امتحانی پرچے میں بلوچ سماجی کارکنوں سے متعلق سوال: ’شاید وہ طلبا کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں‘

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


سمی بلوچ
’مجھے پہلے اس بات پر بالکل یقین نہیں آیا کہ پنجاب کی کسی یونیورسٹی کے امتحانی پرچے میں میرے اور ذاکر مجید بلوچ کے بارے میں کوئی سوال شامل کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تو ریاستی اداروں کی جانب سے غدار سمجھا جاتا ہے۔‘

یہ کہنا تھا بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے والی طالبہ سمی بلوچ کا، جن کے بارے میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایک امتحانی پرچے میں سوال شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ 13 برس سے لاپتہ طالب علم رہنما ذاکر بلوچ کے بارے میں بھی امتحانی پرچے میں سوال شامل کیا گیا ہے۔

سمی اور ذاکر مجید بلوچ کے بارے میں یہ سوال یونیورسٹی کے سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے ایک مضمون کے امتحانی پرچے میں شامل کیا گیا تھا جس میں طلبا سے کہا گیا تھا کہ کسی ایک پر مختصر نوٹ لکھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رجسٹرار اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر معظم جمیل نے اس بات کی تصدیق کی کہ سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے پرچے میں یہ سوال شامل تھا تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا تھی تو انھوں نے کہا کہ اس بارے میں وضاحت متعلقہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہی دے سکتے ہیں۔

اسلامیہ یونیورسٹی کے رجسٹرار کے مطابق اس سے متعلق بی بی سی کے سوال سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کو بھیج دیے گئے ہیں تاہم ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب یونیورسٹی کے بلوچ طلبا کا کہنا تھا کہ انھیں متعلقہ شعبے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس سوال کے شامل کرنے کے پیچھے کوئی محرک کار فرما نہیں۔

خود یونیورسٹی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ بلوچستان سے ایسے دو طلبا کے بارے میں سوال شامل کیا گیا جن میں سے ایک گزشتہ 13 سال سے لاپتہ ہے۔

سمی بلوچ

سمی بلوچ اور ذاکر مجید بلوچ کون ہیں؟

سمی بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران سے ہے جس کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

وہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بڑی صاحبزادی ہیں اور صحافت میں بی ایس کررہی ہیں۔ان کے والد ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور آواران سے متصل ضلع خضدار کے علاقے اورناچ کی بنیادی مرکز صحت میں میڈیکل آفیسر تھے جہاں سے انھیں 28 جون 2009 کو لاپتہ کیا گیا۔

سمی بلوچ 13 سال کی عمر سے اپنے والد سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہیں۔

وہ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ کی نہ صرف عہدیدار ہیں بلکہ انھوں نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک اس پیدل لانگ مارچ میں بھی حصہ لیا جو کہ گزشتہ 80 دہائیوں کے دوران اس خطے کا طویل ترین احتجاجی پیدل لانگ مارچ تھا۔

ذاکر مجید بلوچ کا تعلق آواران سے متصل ضلع خضدار سے ہے۔ ان کے والد مجید بزنجو بلوچستان کے ایک معروف سیاسی کارکن تھے، جنھیں بیٹے کی جبری گُمشدگی سے پہلے قتل کیا گیا تھا۔

ذاکر مجید نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز سکول سے ہی کیا تھا اور ان کا تعلق بلوچ قوم پرست طلبا کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن سے ہے۔

جبری گمشدگی کے وقت وہ بی ایس او کے وائس چیئرمین تھے۔

وہ 8 جون 2009 کو کوئٹہ سے متصل بلوچستان کے ضلع مستونگ سے لاپتہ ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے دو دوستوں کو بھی لاپتہ کیا گیا تھا لیکن بعد میں ان کے دونوں دوستوں کو چھوڑ دیا گیا تھا لیکن ذاکر مجید تاحال بازیاب نہیں ہوئے۔

ان کے خاندان اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے ان کی جبری گمشدگی کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کیا تھا۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بلوچستان کے طلبا کی تعداد کتنی ہے؟

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا کی ایک بڑی تعداد کو 2000 کی دہائی کے وسط کے بعد سرکاری خرچے پر معیاری تعلیم کے لیے دوسرے صوبوں میں لے جایا گیا۔ زیادہ تر طلبا کو پنجاب کی تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا گیا۔

ان تعلیمی اداروں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بھی شامل ہے، جہاں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے چیئرمین امان بلوچ کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا کی تعداد 600 کے لگ بھگ ہے جو مختلف شعبوں میں زیر تعلیم ہیں۔

گزشتہ سال سے پنجاب کے مختف شہروں سے بعض بلوچ طلبا کی مبینہ جبری گمشدگی کے واقعات پیش آئے جس پر ان کی متعلقہ تنظیموں نے احتجاج کیا اور اسلام آباد اور لاہور میں بلوچ طلبا کی پروفائلنگ کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے۔

میں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں تعلیم حاصل کرنے والے بعض طلبا سے فون پر اس سوال کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی لیکن زیادہ تر نے بات کرنے سے گریز کیا۔

بلوچ سٹوڈنٹس کونسل بہاولپور کے چیئرمین امان بلوچ 2018 سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں زیر تعلیم ہیں۔

فون پر رابطہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ اس سے پہلے یونیورسٹی میں کبھی بھی کسی پرچے میں اس نوعیت کا سوال نہیں پوچھا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ سوال آنے پر انھیں پریشانی ضرورہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تک یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے اس کے بارے میں تو کچھ نہیں بتایا گیا تاہم سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے جن طلبا نے پرچہ دیا ان سے اس سلسلے میں ہماری بات ہوئی ہے۔

’ان طلبا نے بتایا کہ جو بھی سوشل ایکٹیوسٹ ہوتے ہیں ان کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے اور پھر ان کے حوالے سے پرچوں میں سوالات بھی آتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’جب میرے شوہر کو اٹھایا گیا تو میں نو ماہ کی حاملہ تھی‘

11 سال سے لاپتہ والد کی راہ تکتی سمی بلوچ کی کہانی

راولپنڈی سے بلوچ طالبعلم لاپتہ،’تعلیم یافتہ بلوچوں سے خطرہ کیوں؟

ایک اور شعبے سے تعلق رکھنے والے طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھیں اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم دیگر طلبا کو سمی بلوچ اور ذاکر مجید کے بارے میں سوال پر بہت زیادہ پریشانی لاحق ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچ طلبا کی پنجاب کی تعلیمی اداروں سے گمشدگی سے ہم سہم گئے اور ہمارے ذہنوں میں یہ خدشات پیدا ہوتے رہے کہ یہ بلوچ طلبا کے ذہنوں کو جانچنے کی کوشش تو نہیں۔‘

انھوں نے امان بلوچ کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا کے مطابق انھیں پہلے سمی بلوچ اور ذاکر مجید سمیت بعض افراد کے بارے میں پڑھایا جاتا رہا ہے اور اسی بنیاد پر امتحان میں سوال بھی شامل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے طلبا نے انھیں بتایا کہ یہ سوال سمی اور ذاکر مجید کی شخصیت سے متعلق تھا اور شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ طلبا کو یہ بتایا جائے کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں۔‘

سمی بلوچ

سمی دین بلوچ کا کیا کہنا ہے؟

سمی دین بلوچ نے سب سے پہلے اس معاملے پر اپنے رد عمل کا اظہار ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سوشل ورک مضمون کے امتحانی پرچے پر میرے اور ذاکر مجید کے حوالے سے سوالات کا آنا مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو کنفیوز کر رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’ایک طرف ہمیں غدار اورملک دشمن قرار دینا اور دوسری طرف پنجاب کے یونیورسٹیوں میں ایسی حرکتیں؟‘

‘پنجاب میں بیٹھے لوگ یہ تک نہیں جانتے ہیں کہ بلوچستان کا دارالحکومت کون سا شہر ہے، دوسری طرف جبری گمشدگیوں پر میڈیا کی کوریج پر سخت پابندی اور پھر تعلیمی اداروں میں ایسے سوالات۔۔۔‘

سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پڑھنے والے بلوچستان کے طلبہ سے رابطہ کر کے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں ایک خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس طرح کے سوالات کے ذریعے طلبا کی ذہنیت کو تو نہیں جانچا جا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments