سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب


روزانہ یہ چہرے جوہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، بالخصوص معروف لوگوں کے چہرے، یہ دراصل چہرے نہیںہوتے، نقاب ہوتے ہیں، سماجی نقاب جنہیں نفسیات کی زبان میں’پرسونا‘ کہتے ہیں، کم ہو یا زیادہ ’شخصیت‘ اور ’پرسونا‘ میں خلیج ہوتی ہے، اور اس ’سماجی نقاب‘ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ آپ کو آپ ہی کی آنکھ سے دیکھے۔ قدرت اس دارالعمل میں منافقوں سے اغماض برتتی ہے مگرجب اس کی ناراضی بڑھ جائے تو وہ منافق کو اس دنیا میں بس ایک سزا دیتی ہے، اس کا نقاب نوچ لیتی ہے۔(یہاں تک کالم لکھا تھا کہ چند احباب تشریف لے آئے، اب دوبارہ لکھنے بیٹھا ہوں تو یاد نہیں آرہا کس موضوع پر تمہید باندھ رہا تھا، کالم بے ربط ہو جائے تو معذرت)

سابق خاتونِ اول کی ایک مبینہ آڈیو سماعت سے گزری جس میں وہ پی ٹی آئی کےڈیجیٹل میڈیا ان چارج کو ہدایات جاری فرما رہی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ خان صاحب کے سب مخالفین کو غدار قرار دینا ہے، فرح گوگی، بشریٰ صاحبہ اور خان صاحب کے حوالے سے جو کرپشن کی بات کرے گا اسے کرپشن کا کوئی جواب نہیں دینا، بس اسے غدار قرار دینا ہے، سازشی مراسلے کو سچا بتانا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو غدار ٹھہر انا ہے ، باہر والوں کو غدار کہنا ہے، اندر والوں کو غدار کہنا ہے، یہ ہے عطر اس آڈیو کا۔ (بشریٰ صاحبہ نے یہ کال غالباً اپنے گھر سے ہی کی ہو گی، کیونکہ خان صاحب ہمیشہ انہیں ایک ’گھریلو خاتون‘ بتاتے ہیں، اور اس اصول کے تحت ورک فرام ہوم کرنے والی ہر عورت ’گھریلو خاتون‘ کہلانے کا حق رکھتی ہے) مریم نواز پر اپنی پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم چلانے پر پی ٹی آئی کے دوست بہت برہم ہوتے ہیں، حالانکہ وہ اپنی جماعت کی نائب صدر ہیں، اور یہ ذمہ داری روزِ روشن میں نبھاتی ہیں، جب کہ سابق خاتونِ اول یہ کام پردے میں رہ کر انجام دیتی رہیں،

اور سچ تو یہ ہے کہ بہ خوبی انجام دیتی رہیں، چہار دانگ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کی قوت کا اعتراف کیا جاتا ہے، اس ونگ نے بڑی کامیابی سے بڑے بڑے طاقت ور لوگوں کے خلاف بھی ’غدار‘ کا ٹرینڈ چلایا ہے، لیکن بشریٰ بی بی ایسی درویش ہیں کہ انہوں نے آج تک اس کا کریڈٹ نہیں لیا تھا، ان کی جگہ اگر کسی عام عورت کو پاکستان کی پہلی سویلین غدار ساز فیکٹری کی سربراہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا تو وہ ایک دن بھی اس راز کو راز نہ رہنے دیتی۔ حفیظ جالندھری کا ایک غیر متعلقہ شعر یاد آگیا، فرماتے ہیں ’یہ خوب کیا ہے یہ زشت کیا ہے، جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے، بڑا مزا ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے‘۔

پچھلے ہفتے عمران خان صاحب نے ایک رجیم چینج کانفرنس منعقد کی جس میں صرف محرم صحافیوں کو دعوت دی گئی، اور یہ ہم جانتے ہیں کہ محرموں سے پردہ نہیں کیا جاتا، سو سب خطاب بے نقاب ہو کر کئے گئے، کسی نے کچھ نہیں چھپایا، دل و جاں سے دھواں اٹھتا رہا، ’ وز دلِ پر حسرتم بوئے کباب آید بروں‘ والی کیفیت طاری تھی۔ سب کی ایک ہی کہانی تھی، یعنی تیتر کے دو آگے تیتر، تیتر کے دو پیچھے تیتر، سب کو ایک ہی گلہ تھا ، اور وہ یہ کہ’ آپ‘ نے ہمیں بتایا تھا کہ شریف اور زرداری چور ہیں، اب آپ نے ان چوروں اور غداروں کو اقتدار کیوں دیا۔ بہرحال، اداروں کے ضمن میں یہ ایک تبرے کی محفل تھی۔ اس محفل میں ایاز امیر بھی موجود تھے جو اس قبیلے کے ہم خیال تو ہیں، لیکن ایجنسی زادے نہیں،لہٰذا اگلے ہی دن انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر واضح کیا گیا کہ تبرے کی سہولت صرف اور صرف خاندان کے لونڈوں کو حاصل ہے، باہر والوں کو نہیں۔ایک دن پرویز رشید کہنے لگے کہ ہمیں تو’آمریت مردہ باد‘ کا نعرہ لگانے پر جیل میں ڈال دیا جاتا تھا، مگر یہ لڑکے صبح شام بے حجاب، بے نقاب، نام لے کر بلا خوفِ تعزیر گالی دیتے ہیں۔مناسب یہی ہے کہ بات میر صاحب پر ختم کی جائے ’کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں، اس نسخے کی کوئی نہ رہی حیف دعا یاد‘۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments