قربانی اور غریبوں کا غم


چند نام نہاد ”مذہبی جدت پسندوں“ اور لبرل و سیکولروں کی جانب سے ان بابرکت ایام میں ایک مرتبہ پھر فریضہ حج اور قربانی جیسی اسلامی عبادات پر سوالات کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ اس کی حیثیت کو متنازع یا مشکوک ٹھہرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اتنی بڑی رقم کو ”ضائع“ کیوں کیا جاتا ہے؟

اسے غریبوں پر کیوں خرچ نہیں کیا جاتا؟

مسلمان کا جواب تو یہی ہے کہ اسلام کے احکامات، آئمہ، فقہا اور علماء کے فتوے اور جن پر تواتر کے ساتھ بلاشک و شبہ اور بلا تردد عمل ہوتا چلا آ رہا ہے، اس پر کسی کو ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے ایسے تمام ”دانشور“ اور ”مفتیان“ اپنے اپنے ”قبیلے“ کے پیروکاروں کو ہی فتوے جاری فرمائیں کہ وہ کم از کم ایک ماہ کے لیے اپنے ان اخراجات میں ”کفایت شعاری“ سے کام لیں :

کتے پالنے کے،
شراب و کباب کے،
بنکاک، سنگاپور اور یورپ کے ”مخصوص“ دوروں و مشاغل،
شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں فضولیات،
مہنگے ہوٹلوں کے قیام و طعام،
فالتو و غیر ضروری ملبوسات اور زیورات،
خواتین و حضرات کے میک اپ و ”پینٹنگ“ کے اخراجات پر

ہمیں یقین ہے کہ اگر اپنے معاشرتی سٹیٹس کو کچھ وقت کے لیے ہی سہی، نیچے رکھا جائے تو بڑی بچت ہو سکتی ہے اور یقینی ہے کہ اس سے غرباء کی تشفی ممکن ہوگی، چاہے عارضی ہی سہی۔

متجددین حضرات کی طرف فتوے آتے رہتے ہیں کہ آج کے حالات میں کہ غریب دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں، لہذا قربانی پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کی بجائے اسے غریبوں کو دیا جائے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہو پائے۔ ظاہری طور پر یہ بہت خوش نما خیال ہے لیکن درحقیقت یہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے، اس کی اہمیت اور حیثیت کم کرانے کے جتن ہیں۔ بلاشبہ مستحقین کے ساتھ تعاون کرنا واجب ہے لیکن دو نیک کاموں کو مدمقابل لا کھڑا کرنا ہرگز دینی فکر نہیں۔ قربانی کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ کا بھی حکم ہے تاکہ معاشرے میں نادار لوگوں کے ضروریات کا بھی خیال رکھا جا سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے بلاناغہ تواتر کے ساتھ قربانی کا اہتمام فرمایا ہے۔ ان کی نظر سے معاشرے میں موجود غربت ہرگز بھی پوشیدہ نہیں تھی۔

*صحیح بخاری میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ منقول ہے۔ *

رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ایک عورت آئی اور اس نے اپنا نفس رسول اللہ ﷺ کے سپرد کر دیا کہ اس کی جہاں چاہیں شادی کر دیں۔ ایک غریب کنوارے صحابی وہاں موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اس کی شادی آپ مجھ سے کر دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ”تمھارے پاس اسے حق مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟“ اس نے کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے تو لے آنا ہم وہی حق مہر بنا کر اس کا نکاح تجھ سے کر دیں گے۔ وہ صحابی اپنے گھر گیا مگر غربت کا عالم یہ تھا کہ گھر سے لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہ ملی۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میرے پاس ایک چادر ہے۔ اس میں سے آدھی میں حق مہر میں اسے دے دیتا ہوں اور آدھی خود رکھ لیتا ہوں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”وہ آدھی نہ آپ کے کسی کام آئے گی اور نہ اس کے کام آئے گی۔“

وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا رہا مگر اٹھ کر جانے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور پوچھا: ”تمھیں قرآن میں سے کچھ یاد ہے؟“ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ان سورتوں کے عوض تمھارا نکاح اس سے کر دیا ( یعنی وہ سورتیں تم اسے یاد کروا دینا ) ”

( صحیح البخاری : 5121 )

اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دور نبوت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غربت کا کیا عالم تھا۔ ایک صحابی کے پاس حق مہر دینے کے لیے جو کہ فرض تھا، ایک لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی چاندی اور سونا تو دور رہا۔

کتب احادیث میں ایسی غربت کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔
▪️ اب آئیے اصل مسئلہ کی طرف

”رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں دس سال گزارے اور ہر سال آپ نے قربانی کی حتی کہ ایک سال سو اونٹ نحر کیے۔ آپ ﷺ نے ان دس سالوں میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اس سال ہم قربانیاں نہیں کریں گے بلکہ قربانی کا پیسہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر خرچ کریں گے۔

اگر قربانی کے جانور ذبح کرنے کی بجائے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر پیسہ خرچ کرنا قربانی سے افضل ہوتا تو نبی کریم ﷺ ضرور اس کا حکم دیتے مگر آپ نے تو شادی کی استطاعت نہ رکھنے والوں سے فرمایا :

”اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کر لے اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، اس لیے کہ یہ روزہ اس کے لیے ( گناہ سے بچنے کی ) ڈھال ثابت ہو گا۔“

( صحیح البخاری : 5066 )

جوں جوں قربانی کے ایام قریب آئیں گے، غریبوں کے بہت سے خیرخواہ ( لبرل ) اپنی بلوں سے نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ ان کا مقصد غریبوں کی حمایت نہیں بلکہ شعائر اسلام کی تحقیر ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں شعائر اسلام کا بغض اور نفرت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔

قربانی ایک عظیم عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ شکوک و شبہات سے بچیے اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں جانور ذبح کیجیے۔ اسی میں خیر اور بھلائی ہے۔ ”

لبرل حضرات، خورشید ندیم صاحب، قاری حنیف ڈار اور دیگر متجددین حضرات اس پہلو کا بھی مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائیں۔

درحقیقت غربت کا خاتمہ خیرات کی تقسیم سے نہیں ہو گا بلکہ یہ انصاف کے قیام سے ہی ختم ہو سکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انصاف کے قیام میں ہمارا سیکولر طبقہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

یہ وقت ہے ملک پاکستان میں اسلامی اصولوں کو اپنانے، آزمانے اور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا۔ اگر مذہب کا لبادہ اوڑھے سیکولر اور لبرل واقعی غریبوں اور انسانیت کے خیر خواہ ہیں تو آئیں جڑ سے ان مسائل کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے الہامی ہدایات، احکامات اور تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا تجربہ بھی کر لیں اور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد نہ سہی لیکن کم از کم اس کی ضرورت اور اہمیت کو تو تسلیم کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments