جن کا آٹو گراف سب کے دلوں پر نقش ہے


نہ جانے وہ کون صاف دل، صاف نیت اور صاف ذہن تھا جس نے انسان دوستی، رواداری اور زمانے بھر کے دکھیوں کی دل جوئی سے ہمکنار ہونے کی دعا مانگی، اس دعا، کو قبولیت نصیب ہوئی اور اسی دعا کے بطن سے آسمان نے 1928 میں اس خطہ ارض کے لئے ایک ایسا فرشتہ اتارا جو اس زمین پر، وہ سب کچھ دیکھنے کا روادار نہیں تھا جس کے یہ سب عادی ہو چکے تھے۔

وہ معاشرے میں رواں رسم رواج اور مروجہ عادات و اطوار سے یکسر نابلد، نام نہاد ترقی اور کامیابی جیسے الفاظ اور ان کے مفہوم سے بے خبر، خود کو نمایاں کر کے دکھانے کی صلاحیتوں اور ہنر سے عاری، اور دوسروں کو دھکا دے کر، سرخرو کہلانے کے فن سے نا آشنا تھا۔ اس کے دل، دماغ اور آنکھوں میں، صرف اور صرف انسانوں کے کام آنے اور اس کام میں سب سے آگے نکل جانے کا خواب تھا۔ بس اسی خواب کی تعبیر کے لئے اس نے اپنی ہر سانس، ہر دھڑکن وقف کر رکھی تھی۔

وہ ہماری تاریخ کا ایسا ہیرو ہے جو انسانوں کے اس جنگل میں رہ کر بھی حرص و ہوس، طمع و لالچ اور خود پسندی و خود ستائش کی آلائشوں سے دور تھا۔ اگر وہ کسی چیز کے قریب تھا تو وہ دکھوں اور آزمائشوں میں گھرے بے سہارا تھے جو کسی کی توجہ کا مرکز نہ تھے اور اب انھیں، جینے کا یہ محور میسر آ گیا تھا۔

جو بول نہیں سکتے تھے، انھیں زبان مل گئی تھی۔ جو دیکھ نہیں سکتے تھے، ان کی بینائی لوٹ آئی تھی۔ جو چل نہیں سکتے تھے، انھیں رفاقت دستیاب تھی۔ جنہیں کوئی اپنانے پر رضامند نہ تھا، اسے پناہ مل گئی تھی۔

ہمارا یہ ہیرو جو، ہر وقت لوگوں میں گھرا رہتا تھا، جو، اوروں کے لئے دوسروں کے سامنے دامن پھیلانے سے بھی نہ شرماتا تھا، جو ہر لمحے مجبوروں کو آسانی فراہم کرنے کی جستجو میں، خود کو مشکل میں ڈالے رکھتا تھا۔ وہ اپنی طرز کا واحد ہیرو تھا اسی لیے وہ سب سے مختلف تھا۔

یہ سب کے علم میں ہے کہ ہیرو سے آٹو گراف لینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اب یہ سوال کہ کیا کبھی اس عظیم شخص نے بھی اتنے ہجوم میں کسی کو آٹو گراف دیا ہو گا، جیسے معاشرے میں دوسرے پسندیدہ شخصیات اور ہیروز سے، ان کے مداح اور چاہنے والے ان کے آٹو گراف محفوظ رکھتے ہیں۔ اس بات کو یوں بھی سوچا جاسکتا ہے کہ کیا اس درد مند کے دل میں بھی یہ خواہش اجاگر ہوئی ہوگی کہ وہ بھی پرستاروں کے مقابل اس عمل سے دوچار ہو۔

اس جواب کے لئے بہت زیادہ سوچنے کی قطعاً ضرورت نہیں کیوں کہ منطقی طور پر، یہ کیسے ممکن ہے جب ایک شخص، ہر اعتبار سے دوسروں سے علیحدہ ہو، تو اس کی بعض عادات، روایت پرستوں سے کیسے مماثل ہو سکتی ہیں!

اس کے چاہنے والوں کی ایک دنیا اس کی گرویدہ تھی مگر اس کے پاس ایسی باتوں اور ایسے نقش و نگار کے بارے میں سوچنے کا بھی وقت نہ تھا۔ وہ تو عمل کا وہ شہ سوار تھا جس نے ( محض ) لفظوں، تقریروں اور نصیحتوں کی سواری کے بجائے وہ راستہ چنا، جہاں خود کو، کردار اور صرف کردار سے ثابت کرنا تھا۔ جہاں آگ کے دریا سے ڈوب کر جانا تھا۔ جہاں اپنا آپ تیاگ کر، اوروں کی سسکتی آرزووں اور رستے زخموں پر مرہم رکھنا تھا۔ جہاں بے بسی کی قید میں، جینے کی سزا کاٹنے والوں کے لئے امید کی کرن بننا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ آج، ہو سکتا ہے کہ اس بے مثال ہیرو کا آٹو گراف، شاید کسی کی بک میں ثبت نہ ہوا ہو، مگر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ آٹو گراف سب کے دلوں پر نقش ہے۔ صرف یہی نہیں، عمل کی روشنائی نے اسے ان مٹ بنا دیا ہے۔

یہ وہ منفرد شخص تھا جو ( رسمی ) تعلیم سے تو محروم تھا مگر ( دائمی ) تربیت سے پوری طرح بہرہ ور، اسی لئے اس نے اپنی فہم و فراست سے شعور کے وہ مظاہر پیش کیے جو دوسروں کے لئے بھی قابل تقلید ٹھہرے۔ اسے انسان بننے اور انسان رہنے کے لئے کبھی بھی کسی لائبریری اور کتابوں کے ڈھیر سے زندگی کے نصاب میں درج، اصول ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ ماں کی ابتدائی نصیحت ہمیشہ اس کے لئے نشان راہ رہی کہ آدھا اپنے لئے اور آدھا دوسروں کے لئے۔ اس کی شبانہ روز کی تگ و دو، اس بات کی مظہر ہے کہ فرماں بردار اولاد نے، شاید، ماں کی نصیحت سے بھی بڑھ کر، کر دکھایا۔

اور اسی نصیحت کے پیچھے اس سوال کا جواب بھی پوشیدہ ہے کہ وہ کون تھا جس نے انسان دوستی، رواداری اور زمانے بھر کے دکھیوں کی دل جوئی سے ہمکنار ہونے کی دعا مانگی۔ یہاں یہ قیاس، یقین سے زیادہ سہل ہے کہ یہ کوئی اور نہیں، صرف اور صرف، عبدالستار ایدھی کی والدہ تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments