دادا بہت یاد آتے ہیں


انسانی رشتے سارے ہی خاص ہوتے ہیں لیکن جوان پوتے اور بوڑھے دادا کا رشتہ بہت انمول ہوتا ہے، خاص طور پر جب دادا 102 سال کا نوجوان ہو۔ آپ کو حیرت ہو گئی کہ 102 سال کا بوڑھا دادا کیسے جوان ہو سکتا ہے؟ جی ہاں یہ کوئی افسانوی کہانی نہیں بلکہ میری اور میرے دادا کی دوستی کی حقیقی کہانی ہے۔ دادا پوتا کا رشتہ وہ ہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو یا تو اس رشتے کی مٹھاس اور لمس سے واقف ہیں یا جو رشتوں کی محبت پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔

میرے دادا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ابھی 8 ماہ ہوئے ہیں وہ گزشتہ برس نومبر میں 102 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ ہمارا پورا خاندان ان کی وفات کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا کیونکہ وہ ایک بھرپور زندگی بسر کرنے کے بعد بہت ہی کم عرصے کے لئے علیل ہوئے۔ کسی حد تک میں بھی ان کی وفات کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا بلکہ میں نے تو ان کی وفات پر کسی کو غم اور سوگ منانے سے بھی منع کیا تھا۔ لیکن ان کو گاؤں میں سپرد خاک کرنے کے بعد کراچی واپس آنے کے بعد اب تک ذہنی، جذباتی اور روحانی پر شدید تکلیف کا شکار بھی میں ہی ہوں۔

وجہ یہ نہیں کہ میرے دادا کو ہم سے جدا نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ ہم سب (وہ خود بھی) یہ دعا کرتے کہ وہ یوں ہی چلتے پھرتے ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ ہمارے خاندان کے لئے شاید صرف ایک بزرگ کا سایہ ہی کم ہوا ہے لیکن میرے لئے ایک ہمدرد دوست، مخلص رہبر اور سب سے بڑھ کر میرے فن اور علم کے قدردان مجھ سے جدا ہوئے ہیں۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ جوں جوں میں شعوری قد میں بڑھ رہا تھا مجھے ان کی شخصیت کو ایک منفرد زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کے لئے وقت مل رہا تھا۔

مجھے ان 8 ماہ زندگی کے ہر لمحے جس چیز کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے وہ دادا کی آواز اور حوصلہ افزائی ہے۔ میں جب کبھی زندگی میں پریشان ہوتا تھا کسی چیز یا بات کی سمجھ نہ آتی، دادا کو فون کرتا اور وہ مسئلہ چند لمحوں میں حل کر دیتے۔ ان 8 ماہ میں زندگی بڑی ادھوری لگ رہی ہے۔ ان کی باتیں، یادیں اور نصیحتیں ہر لمحہ یاد آتی ہیں۔

میری زندگی، صلاحیتوں کے نکھار اور کامیابی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ میرا ان کا ساتھ گہرا لگاؤ اور محبت گزشتہ چند سالوں میں بہت مضبوط ہوئی۔ وہ میری ادبی سرگرمیوں اور صلاحیتوں کو ہمیشہ سراہتے تھے۔ مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میری ذات کے اندر جو گہرائی ہے وہ ان کی شخصیت کا اثر ہے۔ میں ان کی انسانوں سے روابط کی صلاحیت، فیصلہ سازی، نوجوانوں کے ساتھ تعلق، لوگوں کی مدد و رہنمائی اور سب سے بڑا کر دوراندیشی کی صلاحیتوں سے ان کی وفات کے بعد اور بھی قائل ہو گیا جب لوگوں نے ان کے ساتھ اپنے واقعات میرے ساتھ شیئر کیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں زندگی میں ان کی شخصیت سے صرف 10 فیصد صلاحیتوں پر عمل کر سکوں تو میں اپنی زندگی کا حق ادا کر دوں گا۔

میرا خاندان اور وہ لوگ جو میرے دادا کو عملی زندگی میں جانتے تھے وہ مجھے اکثر کہتے ہیں کہ تمہارے دادا ایک عام انسان تھے لیکن تم انہیں بہت بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہوئے۔ میں انہیں کہتا ہوں یہ ہی تو بات ہے کہ آپ کو ان کی سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ عام انسان کس قدر خاص صلاحیتوں کے حامل تھے۔ مجھے بھی ان کی وفات سے قبل اس چیز کا اندازہ تھا لیکن اس قدر شدت سے تجربہ نہ ہوا تھا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ ان کے ساتھ گفتگو، براہ راست زندگی کے تجربات، لوگوں کے واقعات اور ان کی باتوں کو لکھوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔

جس کے بارے میں میں ساری زندگی لکھ اور بول سکتا ہوں۔ کیونکہ کسی اور زندگی کو تو انہوں نے متاثر کیا ہو نہ ہو لیکن میری زندگی کے نظریے کو وہ بدل گئے ہیں، مجھے میرے اندر کے انسان سے ملاقات کروا گئے ہیں۔ بے شک وہ مجھ سے جسمانی طور پر دور ہیں لیکن ان کی یادیں، باتیں اور جذبات میری سانسوں میں ہوا بن کر ، میری الفاظ میں روح بن کر اور میری آواز میں لہو بن کر زندہ ہیں۔ مجھے سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کے دادا کون تھے؟ کیا وہ کوئی سیاسی شخصیت تھے یا مذہبی رہنما تھے؟ جن کے بارے میں اس قدر بات کرتے ہیں۔ میرا جواب بہت سادہ ہوتا ہے کہ وہ ایک عام انسان تھے جن میں کچھ خاص صلاحیتیں پائی جاتی تھیں جس کا عکس آپ میری زندگی اور کام میں دیکھے سکتے ہیں کیونکہ مجھے انہوں نے 12 سال کی عمر جو نام دیا آج وہ ہی میری پہچان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments