تقدیس سے ہٹ کر بھی حج کے اجتماع کو استعمال کیا جا سکتا ہے


حج اسلام کا پانچواں اور نہایت اہم رکن ہے جو زکوٰۃ کی طرح صرف صاحب حیثیت طبقے کے لیے ہی فرض کیا گیا ہے۔ حج کا فریضہ سعودی عرب کے شہر مکہ المکرمہ میں ذی الحجہ کے مخصوص ایام میں مخصوص عبادات کی شکل میں ادا کیا جاتا ہے۔ مذہب اسلام کا آغاز اسی سرزمین سے ہوا جہاں سے یہ چار سو پھیل گیا۔ پیغمبر اسلام نبی کریم ﷺ کی جائے ولادت اسی شہر مکہ میں ہے جبکہ روضہ رسول مدینہ منورہ میں ہے۔ مسلمان اپنی مذہبی عقیدت اور دلی لگاؤ کے باعث ہر سال لاکھوں کی تعداد میں فریضہ حج اور عمرہ ادا کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔

عمرے یا حج کی نیت سے سعودی عرب جانا ہر مسلمان کی دلی خواہش ہے۔ حالانکہ یہ صاحب نصاب کے لیے ہے لیکن پھر بھی بہت سے ایسے افراد بھی وہاں جانے کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں جو بہت مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ زاد راہ کے لیے وہ زندگی کا لمبا حصہ اپنی جمع پونجی جوڑ کے رکھتے ہیں۔ بعض اوقات لوگ کمیٹی ڈال کر پیسے جمع کرتے ہیں جن میں بیشتر ایسے بھی ہوتے ہیں جو عمر یا حج سے واپسی پہ بقیہ کمیٹیاں ادا کرتے ہیں اس طرح وہ قرض کے پیسوں سے حج یا عمرہ ادا کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مخیر حضرات کے خرچ سے زیارت کرنے چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ مفتیان اکرام سے ایسے سوالات پوچھتے بھی پائے گے ہیں کہ کیا ہم اپنے مرحوم عزیز و اقارب کے نام پہ کسی کو حج یا عمرے پہ بھیج سکتے ہیں یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس مد میں حج یا عمرہ کرنے جاتے ہیں۔

اس سارے پس منظر میں ایک چیز جو ابھر کر سامنے آتی ہے کہ حج اپنی اصل روح کھو دینے کے بعد محض رسوم کی ادائیگی تک محدود ہو گئی ہے جس کے پیچھے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا غلبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اسی باعث اس پہ تقدیس کی بڑی دبیز تہہ چڑھ چکی ہے۔

کیا حج کی عبادت کے پیچھے محض ایک ہی مقصد کارفرما تھا کہ لوگ دنیا بھر سے مکہ مکرمہ آ کر اللہ کے گھر کو دیکھ جائیں؟ یا اس تقدیس سے ہٹ کر اس کا کوئی اور مقصد بھی ہو سکتا ہے؟

کوویڈ سے قبل تیس سے چالیس لاکھ افراد حج کے لیے آ رہے تھے سارا سال عمرے پہ آنے والے اس کے علاوہ ہیں۔ یقیناً اس سال بھی اسی کے لگ بھگ لوگ موجود ہوں گے۔ جو حج کی رسوم ادا کرنے کے بعد وہاں سے اپنے عزیز و اقارب کے لیے آب زم زم، کھجوریں، تسبیح، جائے نماز سمیت کئی دیگر تحائف خرید کر واپس لوٹ جائیں گے۔ کیا ہم لوگ اس موقعہ کو ضائع تو نہیں کر رہے؟

ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ یہ سمجھیں دنیا جس گلوبلائزیشن سے آج روشناس ہوئی ہے ہمارا مذہب اسے ڈیڑھ ہزار برس قبل ہی روشناس کروا چکا تھا۔ جس کثیر الثقافتی معاشرے کے قیام کے لیے دنیا اب خطوں کی صورت میں جڑ رہی ہے اسلام اس کا بندوبست اسی عالمی اجتماع کے ذریعے پہلے سے ہی کر چکا ہے۔

مسلمان ممالک کی تنظیم او۔ آئی۔ سی کو اس مد میں بہت زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام مسلمان ممالک کے سربراہان اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ حج کے موقعہ پہ موجود ہوں۔ مسلمان ممالک اسی طرز پہ مخصوص ایام میں اکٹھا ہوں جیسے ستمبر کے میں ہر سال اقوام متحدہ کے فورم پہ ساری دنیا کے سربراہان اکٹھے ہوتے ہیں۔ سربراہی اجلاس کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کے وزرا ء کے اجلاس بھی سالانہ بنیادوں پہ کروائے جائیں جس میں ایک دوسرے سے سیکھنے اور تجربات شیئر کرنے کا موقعہ ملے گا۔

حج صاحب حیثیت پہ فرض ہے اس لیے تاجروں اور بزنس کمیونٹی کو تحریک دی جائے کہ وہ اپنی مصنوعات کے ساتھ اس عالمی اجتماع میں شرکت کریں جس سے ان کی مصنوعات کو عالمی سطح پہ نمائش کا موقعہ ملے گا۔ کئی لوگ ایسی مصنوعات میں دلچسپی لیں گے اور ان سے خریداری کے لیے معاہدے کیے جائیں گے جس سے معاشی طور پہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ناصرف قریب آئیں گے بلکہ معاشی انقلاب برپا ہو جائے گا۔

یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ مختلف بادشاہان کے ناموں پہ ٹیلنٹ ہنٹ ایوارڈز کا اعلان کرنے سے کئی مسلمان ہنر مند افراد جو اپنے ہنر کی نمائش کر نہیں پاتے یا سرمائے کی کمی اس کے ہنر کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہے انہیں ایک بہت بڑا پلیٹ فارم میسر آ سکتا ہے۔ مالدار طبقہ ایسے ہنر مند افراد کی سرپرستی کرے گا تو مسلمان ممالک جو ابھی ٹیکنالوجی کے لیے مغربی ممالک کے محتاج ہیں جلد ہی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں۔

اسی طرز پہ کئی دیگر شعبوں میں حج کے اس ایونٹ کا استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سارے پراسس کے سامنے جو رکاوٹ ہے وہ مسلکی بنیادوں پہ ممالک میں سیاسی اختلاف ہے۔ شیعہ سنی اس اختلاف کے باعث دونوں کمیونٹیز اپنے علیحدہ علیحدہ مراکز قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ایران، عراق اور شام میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جانے والے بھی کسی طور پہ کم نہیں ہیں۔ جو کہ ایک دوسری خوش آئند بات ہے وہاں پہ بھی اسی ایکٹیویٹی کو دہرایا جا سکتا ہے۔

لیکن طرفین میں علما اکرام پہ بھاری انویسٹمنٹ کر کے ان عوامی اجتماعات کی محض تقدیس کی نظر سے رسم کی حد تک محدود کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ عوامی سطح پہ اٹھنے والی تحریکوں کے نتیجے میں حکمران طبقے کو اس ضمن میں کوشش کرنے پہ مجبور کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ وہ حج جیسے عظیم اجتماع کو انسانی مفاد کے بہت بڑے مرکز میں تبدیل کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments