سندھ کے رنگیلو گاؤں میں شکار کیے گئے ہرنوں کی تدفین: ’والدین کا حکم ہے کہ ہرن کا تحفط کرو، یہ ہمارے علاقے کے باسی ہیں‘

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، حیدرآباد


جنگل میں سات قبریں کھودی گئیں، جس کے بعد باری باری مردہ ہرن لا کر ان میں اتارے گئے، اس کے بعد ہر قبر میں سفید کپڑا ڈالا گیا اور لوگوں نے ان پر مٹی ڈالی اور آخر میں دعا مانگی گئی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائے تھر کے رنگیلو گاؤں کے قریب یہ وہی مقام تھا جہاں منگل کی شب شکاریوں نے سات ہرنوں کا شکار کیا تھا۔

اس کے بعد مقامی افراد نے ان کا تعاقب کیا اور تین شکاریوں کو پکڑ لیا جبکہ ان میں سے دو فرار ہو گئے۔

حنیف سومرو نامی مقامی رہائشی کے مطابق ’گذشتہ تین چار سال سے شکار کے مسلسل واقعات ہو رہے ہیں اور ظالم شکاری ہرن کا شکار کرتے ہیں۔‘

’مقامی لوگوں نے تین چار مرتبہ ان کا پیچھا بھی کیا مگر وہ فرار ہو جاتے ہیں۔ جنگلی حیات کے مقامی حکام کو شکایت کی تو وہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس گاڑی اور لوگ نہیں۔ وہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ یہاں شکار ہو رہا ہے۔‘

حنیف مزید بتاتے ہیں کہ ’رنگلیو گاؤں اور آس پاس کے گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے۔ جنگل میں کوئی مشکوک سرگرمی یا رات کو گاڑی کی کوئی روشنی نظر آئی یا فائر ہوا تو ایک دوسرے کو فوری آگاہ کیا جائے گا۔‘

اتم سنگھ جنھوں نے گاڑی کی ٹکر سے شکاریوں کو روکا

پھر رواں ہفتے کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کے بعد اس گاؤں کے باسی رات کے اندھیرے میں متحد ہو کر شکاریوں کی تلاش میں باہر نکل پڑے۔

گاؤں لوبھار کے رہائشی سروپ سنگھ بتاتے ہیں کہ ’پیر کو رات کا کھانا کھا کر وہ سو گئے، تقریباً رات دو بجے کے قریب جنگل سے فائرنگ کی آواز سنی تو وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر گاؤں رنگیلو پہنچے۔ اس دوران دوسرے گاؤں کے لوگ بھی آ گئے اور انھوں نے شکاریوں کا پیچھا کیا۔‘

21 سالہ اتم سنگھ بھی گھر میں سو رہے تھے جب ان کے کزن سروپ سنگھ نے انھیں اٹھایا اور بتایا کہ جنگل سے فائرنگ کی آواز آئی ہے، یقیناً شکاری ہوں گے اور انھیں گاڑی لے کر رنگیلو گاؤں پہنچنے کی ہدایت کی۔

اتم سنگھ کے مطابق ’سروپ سنگھ نے کہا تم رنگیلو گاؤں جاؤ ہم پیچھے آ رہے ہیں۔‘

‘ہم سڑک پر جا کر رک گئے، گاؤں والوں نے تعاقب کیا تو یہ شکاری پکی سڑک پر آ گئے جہاں وہ کھڑے تھے۔ ایک گاڑی نے بریک نہیں لگائی آگے چلی گئی، میں نے دوسری گاڑی کو سامنے سے ٹکر ماری تو انھوں نے فائرنگ کی، اسی دوران دیگر لوگ بھی پہنچ گئے اور انھیں رسے سے باندھ دیا۔‘

دھرنا اور تعزیتی کیمپ

رنگیلو، لوبھار اور دیگر گاؤں کے لوگ حراست میں لیے گئے ان تینوں شکاریوں اور شکار کیے گئے سات ہرنوں سمیت جلوس کی صورت میں تھر کے ضلعی ہیڈ کوراٹر مٹھی پہنچے جہاں انھوں نے دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

یہ دھرنا پانچ گھنٹے جاری رہا جس میں عام شہری بھی شامل ہو گئے۔

بدھ کی صبح مٹھی کے مرکزی چوک پر ایک تعزیتی کیمپ بھی لگایا گیا، جہاں شہر کے لوگوں نے آ کر یکجہتی کا اظہار کیا اور جانوروں کے تحفظ کے لیے دعائیں بھی کی گئیں۔

سماجی ورکر اکبر درس کا کہنا تھا کہ ’وہ فطرت کے قتل کی تعزیت وصول کر رہے ہیں، یہاں معصوم ہرنوں کا قتل کیا گیا ہے۔‘

‘جب تھر میں بارش ہوتی ہے تو یہ ہرن، مور، تیتر و دیگر چرند پرند خوش ہوتے ہیں۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ان کو ہم دفن کر رہے ہیں یہاں ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جو وائلڈ لائف کا قانون ہے اس میں ترمیم کی جائے اور ان شکاریوں پر بھاری جرمانہ عائد کرکے سخت سزا دی جائے۔’

یہ بھی پڑھیے

عیدِ قرباں کے لیے جانور موجود مگر بیوپاری اور گاہک دونوں ہی بیماری سے پریشان

وادیِ سندھ کے قدیمی باشندے گائے کا گوشت کھاتے تھے

کراچی: گھر میں رکھے گئے شیر اور چیتے حکومت نے تحویل میں لے لیے

تھر کی ’پبلک پراپرٹی‘ سوجیو بیل کی مبینہ چوری اور پرتپاک استقبال

نایاب چنکارا ہرن کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

خیال رہے کہ جس جنگل میں ہرنوں کا شکار کیا گیا اس کو تحفظ حاصل ہے۔ تھر پولیس نے تین ملزمان کو غیر قانونی شکار اور بغیر لائسنس بندوق رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے، جن کا بدھ کو ریمانڈ لیا گیا۔

ادھر محکمہ جنگلی حیات کے تین ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا ہے۔

پاکستان کے جنگلات میں اس وقت کل 585 چنکارا ہرن موجود ہیں، اس کا انکشاف پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے میں کیا گیا تھا۔

اس سروے میں بتایا گیا تھا کہ منگلوٹ (خیبر پختونخوا)، کالاباغ، صحرائے چولستان (پنجاب) سے لے کر کھیرتھر کی پہاڑیوں (سندھ) کے علاقوں میں چنکارا ہرن دیکھے گئے ہیں۔ سروے کے مطابق سبی کے میدانی علاقوں مکران، تربت اور لسبیلہ (بلوچستان) میں بھی چنکارا ہرن پائے گئے ہیں۔

ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون محمد معظم خان کے مطابق ’چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے۔‘

ہرن اور مور کا تحفظ فرض

سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں کثیر تعداد میں ہرن اور مور پائے جاتے ہیں۔مقامی لوگ بالخصوص ٹھاکر کمیونٹی ان کا تحفظ اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ہے۔

نوجوان اتم سنگھ کے مطابق ’والدین کی ہدایت ہے کہ ہرن کا تحفط کرو یہ ہمارے علاقے کے باسی ہیں۔‘

رنگیلو میں جب ہرنوں کی تدفین ہو رہی تھی تو اس وقت بارش جاری تھی۔ بارش اس صحرا میں خوشی اور خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن ان لمحوں میں لوگ اداس اور غمزدہ تھے۔

ہندو مسلم ایک دوسرے کی خوشی غمی میں تو جاتے ہیں لیکن وہ ان کے لیے آئے تھے جو دونوں کا مشترکہ ورثہ ہیں۔

تھر کے مصنف اور محقیق بھارومل امرانی کے مطابق صحرائے تھر پر گذشتہ دو دہایوں سے بڑھتے ہوئے موسمی تبدیلی کے اثرات اور انسانی وجوہات کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات اور ماحولیات خطرے میں ہیں۔

’ایک طرف قحط کی وجہ بھوک اور پیاس ہے دوسری طرف غیر قانونی شکار کی مشق نے جنگلی جانور خاص طور پر چنکارا کی نسل خطرے میں ہے۔‘

اب تھر میں کنڈی، کونبھٹ کے ساتھ پیلوں، تھوہر، باؤری، گگرال کے درخت تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان درختوں کے جنگلات چنکارا کی رہائش ہوا کرتے تھے اور ان درختوں کے نیچے گھاس چنکارا کی خوراک تھی۔

صحرائی لوگوں کے پاس روایت ہے کہ صحرا میں چنکارا بارش کا پانی پیتا ہے اور جہاں قدرتی تالاب واقع ہیں وہ وہاں ضرور آتے ہیں اور شکار ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments