چنائی میں ہمارا ہوٹل


چنائی میں ہمارا ہوٹل :جو ایک سکھ کی ملکیت تھا، جہاں ڈیڑھ سو سالہ پرانا ریلوے سٹیشن بھی ہے، جہاں جنگ عظیم دوم نے جرمنوں نے حملہ بھی کیا

1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

چنائی میں ہوٹل میں قیام بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ ہوٹل کا مالک پنجاب کا رہنے والا ایک سکھ تھا جو اتنی دور آ کر ایک ہوٹل چلا رہا تھا۔ ہوٹل کے مالک سے ہماری دوستی ہو گئی اور ہم نے آپس میں گپ شپ بھی لگائی جس کا تذکرہ میں آئندہ صفحات میں کروں گا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ اس نے ہوٹل کی ایک دیوار پر ہندو مندر، بابا گرو نانک، حضرت عیسیٰ اور خانہ کعبہ کی تصاویر اکٹھی لگائی ہوئیں تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب لاجواب تھا۔ کہنے لگا، ہم سب کا پالنہار ایک ہے جو اوپر بیٹھا ہوا ہے اور یہ سب اس کے نیک بندے ہیں جو ہمیں اس سے ملواتے ہیں اور اس کی باتیں ہمیں بتاتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم پر ان سب کا احترام فرض ہے۔ یہ سب اسی احترام کا نتیجہ ہے کہ میں ان سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہوں۔

اس کے علاوہ اس نے چھت پر ایک باغیچہ بھی بنا رکھا تھا جو بہت ہی بھلا معلوم ہوتا تھا۔ مشترکہ زبان ہو تو بات چیت میں بھی سہولت ہوتی ہے اور دوستی ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ پنجابی زبان کی وجہ سے ہم جلد ہی بے تکلف ہو گئے۔ وہ شخص بھی بہت خوش ہوا کہ کچھ لوگ لاہور سے آ کر اس کے پاس ٹھہرے ہیں۔ اس نے ہمیں یہ بتایا کہ آپ پہلے پاکستانی ہیں جو اس کے ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔

یاد رہے تقسیم ہند سے پہلے لاہور متحدہ پنجاب کا صدر مقام تھا اور اسی وجہ سے گورنر اور وزیر اعلٰی کے دفاتر بھی اسی شہر میں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی پنجاب کے لوگ لاہور کے بارے میں ایک بہت ہی خوبصورت تاثر رکھتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ لاہور اور اس کے ساتھ ننکانہ صاحب کے علاوہ سچا سودا، کرتارپور میں سکھوں کے بہت سے مقدس مقامات ہیں جن کی وجہ سے وہ ان علاقوں سے جانے والوں کا بے حد خیال کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو سکھ زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ لاہور سے آنے والوں سے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ آپ نے کون کون سے گردوارے دیکھے ہوئے ہیں؟

یہ بات انھوں نے ہم سے بھی پوچھی۔ یہ سب کچھ مذہبی جذبات کی تسکین کے لیے کیا جاتا ہے۔ خوراک کی طرح مذہبی جذبات کی تسکین بھی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔

اس سے پہلے کہ میں آپ کو چنائی جو کبھی مدراس تھا کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کروں میں چاہوں گا کہ اس کے ساتھ ساتھ میں مدراس سینٹرل ریلوے سٹیشن کی تاریخ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ یہ ریلوے سٹیشن ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ ایک وقت میں اسے گیٹ وے آف ساؤتھ انڈیا کہا جاتا تھا۔

میں نے جب یہ جاننا چاہا کہ مدراس کا نام چنائی کیوں رکھا گیا تو مجھے مختلف معلومات حاصل ہوئیں۔ میرے خیال میں سب سے مصدقہ بات یہ ہے کہ جب انگریزوں نے اس علاقے میں اپنی پہلی کالونی بسائی جس کا نام سینٹ فورٹ جارج رکھا گیا جس جگہ قلعہ بنایا گیا اس کے قریب ہی مچھیروں کی ایک بستی تھی جس کا نام مدراس پٹینام تھا۔ اس وجہ سے اس علاقے کو مدراس کہا جانے لگے۔ بعد ازاں جب انگریزوں نے شہر کو آباد کرنا شروع کیا اور اس کے لیے ایک نئی جگہ کا انتخاب کیا تو وہ نئی جگہ کا نام چنائی تھا۔

یہاں کے لوگوں کے مطالبے پر مدراس کو چنائی کا نام دے دیا گیا۔ دونوں الفاظ ہی تامل زبان کے ہیں۔ ابھی بھی چنائی میں مدراس نام کے بے شمار ادارے موجود ہیں۔ اب آہستہ آہستہ مدراس کی جگہ چنائی کا نام استعمال ہو رہا ہے۔ ہمارا یہ دورہ 1999 ء میں ہوا تھا اور اس وقت نام بدلے صرف تین سال ہوئے تھے اس لیے اکثر جگہوں پر مدراس ہی لکھا ہوا دکھائی دیتا تھا اور زیادہ تر لوگ اسی نام سے اس شہر کو یاد کرتے تھے۔

ڈیڑھ سو سال پرانا ریلوے سٹیشن چنائی

میں نے اس بات کا بغور مشاہدہ کیا ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں کسی بھی جگہ پر ریلوے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ جہاں جہاں انگریز قابض ہوتے گئے وہیں پر انھوں نے ریلوے کا نظام بھی شروع کر دیا۔ اسی دور میں برطانیہ میں ریلوے انجن ایجاد ہوا اور اس نظام تک رسائی صرف انگریزوں کو ہی تھی۔ اس لیے انگریز جیسے ہی کسی علاقے پر اپنا قبضہ کرتے تو سب سے پہلے اس علاقے میں اپنی آمد و رفت کو تیز اور آسان کرنے کے لیے ریلوے کا نظام بھی قائم کرتے۔

سن 1856 ء میں انگریزوں نے مدراس کے علاقے میں پہلا ریلوے سٹیشن رویا پرام کے مقام پر بنایا۔ بعد ازاں جب شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا تو 1873 ء میں مدراس سینٹرل ریلوے سٹیشن کا افتتاح ہوا۔ اب اس ریلوے سٹیشن کا نام Puratchi Thalaivar Dr. M.G. Ramachandran Central Railway Station ہے جو کہ دنیا میں کسی بھی ریلوے سٹیشن کا طویل ترین نام ہے۔ اسے مختصر طور پر M. J. R. Central Chenai سٹیشن بھی کہتے ہیں۔ جن کے نام پر اس سٹیشن کا نام رکھا گیا ہے ان صاحب کی اس علاقے کے لیے بے حد خدمات ہیں۔ اس ریلوے سٹیشن کا آرکیٹیکٹ جارج ہارڈنگ تھا جو گوتھک فن تعمیر کا ماہر تھا۔ اس ریلوے سٹیشن سے روزانہ پانچ لاکھ لوگ مستفید ہوتے ہیں اور دن کے کسی بھی اوقات میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد یہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہاں سے روزانہ انیس گاڑیاں روانہ ہوتی ہیں جبکہ دو سو گاڑیاں یہاں سے گزرتی ہیں۔

یہ بات میرے لیے بھی حیرانی کی تھی کہ اس ریلوے سٹیشن کا سالانہ ریونیو نو کروڑ ڈالر سے بھی زائد ہے۔ یہ رقم پاکستانی روپوں میں ڈیڑھ ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔ یہ انڈین ریل کے صرف ایک سٹیشن کی آمدن ہے۔ یہ ریلوے سٹیشن اپنی صفائی ستھرائی کے لحاظ سے بھارت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

جب ہم ریلوے سٹیشن سے باہر نکل رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ یہاں پر بہت بڑا شاپنگ ایریا تھا جس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی بے شمار دکانیں بھی موجود تھیں۔ مجھے یاد آیا کہ ستر کی دہائی تک لاہور ریلوے سٹیشن کا ریسٹورانٹ بھی اپنے کھانوں کی وجہ سے شہر بھر میں مشہور تھا۔ لوگ تفریح اور اچھا کھانا کھانے کے لیے ریلوے سٹیشن پر آتے تھے۔ چنائی کے ریلوے سٹیشن کو دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ یہاں پر بھی بہت سے لوگ شاید اسی کام کے لیے آتے ہیں۔ یہ بہت اچھی جگہ ہے۔ جہاں وہ شاپنگ بھی کریں گے کھانا بھی کھائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تفریح بھی ہو جائے گی۔

ہندوستان میں ریل کے متعلق کئی کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ اس موضوع پر ایک مقالہ سریتھا ایس آر نے Colonialism and modernisation;history and development of southern railway a case study کے نام سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ ایک انڈین ریل فین کلب نے بھی اپنی ویب پر چنائی ریلوے سٹیشن کے بارے میں لکھ رکھا ہے۔

ایسا اسی وقت ممکن ہے جب بہترین سہولتوں کی فراہمی کو ممکن بنائی جائے۔

یاد رہے کہ چنائی ہندوستان کا وہ واحد شہر ہے جس پر جنگ عظیم اول میں جرمن فوجوں نے حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ ہندوستان پر نہیں تھا بلکہ اس حملے کا نشانہ انگریز تھے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جرمن فوجیں انگریزوں کے تعاقب میں کہاں تک آ پہنچی تھیں۔ چنائی کی میونسپل کارپوریشن لندن کے بعد دوسری قدیم ترین کارپوریشن ہے اور یہاں برصغیر کی سب سے پرانی فوجی چھاؤنی مدراس رجمنٹ کا سنٹر بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments