آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں


”یوسف کباڑی کے یہاں کچھ قیمتی دستاویزات میں نے دیکھی ہیں، کسی دن فرصت نکال کر چلے جاؤ اور دیکھ لو شاید تمہارے کام کی کچھ چیزیں وہاں مل جائیں۔“

ایک دن، دو دن، تین دن، کئی دن گزر گئے، میں اپنے کاموں میں اتنا مصروف رہا کہ فرصت ہی نہ مل سکی۔ راہ چلتے ہوئے ایک دن انھوں نے مجھے پھر ٹوکا اور کہا: ”مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے متعلق چند فائلیں میں نے وہاں دیکھی ہیں، تم نے مشاورت پر کام کیا ہے تو مجھے لگا شاید اس میں تمہارے لیے کچھ ہو، میں نے کچھ فائلیں الگ کر کے رکھوائی ہیں، اس سے پہلے کہ وہ ٹھکانے لگا دے جا کے دیکھ لو، اس میں ضرور تمہارے لیے کام کی چیزیں ہوں گی۔“

مشاورت کی بات سنی تو میں دوڑا دوڑا کباڑی کے یہاں پہنچا لیکن مجھے پہنچنے میں کافی دیر ہو چکی تھی۔ کباڑی والے نے مجھے بتایا: ”کل ہی ساری بوریاں پیک کرا کر لوڈ کروا دیں۔“

میں ہارے ہوئے جواری کی طرح حیران و پریشان اس کی دکان کی ایک ایک چیز کا جائزہ لینے لگا، میری نگاہیں اس فائل کو ڈھونڈ رہی تھیں جس کے بارے میرے کرم فرما نے بتایا تھا۔ میں نے کباڑی والے سے پوچھا: ”غفور بھائی نے کچھ چیزیں رکھوائی ہیں کیا؟“ ۔

اپنے سرہانے کولر کے اوپر رکھے ایک پلاسٹک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ تو نہیں ہے؟“ میں نے کہا: ”دکھائیے!“ تو اس نے میرے سامنے فائلوں کا ایک پلندا لاکر پٹک دیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے اسے کھولا۔ یہ ایک سبز رنگ کی فائل تھی جس کے رنگ اڑے ہوئے تھے اور جلی حروف میں لکھا تھا ”ریکارڈ فائل آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت“ ۔

میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ تو نادر اور نایاب قیمتی دستاویزات کا مجموعہ تھا اور بیچنے والے نے اسے مٹی کے بھاؤ کباڑی کو بیچ دیا تھا۔ میں وہیں پڑی چوکی پر بیٹھ گیا اور ایک ایک صفحے پلٹنے لگا۔ کچھ صفحات اتنے پرانے تھے کہ پلٹتے ہی پھٹ جاتے۔

کہیں سے ندا آئی: ”آہستہ پلٹو میرا دل کٹتا ہے۔“ میں بے چین ہو اٹھا اور دھیرے دھیرے ایک ایک ورق پلٹنا شروع کیا۔ کہیں مولانا ابواللیث اصلاحی بیٹھے تھے، کہیں منظور نعمانی صدا دیتے تھے۔ کہیں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نوحہ کہتے تھے، کہیں شفیع مونس پرسا دیتے تھے، کہیں سید احمد ہاشمی روئے جاتے تھے، کہیں محمد عبد الرحیم قریشی کی گریہ سنائی دیتی تھی، کہیں سید یوسف تسلی دیتے نظر آتے تھے، کہیں محمد عبد القیوم بین کر رہے تھے، کہیں سید محمد حسنین عابدی دکھڑا سناتے تھے، کہیں محمد سراج الحسن لاٹھی ٹیکتے، کچھ سمجھاتے دکھائی دیتے تھے تو کہیں سید خادم حسین اور امین الحسن رضوی ماتم کرتے نظر آرہے تھے۔

کسی نے سرگوشی کی، ”ابھی تو صدی بھی نہیں گزری اور یوں کوڑے میں پھینک دیا۔“ میں صفحات پلٹتا رہا، کہیں مفتی عتیق الرحمان قاسمی صاحب کے ہاتھ سے لکھے خط کی کاپی ہے، کہیں نیلے، لال اور کالی روشنائی کے پھیلے دھبے، کہیں پنسل سے کچھ آڑی ترچھی لکھی ہوئی تحریریں، کہیں خوب صورت لفافے میں بند خط، جسے پڑھنے والے نے بہت احتیاط سے موڑا تھا۔ کچھ پمفلٹ اور حکومت کو لکھے گئے خطوط، کچھ ملی مسائل پر مسودات، کہیں لال قلم چلایا ہوا ہے، کچھ قلم زد کیے ہوئے، کچھ نئے جملے لکھے ہوئے۔ کہیں ہندی اور انگریزی میں ملی مسائل پر طویل مراسلے، ملی مسائل پر حکومت کو تجاویز اور میمورنڈم، کہیں پرانے اخبارات کے تراشے، کچھ پڑھے جا رہے ہیں، کچھ نہیں پڑھے جاتے۔ ان میں بہت ساری ایسی چیزیں بھی ہیں جو مشاورت پر تحقیق کے دوران میری آنکھوں سے اوجھل رہیں۔

اب یہ ایک دوسری فائل ہے، پیلے موٹے اور دبیز دفتیوں کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے اور جلی حروف میں لکھا ہے ”آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ۔“ اس میں پرسنل لاء کے پہلے اغراض و مقاصد کا مسودہ، جن جن لوگوں نے اس پر نظر ثانی کی تھی ان کے دستخط، بہت سے پرانے خطوط، اخبارات کے تراشے، ملی مسائل پر لکھے گئے مختلف لوگوں کے سوالوں کے جوابات، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور بہت سارے حساس مسائل پر سفارت خانوں کو لکھے گئے مراسلوں کی کاپیاں موجود ہیں۔

میں سب جلدی جلدی پڑھ لینا چاہتا تھا، اس لیے صفحات بھی جلدی جلدی جیسے خود ہی پلٹ جاتے۔ میرا انہماک دیکھ کر کباڑی والے نے کہا: ”کیا یہ آپ کے کام کی چیزیں ہیں؟“ میں نے نم آنکھوں کے ساتھ ”ہاں“ کہتے ہوئے سر ہلایا تو کہنے لگا: ”یہ آپ رکھ لیں۔“ اب وہ اپنی سنانے لگا تھا: ”مجھے پتہ نہیں تھا ورنہ آپ تو ادھر سے اکثر گزرتے ہیں، میں آپ کو بلا لیتا۔“ وہ کہے جا رہا تھا: ”یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، ہم نے اس سے بڑی بڑی سیکڑوں فائلیں بوری میں بھروا دیں۔“

میں نے اس سے پوچھا: ”یہ چیزیں آپ کے پاس کہاں سے آئیں؟“ اس نے بتایا: ”ابو الفضل چار نمبر کے پاس ایک سنستھا ہے اسی کے یہاں سے۔“ میں نے کہا: ”کون سی سنستھا؟“ ارے وہی جہاں جمعے کی نماز ہوتی ہے، گنبد والی جو مسجد ہے ”اس نے معصومانہ لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہا۔ میں سمجھ چکا تھا اس لیے میں نے مزید کریدنا مناسب نہ جانا۔

واپسی پر اس نے کتابوں سے لدی ایک ریک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”اس میں دیکھ لیجیے، آپ کی دلچسپی کی کوئی چیز ہو، عربی میں لکھا تھا اس لیے ہم نے اس کو الگ رکھ دیا ہے۔“ میں نے دیکھنا شروع کیا تو حیرانی کی انتہا نہیں رہی، جاپانی، کورین، ملایا، عبرانی اور چینی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم تھے، اسی میں مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترکی زبان میں ترجمہ کی کچھ جلدیں بھی موجود تھیں۔ میں مورتی کا پتھر بنا اسے دیکھتا رہا، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اس سے کیا کہوں۔ میں نے اس سے بس یہی کہا: ”میں جلد آؤں گا، بس اسے حفاظت سے رکھنا۔“

ہاں وہ فائلیں میں وہاں سے ضرور اٹھا لایا، کباڑی والے کو کچھ پیسے دینا چاہا تو اس نے لینے سے منع کر دیا۔ رات بھر مجھے نیند نہیں آئی کہ آخر اور کیا کیا چیزیں ان بوریوں میں رہی ہوں گی جو میں نہیں دیکھ سکا۔

بعد میں تحقیق کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ اس میں معروف ادیب ابن فرید کی ذاتی لائبریری کی کتابیں، بہت سارے نوٹس، غیر مطبوعہ کتابوں کے مسودات بھی تھے جنھیں مٹی کے مول کباڑی کو بیچ دیا گیا۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ کس سے دکھڑا کہیے؟ کہاں رونا روئیے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments