سیاست محض حصول اقتدار کا نام نہیں


اقتدار سے بالاتر سیاست اور قیادت کی عملی مثال دور حاضر میں مریم نواز شریف کے روپ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جو تا حال اقتدار سے بیگانہ اور پارلیمان سے باہر رکھی گئی ہیں۔ مگر اپنی جدوجہد میں شب و روز گامزن اس بات کی علامت بن چکی ہیں کہ مضبوط جمہوریت کا حصول، آئین کی پاسداری، سولین بالادستی اور جمہوری حکومت کا تسلسل برقرار رکھنا محض اقتدار سے بالاتر سیاسی وجوہات ہیں۔

بطور سیاسی لیڈر مریم نواز شریف کا شمار قومی دھارے کی سیاست کی صف اول میں ہوتا ہے۔ جم غفیر کو متحرک کرنے والی، مختصر عرصہ میں ہمہ گیر مقبولیت حاصل کرنے والی، جرات اور اعتماد سے مشکلات کا سامنا کرنے والی عوامی لیڈر کا درجہ انہیں کسی اقتدار نے نہیں بلکہ سیاسی کردار نے دلوایا ہے۔

گزشتہ چار سال سے جاری عملی سیاست میں دوران سفر بہت کچھ نیا دیکھنے، سننے اور پرکھنے کو ملا۔ اسے تجزیہ نہیں مشاہدہ کہنا بہتر ہو گا۔

سال 2018 الیکشن سے پہلے اور بعد میں بالخصوص مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور حکومت مخالف سیاسی جماعتوں پر سیاسی انتقام، تنگی، جبر اور سختی کا دور کہنا غلط نہ ہو گا۔ 2021 کے آخر سے سیاسی حالات میں بدلاؤ دکھائی دینے لگا۔ زیر، زبر، شد اور مد کی تبدیلی کے ساتھ وقتاً فوقتاً آفٹر شاکس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

تاریخی اعتبار سے پاکستان میں اقتدار کی منتقلی قابل فخر جمہوری اقدار سے تہی نظر آتی ہے ماسوائے حالیہ منفرد پارلیمانی تجربہ دیکھنے کو ملا۔ سیاسی و جمہوری قوتوں نے آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ایک حکومت کو رخصت کیا۔ مگر اس رخصتی نے انتقال اقتدار، سیاسی جدوجہد اور جمہوری عمل پر کئی سوال اور انگلیاں اٹھا دیں۔

ان سوالات میں سر فہرست سیاسی عمل میں تشدد بطور عوامی نمائندگی پروان چڑھانا ہے۔ سیاست کو محض حصول اقتدار تک محدود کر دینا جو کہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہے، شامل ہے۔ حالیہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے پارلیمنٹ سے نکلنے والے وزیراعظم عمران خان نے پورے ملک کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔

حکومت چھوڑنے سے انکاری، بضد سابق وزیراعظم، آئین شکنی، لاقانونیت اور عدلیہ کے فیصلوں کو روندنے کا مرتکب ہوئے۔ جس نے سیاسی صبر کو عملی جبر سے شناسائی بخشی اور پارلیمان کے فیصلے اور تقدس کو تا وقت پامال کیا کہ قانون اور عدالتوں کو ریاستی رٹ برقرار رکھنے کے لیے رات گئے حرکت میں آنا پڑا۔ یوں ایک سیاسی لیڈر نے سیاست کے عزت کو گہن لگایا۔

موازنہ میں نوے کی دہائی کی چند جھلکیاں ذہن نشین کی جائیں تو 1990 سے لے کر 1999 تک لگ بھگ چار مرتبہ جمہوری حکومتوں کی اور دو وزرائے اعظم، شہید بینظیر بھٹو اور محمد نواز شریف کی دو دو مرتبہ پارلیمان سے جبری رخصتی کروائی گی۔ جسے بلا شبہ غیر جمہوری فعل کہا جا سکتا ہے۔ چوتھی مرتبہ 1999 میں غیر جمہوری کے ساتھ غیر آئینی بھی شامل ہوا اور ایک مرتبہ پھر آمر مشرف 11 برس کے لیے براجمان ہو گیا۔

اس وقت کے سیاستدانوں کو اقتدار سے ہٹا کہ بذریعہ ہیلی کاپٹر گھروں کو نہیں لوٹایا جاتا تھا بلکہ ہتھ کڑیاں لگا کر، اٹک قلعہ، لاہور قلعہ، لانڈھی، اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل کی قید مقدر بنتی تھی۔ نہ صرف مرکزی قیادت بلکہ دوسرے اور تیسرے درجے کے متحرک راہنما اور کارکنان تک کو آمرانہ صعوبتوں کا طویل مدت شکار ہونا پڑا۔

بہت سے سیاسی راہنما جو آج استاد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں بدترین سیاسی انتقام، جسمانی و ذہنی تشدد کاٹ چکے ہیں۔ انہیں آج بطور سیاست اور جمہوریت کے روح رواں دیکھ کر یہی کہنا باقی ہے ”جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے“ ۔

سیاستدانوں کا تاریخی طور پہ بیشتر واسطہ آمریت سے پڑا۔ آمریت کا دورانیہ اقتدار گیا رہ برس، نو برس، دس برس، جبکہ سیاستدان کا وقت حکومت دو سے تین سال وہ بھی سر پہ لاٹھی پیر میں زنجیر۔

تاریخی اعتبار سے جمہوریت کی خاطر قربانی دینے والے، جبر کے سامنے مزاحمت کرنے والے، آئین کو بار بار ردی کی ٹوکری سے بچا لانے والے، جمہوری عمل میں جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھنے والے اور پھر اقتدار کے چند ایام میں مفاہمت اور تجدید نو کا پیغام دینے والے کا نام سیاستدان ہے۔

چنانچہ 74 سالہ پاکستان میں تیسری پارلیمانی مدت پوری ہونے کی نوید ہے۔ مگر منتخب وزرائے اعظم اب تک اپنی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکے۔

اس کے بر عکس موجودہ اپوزیشن گزشتہ تین ماہ سے ہونے والے مظاہروں میں دھمکی، دھونس، خون ریزی، جتھا بندی، بد کلامی، گالی گلوچ، مبالغہ آرائی، وفاق پر حملہ آوری، آتش زدگی، جلاؤ گھیراؤ کی ترغیب دے کر اپنے ووٹرز اور عوام کے سیاسی جذبات کو ایک زہریلے سانچے میں ڈھالنے پر کاربند ہے۔

ملک کے دفاعی اداروں۔ ایٹمی پروگرام اور ملکی سالمیت کو خطرے میں قرار دینا۔ گویا ”میرا اقتدار یا پھر کچھ بھی نہیں“ کا تاثر تعمیراتی سیاسی سوچ پر سوالیہ نشان ہے۔

سیاسی بیانیے کا یہ سفر بیرونی سازش سے لے کر سیاسی مخالفین کو غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ سیاست محض حصول اقتدار اور تسکین انا کی جانب دھکیلی جا رہی ہے۔ اس سے قیادت کے مرتبے اور عوامی شعور کی سطح پہ مقبولیت کو ٹھیس پہنچے گی۔ سیاسی سفر آگے بڑھانا، جمہوری اقدار کو قول و فعل میں ڈھالنا اور سیاسی بصیرت کو عوامی رائے کا جامہ پہنانا سیاستدانوں کا فرض ہے۔

سلمیٰ بٹ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلمیٰ بٹ

سلمیٰ بٹ کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔ ان کی خاص دلچسپی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے میں ہے۔

salma-butt has 6 posts and counting.See all posts by salma-butt

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments