں نے عیسیٰ مسیح کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ (ایسا کرنے پر) بڑی قدرت رکھنے والا ہے اور زبردست حکمت والا ہے“

اسی طرح انسان کی مذہبی، اعتقادی اور معاشرتی زندگی میں جو توہمات اور رسم و رواج پیدا ہو گئے تھے اور جو غیر سائنٹفک سوچ پیدا ہو گئی تھی اس کو غلط قراردیا اور اس کی اصلاح کی۔ بلکہ قرآن کے مطابق نبیﷺ کی بنیادی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ انسانی معاشرے سے توہمات اور غیر مصدقہ و غیر سائنٹفک افکار و خیالات اور روایات کو ختم کریں۔ سورہ ٔاعراف میں ہے :

یامرہم بالمعروف وینھاہم عن المنکر ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ویضع عنھم اصرہم والاغلال التی کانت علیھم ۚ [الاعراف: 157 ]

”نبی امی لقب (کا کام یہ ہے ) کہ وہ لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں، ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں۔ اور رسم و رواج کے جو بوجھ ان پر لدے ہوئے ہیں انہیں اتارتے ہیں اور ان کے پیروں میں پڑی ان بیڑیوں کو کھولتے ہیں جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں“

قرآن نے عالم انسانی کو ’علم‘ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے (الزمر: آیت: 9 ) جاننے والوں کا مرتبہ بیشک بڑا ہے۔ حامل قرآن نبیﷺ کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو علم و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔ ارشاد ہے :

کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلو علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمة ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون (‎البقرۃ: 151 ﴾‏

”جیسا کہ ہم نے تمہارے درمیان سے ہی ایک رسول بھیجا، جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے، تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے“

قرآن کے کئی مرکزی موضوعات ہیں۔ توحید بھی قرآن کا بنیادی اور مرکزی موضوع ہے، انسانوں کی دنیوی اور اخروی رہنمائی بھی مرکزی اور بنیادی موضوع ہے۔ اسی طرح دنیا میں قیام امن و انصاف بھی قرآن کے بنیادی اور مرکزی موضوعات میں سے ہے۔

قرآن و حدیث اور سیرت رسولﷺ پر غور کرنے سے یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ انسانی معاشروں میں انصاف کی فراہمی قرآن کا سب سے بنیادی اور اہم موضوع اور مطالبہ ہے، جتنے بھی قوانین ہیں اور جتنی بھی اخلاقیات کی باتیں ہیں یہ سب اسی ایک چیز کی فراہمی کے لیے ہیں، مثلاً اسلامی شریعت میں جزا و سزا کے جتنے بھی احکام ہیں وہ سب اسی لیے ہیں کہ معاشرے میں فساد برپا نہ ہو، اسی لیے زکوٰۃ ہے اور اسی لیے جہاد ہے۔ قرآن میں بعض اعمال کو ثواب اور گناہ کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے مگر گناہ اور ثواب سیکنڈری چیزیں ہیں، مثلاً بھوکے کو کھانا کھلانا ثواب کا کام ہے، مگر اس پورے عمل سے اصل مقصود تو بھوکے انسان کو کھانا کھلانا ہے۔

انصاف کی فراہمی سے مقصود معاشرے کو شروفساد سے روکنا ہے اور اصلاح کی طرف لے جانا ہے۔ اس کے متوازی اگر قرآن میں کوئی اور بنیادی فکر ہے تو وہ توحید ہے، انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے یہ قرآن کا دوسرا بنیادی موضوع ہے۔ آپ اسے پہلا بھی کہہ سکتے ہیں باقی جو کچھ بھی قرآن میں ہے، غیب کی باتیں ہیں، سائنسی اشارے ہیں، علم و حکمت کے موتی ہیں اور اخلاقی و تعزیراتی قوانین ہیں وہ سب کے سب انہیں دو موضوعات کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے ہیں۔

نزولی سطح پر قرآن کا ایک پروگریسو پہلو بھی ہے، قرآن جس دین کی تعلیم دیتا ہے اس دین کی بنیادی باتیں حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی نازل کی گئی تھیں، خاص طور پر توحید کی تعلیم، پھر وقتاً فوقتاً دیگر انبیاء کرام تشریف لاتے رہے اور ان کی شریعتیں حالات و ظروف کے اعتبار سے بدلتی رہیں۔ قرآن اسی دین کا آخری ایڈیشن ہے، قرآن سابقہ تمام شریعتوں سے بہت مختلف بھی ہے۔ قرآن کے اس پروگریسو پہلو کی قرآن سے شہادت ملتی ہے۔ قرآن میں ہے :

ما ننسخ من آیةٍ او ننسھا نات بخیرٍ منھا او مثلھا ‎﴿ 106 ﴾‏

”جب بھی ہم کوئی آیت (یا حکم) مٹاتے ہیں یا (آپ ﷺ کے حافظے سے ) بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ کوئی دوسری آیت یا حکم لے آتے ہیں یا کم ازکم اس جیسا ہی کوئی حکم یا آیت لاتے ہیں“

یہ نسخ اپنے اندر ایک پروگریسو پہلو رکھتا ہے، یہ نسخ شریعتوں کے مابین تو ہوا ہی ہے اور ایک ہی شریعت کے درمیان بھی ہوا ہے۔ اس پروگریسو پہلو پر خود قرآن کا تبصرہ یہ ہے ”نات بخیر منہا اور مثلہا“ ۔ مختلف شریعتوں یا ایک شریعت کے احکام میں جو نسخ ہوتا ہے اس کی علت بہتر سے زیادہ بہتر کی طرف عدول کرنا ہے۔ اور اب وحی کے بعد کے زمانے میں قرآن کے اس پروگریسو پہلو کو زندہ رکھنے کی تمام ذمہ داری ’اجتہاد‘ پر آ پڑی ہے۔ اسی لیے وہ لوگ اہم ہو جاتے ہیں جو اجتہاد کرنے کے اہل ہوں۔ اور اسی لیے حدیث شریف میں یہ کہا گیا ہے کہ مجتہد کے لیے دو نیکیاں ہیں، ایک اجتہاد کے لیے کوشش کرنے کی اور دوسری صائب رائے اختیار کرنے کی۔ اگر وہ رائے اختیار کرنے میں غلطی کر جائے تو اس کے لیے پھر بھی ایک نیکی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر فاروق کے لیے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ یہ غالباً حضرت عمرؓ کی اسی صفت یا خصوصیت کی وجہ سے ہے کہ حضرت عمرؓ اجتہاد کے معاملے میں دیگر تمام صحابہ کرام سے فائق تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں صحابہ کرام کے مشورے سے جتنے اجتہادات کیے ہیں اتنے اجتہادات شاید ہی کسی اور خلیفۂ اسلام نے کیے ہوں۔ ان کا تعلق دینی و فقہی مسائل سے بھی ہے اور تہذیبی و تمدنی اور سیاسی و معاشرتی حالات سے بھی۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں ان کی دوراندیشی، مومنانہ فراست اور حالات و مصلحت پر مبنی اجتہادات کو مشعل راہ بنانے اور انہی پر اسلامی عقلانیت و دانش کو فروغ دینے کے بجائے ان کے بعض اجتہادات کو بدعت کے خانے میں ڈال دیا گیا۔

قرآن اپنے آفاقی پیغام، دعوت اور اصولوں کے لحاظ سے وقت اور مقام کی نسبتوں سے بہت بلند ہے، تاہم وہ اپنی نزولی نسبتوں کے اعتبار سے او ر جوابی بیانیہ ہونے کے اعتبار سے وقت اور مقام کے ساتھ مقید بھی ہے۔

قرآن میں ابنیاء کرام کی جو سرگزشتیں بیان ہوئی ہیں ان کا ایک حصہ زمینی حقائق سے پرے آخرت اور عالم بالا سے متعلق ہے تاہم ان کا بڑا حصہ زمینی اور زمانی حقیقتوں کو بیان کرنے والا ہے۔ ایک غیر نبی کی جو سرگزشت ہوتی ہے اسی طرح کی سرگزشت ہے، وہی دوڑ دھوپ اور وہی جدوجہد، وہی جذبے اور وہی ذوق و شوق، صحت و بیماری، امن اور جنگ، زندگی اور موت، نیز وہی آزمائشیں اور آسائشیں جو ایک غیر نبی کو دنیاوی زندگی میں پیش آتی ہیں۔ اور ساتھ ہی اس میں جنت و جہنم اور جزا و سزا نیز وہاں کے احوال کی تفصیلات بھی ہیں۔

اس طرح غور کریں تو قرآنی بیانیہ بیک وقت زمین و آسمان سے جڑا ہوا ہے۔ وہ دیگر کتابوں کی طرح نہیں ہے، نہ وہ خالص فکشن ہے اور نہ ہی محض سائنس۔ قرآنی بیانیہ انسان کی دونوں زندگیوں میں رہنمائی کے لیے ہے، دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے لیے بھی اور آخرت کی زندگی کی رہنمائی کے لیے بھی۔

قرآن کا بیانیہ اپنے اسلوب کے اعتبار سے اس طرح کا ہے کہ اس میں استثنیات بھی رکھے گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی بات تیغ بے دریغ کی طرح بولی اور کہی جا رہی ہے اور اپنے معانی و مدلولات میں انتہاؤں کو چھو رہی ہے، جس میں نہ تو لچک ہو اور نہ استثنیات ہوں۔ انسان جب ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، بیانات دیتے ہیں اور حکم لگاتے ہیں تو اپنی باتوں میں اور حکم ناموں میں رطب ویابس سب کو سمیٹ اور لپیٹ لیتے ہیں۔ پھر وہ اپنی بعض باتوں کو للاکثر حکم الکل کے ذریعہ جسٹیفائی بھی کرتے ہیں۔ مگر قرآن کا انداز ایسا نہیں ہے، قرآن اپنے بیان میں استثنا کرتے ہوئے چلتا ہے اور اعتدال کی روش اپناتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ ذیل کی آیات پر نظر ڈالیں :

قال فبعزتک لاغوینھم اجمعین، الا عبادک منھم المخلصین
ثم تولیتم الا قلیلاً منکم ‎﴿البقرہ: 83 ﴾‏
فلما کتب علیھم القتال تولوا الا قلیلاً منھم ‎ (البقرہ: 246 ﴾‏

پہلی آیت میں ابلیس کا قول و قرار نقل ہوا ہے کہ اس نے اللہ کے بندوں کو راہ حق سے بہکانے کی اللہ سے خصوصی اجازت حاصل کی اور وہ اس پر کاربند ہے، مگر وہ جانتا تھا کہ جو اللہ کے مخلص بندے ہیں انہیں نہیں بہکا سکے گا۔ اس لیے اس نے الا عبادک منھم المخلصین نیک بندوں کا استثنا کیا۔

بعد کی دونوں آیتوں میں بنی اسرائیل سے ہی خطاب ہے۔ قرآن گرچہ یہاں للاکثر حکم الکل کے مطابق پوری قوم پر اللہ کے احکام و تعلیمات سے اعراض کرنے اور اللہ کے فرض کردہ قتال سے بھاگنے کا حکم لگا سکتا تھا مگر قرآن نے یہاں استثنا کرنا ضروری سمجھا۔

[جاری ہے ]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments