میں جلتا صحرائے کاچھو ہوں!


میں تپتا صحرائے کا چھو ہوں۔ میں صدیوں سے پیاسا ہوں۔ بارش نہیں پڑے تو میں ایک بوند کو ترستا ہوں۔ میرے لیے سندھی زبان میں محاورہ ہے کہ بارش برسے تو کا چھو امیر ورنہ غریب سے بھی غریب۔ میں کیرتھر پہاڑی سلسلے کے قریب تر ہوں۔ سمجھو کہ اس کی گود میں قدیم زمانے سے تپتی جلاتی دھوپ میں تپتے جلتے بھی صدیوں سے تاریخ، تہذیب اور زرخیزی کی علامت رہتا آیا ہوں۔

میرا اور منچھر جھیل کا وجود سندھ کے شمالی شہروں کشمور اور کندھ کوٹ کے قریب سے دریائے سندھ کی بہتی اور جنوب کی طرف یہاں سے گزرتی بڑی شاخ کے سوکھنے یا خشک ہونے کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ دریائے سندھ کی وہ شاخ (بڑی نہر) منچھر جھیل کے قریب پہاڑوں سے ٹکراتے، منچھر کو وجود میں لانے کے بعد سیہون کے لعل شہباز باغ والے علاقے کے قریب اڑل واہ (نہر) میں سے گزرتی دوبارہ دریائے سندھ میں جا کر پڑتی تھی۔ جو بھی قدیم تہذیب کے آثار ہیں میری گود میں ہیں وہ اس بہتی بڑی شاخ کے کنارے پر ہیں۔ جب دریائے سندھ کی یہ شاخ سوکھی تو میں برپا تو ہوا مگر تپتی دھوپ میں منچھر کی طرح پیاسا ہی رہ گیا۔

سندھ کے ضلع دادو کی جوہی تحصیل سے شمال کی طرف میں قدیم زمانے سے سبی بلوچستان کے علاقے ڈاڈھر تک پھیلا ہوا تھا مگر اب سکڑ کر سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ اور جیکب آباد تک محدود کیا گیا ہوں۔ بلوچستان کے علاقے بیلپٹ، جھٹپٹ اور ڈاڈھر والے میرے حصے کو اب کچھی کہتے ہیں۔ ورنہ میں صحرائے تھر، روہی اور چولستان کی طرح وسیع علاقے پر پھیلا ہوا تھا۔ میں قدیم ترین زمانے سے وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب کی پرورش کرتا آیا ہوں۔ جن کے نشانات اب بھی میرے سینے پر موجود ہیں اور میری طرح بے دھیانی کا شکار ہیں۔

جغرافیائی طور پر میں دو حصوں میں تقسیم ہوں۔ ایک کندھی کا علاقہ جو کیرتھر پہاڑوں کے قریب لال ریت والا علاقہ ہے اور دوسرا پٹ یعنی کندھی کے بعد میدانی یا صحرائی علاقہ ہے۔ دونوں حصوں کو قدیم زمانے سے پہاڑوں میں سے نکلتے بارانی ندی نالے سیراب کرتے آئے ہیں۔ اب میری پیاس کا علاج اور میری زرخیزی کا انحصار یہ ہی بارانی ندی نالے ہیں جن تغیانی میرے لوگوں کے لیے سیلاب کا سبب بھی بنتی ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ندی نالے ہیں جن میں پہاڑوں میں سے قدرتی چشموں کا پانی صدیوں سے میری طرف بہتا چلا آیا ہے۔

ان چشموں والے پانی کے نزدیک بھی قدیم تہذیب نے جنم لیا تو زرعی آبادی یا کاشتکاری بھی ہوتی جلی آئی ہے۔ جب بادل آتے ہیں تو قدیم زمانے سے لوگ میرا لوک گیت گاتے آئے ہیں جو سندھی زبان میں ہے کہ ”سمہہ میں سردار (اللہ) کا چھو کوڈ (خوشی سے ) وسائیندو (برسائے گا) ۔ ہوہاں ہو۔ ہوہاں ہو“ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ خوشی اور اپنی رحمت سے بادل برسائے گا اور کا چھو میں سرسبزی، خوشحالی اور شادابی ہوگی۔

میرے سینے پر بسنے اور رہنے والے پہلے ممکنہ طور پر ڈراوڑی زبان بولتے اور لکھتے تھے کیوں کہ میرے قریب پہاڑوں پر کندہ انڈس اسکرپٹ ملی ہے۔ پھر سندھی زبان، پالی اور سنسکرت بولی جاتی تھی۔ پالی اور سنسکرت دونوں یہاں پہاڑوں پر نقش ہیں۔ جو بدھ ازم اور ہندو ازم کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایران کے دارا اول نے تو مجھے ایران سے ملا دیا تھا اس لئے پہلوی، فارسی بھی یہاں رائج کی گئی جو مغل دور سے تالپور دور ( 1843 ء) تک رہی۔ اسلام کے آنے کے بعد عربی بھی رائج ہوئی مگر عوام سندھی زبان اور سرائیکی زبان بولتا آیا۔ مغلوں نے مجھے بلوچوں کو سرکاری طور پر جاگیر کے طور پر دے دیا تو یہاں بلوچی زبان پروان چڑھی۔ اب بلوچی، براہوی، سندھی اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں اور اب سب زبانیں بولنے والے میرے ہی ہیں۔

میں کتنا قدیم ہوں؟ اس سوال کا جواب میرے سینے پر وادیٔ سندھ کی تہذیب کے موجود آثار ہی دے سکتے ہیں۔ 6000 سے 7000 سال قدیم غازی شاہ ٹیلہ ہی شاہد ہے جہاں میسوپوٹیمیا، آمری اور موہنجو دڑو کے آثاروں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ موہنجو دڑو کے ہم عصر پیر لاکھیو، علی مراد ٹیلہ، لو ہم جو دڑو، واہی پاندھی یا کو ٹیرو دڑو بتا سکتے ہیں کہ میں کب سے صفحہ ہستی پر قائم ہوں۔ مطلب کہ میں قبل از مسیح سے صفحہ ہستی پر موجود ہوں۔

میری گود میں چاہوں جو دڑو، آمری، ہڑپہ، موہنجو دڑو کی تہذیب کے آثار بھی ہیں تہ موریا خاندان، ساسانی، راء خاندان اور برہمن خاندان کی حکمرانی میں بدھ مت اور ہندو مت اثر انداز رہے جن کے نشان بھی ہیں۔ موریا خاندان کی حکمرانی ( 180۔ 322 ق۔ م) سے برہمن خاندان ( 712 ء۔ 632 ء) تک مجھے بدھیہ کہتے تھے یعنی بدھ مت والوں کا علاقہ۔ یقین نہ آئے تو تاریخ کی کتاب چچنامہ پڑھیں۔ اسلام کے بعد عرب اور سومرہ دور سے لے کر انگریز دور تک کے آثار موجود ہیں جو میری طرح بے یار و مددگار ہیں۔

میں نے غیر ملکی حملہ آوروں کی تلواروں اور تیروں سے اپنے لوگوں کا خون بہتے دیکھا اور میرے ہی سینے میں اجتماعی قبروں میں میرے وہ لوگ دفن کیے گئے مگر میں اب اپنوں کے زخم اور درد جھیل رہا ہوں۔ بے دھیانی کی سلگتی آگ میں سلگ رہا ہوں اور سلگتے جیتا چلا آ رہا ہوں۔ اور شاید آنے والے وقت میں بھی جلتا اور سلگتا ہی رہوں۔ اب تو کئی سالوں سے بارشیں بھی مجھ سے روٹھ گئی ہیں۔ اب میں پیاسا صحرائے کا چھو ہوں۔ ہاں میں سلگتا جلتا صحرائے کا چھو ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments