بدعنوان سیاست: حقیقت یا فسانہ


گزشتہ چند سالوں سے ملک کی سیاست اور حکومتی ایوانوں میں بدعنوانی اور مالیاتی اسکینڈلز کا دور دورہ رہا ہے جس کا بڑا حصہ میاں نواز شریف شہباز شریف اور ان کے خاندان سے متعلق ہے۔ اگرچہ شریف خاندان اور ان کے حامی آج تک کسی بھی مالی بد عنوانی میں ملوث ہونے کی پر زور تردید کرتے رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق اس بات کی پر زور تردید کرتے نظر آتے ہیں۔

مالی بدعنوانیوں کے اس پس منظر میں آج ہم پنجاب کے موجودہ وزیر اعلی حمزہ شہباز کی جانب سے کی جانے والی اس مالی بدعنوانی کو عوام الناس کی نظروں میں لانا چاہتے ہیں جس کو ذرائع ابلاغ نے *بوجوہ* آج تک مکمل نظرانداز کیا ہے۔

یہ مارچ 2020 کی بات ہے جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قائم کردہ شوگر انکوائری کمیشن نے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی اصل وجوہات جاننے کے لیے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 / 5 / 2020 کو منظر عام پر آئی جس میں شوگر کمپنیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی مالی بدعنوانیوں اور دیگر قانونی بے ضابطگیوں کو بھرپور طور پر اجاگر کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے صفحہ نمبر 93۔ 94 پر کمیشن کی جانب سے حمزہ شہباز اور ان کے خاندان کی زیر ملکیت العریبیہ شوگر ملز کی جانب سے بینکوں کو رہن شدہ چینی کے سٹاک کے معائنے کی رپورٹ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ رہن شدہ (Pledged) اسٹاک درحقیقت وہ سٹاک ہوتا ہے جو بینکوں کی طرف سے اس اسٹاک پر دیے گئے قرضے کی زر ضمانت کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ مجوزہ طریقہ کار کے مطابق کمپنی اس رہن شدہ سٹاک کو پیشگی ادائیگی کرنے کے بعد ہی استعمال یا فروخت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اور اس درمیانی عرصے میں یہ اسٹاک بینک کے زیر انتظام گوداموں میں محفوظ رہتا ہے۔

کمیشن نے مورخہ 21 / 03 / 2020 کو العریبیہ شوگر ملز کے بینکوں کو رہن کردہ گوداموں کا معائنہ کیا تو اسے فیصل بینک کے زیر انتظام گودام جو کہ درحقیقت العربیہ شوگر ملز کے احاطے میں واقع تھا میں چینی کے پچاس کلوگرام کے 181592 تھیلوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا جو کہ کمپنی نے بینک کو پیشگی ادائیگی کرنے کے بجائے گودام سے غیر قانونی یا سادہ الفاظ میں چوری کر لیے تھے۔ کمیشن نے اس واقعے کی رپورٹ بینک دولت پاکستان اور فیصل بینک کو دی۔

جس کے نتیجے میں دونوں اداروں نے مشترکہ طور پر مورخہ سات مئی 2020 کو العریبیہ کمپنی کے رہن شدہ اسٹاک کی جانچ پڑتال کی اور اس بار انہیں 177890 چینی کے تھیلوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا جس کی مجموعی مالیت 65.30 فی کلو گرام کے حساب سے 58 کروڑ 8 لاکھ روپے بنتی ہے۔ فیصل بینک نے اس واردات کی رپورٹ متعلقہ پولیس اسٹیشن میں 9 / 5 / 2020 کو درج کرائی گئی لیکن کمیشن کی رپورٹ جو کہ 21 / 5 / 2020 کو منظر عام پر آئی تک کسی قسم کی کوئی ریکوری نہیں کی جا سکی تھی۔

واضح رہے کہ چینی کے سٹاک کی کمی کی نشاندہی سب سے پہلے 21 / 3 / 2020 کو کی گئی تھی جس کی ادائیگی/ تلافی حمزہ شہباز کی کمپنی 62 دن کا عرصہ گزر جانے کے باوجود قاصر رہی جو کہ در حقیقت کسی بھی لحاظ سے کوئی قابل تحسین عمل نہیں تھا۔ مندرجہ بالا واقعہ میاں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، اور ان کے خاندان کی جانب سے کیے جانے والے مالی خورد برد اور بے ضابطگیوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔

واضح رہے کہ اگر یہ حضرات محض 58 کروڑ روپے کی معمولی رقم کے لئے بینک کو رہن کردہ گوداموں سے غیر قانونی طور پر سٹاکس نکال سکتے ہیں تو ان کے ناقدین کی جانب سے ان تمام حضرات پر ان کے طویل دور حکومت میں کھربوں روپے کی لاگت سے بننے والے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ کک بیکس اور کمیشن لیے جانے کے الزامات میں کافی زیادہ وزن نظر آتا ہے۔

میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین اور ناقدین ان پر مبینہ طور پر حاصل کردہ بے پناہ ناجائز مالی فوائد کی بنیاد پر ملک کی تقدیر کے بلا شرکت غیر مالک بن جانے کا الزام لگانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔ بدقسمتی سے حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات اور حکومتی اداروں کا بظاہر نرم رویہ ان تمام الزامات کو مزید تقویت دیتا نظر آتا ہے۔

شہباز شریف کی وزارت عظمی کے موجودہ دور میں پٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی اور دیگر اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے ملک کے لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقے کو غربت کی لکیر سے مزید نیچے دھکیل دیا ہے جو کہ ان میں پائے جانے والے محرومی کے احساس اور ممکنہ بھرپور ردعمل کو مزید بڑھا سکتا ہے جو کہ ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہو سکتی۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث پاک ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جا سکتا۔ صاحب مضمون کو اس حدیث کی صداقت پر مکمل ایمان ہے اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ اللہ کے نبی کا فرمان غلط ہو۔ لیکن اس کی مسلمہ رائے ہے کہ نبی آخر الزماں کا یہ فرمان مومنین کے لیے ہے نہ کہ تمام مسلمانوں کے لئے اور شاید بد قسمتی سے ملک خداداد میں مومنین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ چنانچہ اس کی عوام ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ *میاں دے نعرے وجن گے * *ایک زرداری سب پر بھاری* اور *مولانا آ رہا ہے * کہ بلند و بانگ نعروں میں آج بھی زور و شور سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک مزید جاری و ساری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments