ہٹلر،تیل کا بحران، بین الاقوامی جنگیں اور موجودہ منظرنامہ


 

ایڈولف ہٹلر 20 اپریل 1889 ء کو آسٹریا کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کی تعلیم نہایت کم تھی۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے کالج آف فائن آرٹس میں محض اس لیے داخلہ نہ مل سکا کہ وہ ان کے مطلوبہ معیار پر نہیں اترتا تھا۔ 1913 ء میں ہٹلر جرمنی چلا آیا جہاں پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی طرف سے ایک عام سپاہی کی حیثیت سے لڑا اور فوج میں اس لیے ترقی حاصل نہ کر سکا کہ افسران کے نزدیک اس میں قائدانہ صلاحیتوں کی کمی تھی۔ 1919 ء میں ہٹلر جرمنی کی ورکرز پارٹی کا رکن بنا جو 1920 ء میں نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (نازی) کہلائی۔ 1921 ء میں وہ پارٹی کا چیئرمین منتخب ہوا۔

1933 ء کے انتخابات میں نازی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی مگر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے صدر نے ہٹلر کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور یوں ہٹلر ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے چانسلر تک پہنچ گیا۔ چانسلر بننے کے بعد ہٹلر نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ نازی پارٹی کا فروغ تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے مخالفین کو دبانے کا ہر حربہ آزمایا۔

1939 ء میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر جارحیت دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی لیکن شمالی افریقہ سے بحر اوقیانوس کے برفانی پانیوں تک، جنوبی بحرلالکاہل کے جنگلوں سے رومانیہ کے آسمانوں تک، دوسری عالمی جنگ برپا ہونے کی وجہ صرف ایک قدرتی وسیلہ تھی اور وہ تھا پٹرول۔ دوسری جنگ عظیم پٹرولیم کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی گئی تھی۔

تیل کے بغیر جدید میکانیکی جنگ ناممکن تھی۔ تیل نے ہر اہم جنگی طاقت کو جنگی مہمات کے لیے ایندھن فراہم کیا اور تیل کی ترسیل اور پٹرولیم کے وسائل کے کنٹرول کا حصول جنگ عظیم دوم کے دوران میں ہونے والی ساری بڑی لڑائیوں کی اہم ترین وجہ رہا۔ اسٹالین گراڈ کی لڑائی اور پرل ہاربر ؔپر حملہ بھی اسی تیل کے حصول کی خاطر تھا۔

1930 ء کی دہائی میں عظیم کساد بازاری کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں نے جرمن فیوڈر ایڈولف ہٹلر کی مقبولیت میں بڑا اضافہ کر دیا تھا۔ کساد عظیم یا گریٹ ڈپریشن نے پوری دنیا پر سنگین معاشی اثرات مرتب کیے لیکن جرمنی اس کا بد ترین شکار بنا۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے افراط زر اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے باوجود، ہٹلر نے فتح کے ذریعے قومی عظمت کی واپسی کے خواب دکھانے شروع کیے۔ ہٹلر نے تقریریں کیں کہ جرمنی یورپ پر بالا دستی حاصل کرے گا اور وہ تمام وسائل حاصل کر لے گا جو جرمن قوم کو خود پر انحصار کرنے والا اور خود مختار ملک بنا کر یورپ پر حکمرانی کے قابل بنا دے گا۔

زمین پر سب سے طاقتور صنعتی ملکوں میں سے ایک ہونے کے باوجود، جرمنی میں کوئی تیل کا قدرتی ذخیرہ موجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، برطانیہ اور فرانس کی طرح جرمنی کی کوئی گیر ملکی کالونی بھی نہیں تھی جہاں سے اسے تیل کی ترسیل ہو سکے۔

دراصل، 1930 ء کی دہائی میں تیل پر صرف چند ممالک کا غلبہ تھا۔ عالمی تیل کی پیداوار کا نصف متحدہ امریکا میں پیدا ہوتا تھا۔ باقی تیل سوویت یونین، وینزویلا، ایران، انڈونیشیا اور رومانیہ سے حاصل ہوتا تھا۔ چونکہ جرمنی کی اپنی تیل کی پیداوار نہایت کم تھی اس لیے اس کی صنعتی معیشت کو ایندھن اور اس کی بڑھتی ہوئی جنگ کی مشین کو مضبوط کرنے کے لیے جرمنی کو تیل کے وافر ذخائر کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ ہی تیل کی ترسیل کے لیے ریل کی پٹڑی بھی ضروری تھی۔ جرمنی سے بغداد تک ریل کی پٹڑی بچھانے کے کام کا آغاز 1903 ء میں ہوا تھا، یہ کام جنگ عظیم اول کے دوران بھی جاری رہا، یہ کام 1940 ء تک جاری رہا۔ اس حوالے سے آپ سی پیک کو بھی مد نظر رکھ سکتے ہیں۔

ہٹلر کے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک کو فتح کر لیا جائے جیسا کہ امریکا نے عراق اور لیبیا کو فتح کر کے کیا۔ ہٹلر ایک عظیم جرمن سلطنت بنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے پٹرولیم پر کنٹرول انتہائی ضروری تھا۔ جنگ عظیم دوم کی بیشتر جنگیں اسی کنٹرول کو حاصل کرنے کی خاطر ہوئی تھیں۔

ہٹلر نے مئی 1940 ء میں فرانس پر قبضہ کر لیا۔ اب اس کا واحد حریف برطانیہ تھا جو ایک طاقتور بحریہ اور دنیا بھر میں پھیلی کالونیوں کا مالک تھا۔ جرمنی کے پاس نہ اتنی مضبوط بحریہ تھی نہ ہی کوئی خاص کالونی۔ ہٹلر کا مقابلہ کرنے کے لیے اگرچہ برطانیہ ایک مضبوط پوزیشن میں تھا لیکن برطانیہ کی ساحل سے دور یورپ کے اندرونی خطوں پر مداخلت کی صلاحیت محدود تھی۔

جرمنی کی طرح برطانیہ کے پاس بھی تیل کا کوئی ذخیرہ نہیں تھا۔ برطانیہ کو دوسرے ممالک، خاص طور پر امریکا اور وینزویلا سے تیل فراہم ہوتا تھا۔ تیل کے ٹینکرز جرمن آبدوزوں کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے تھے۔ جرمن آبدوزوں نے 1941 ء اور 1942 ء میں برطانوی بحریہ اور برطانوی مرچنٹ جہازوں کو کافی بڑا نقصان پہنچایا۔ تاہم بعد میں برطانوی بحریہ بڑی حد تک جرمن آبدوزوں کے حملوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

جون 1941 ء کو، ایک وسیع جرمن فوج نے سوویت یونین پر حملہ کیا۔ فوج کا ایک حصہ لینن گراڈ کی طرف بڑھا، دوسرا سوویت دار الحکومت ماسکو کی طرف، تیسرا حصہ یوکرین سے گزر کر کوہ قفقاز (Caucasus) میں واقع تیل کے ذخیروں کی جانب بڑھا اور باکو کی تیل ریفائنریوں اور ذخائر پر قبضہ کر لیا۔ اب ہٹلر کے پاس تیل کی کمی نہ رہی تھی۔ لیکن روسیوں نے اسٹالن گراڈ پر جوابی حملہ کیا اور جرمن فوجوں کو بتدریج پسپائی اختیار کرنا پڑی اور جلد ہی روسی تیل کے ذخائر جرمنوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔

اس وقت برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ، آپریشن اوورلارڈ کے لیے تیاری کر رہے تھے جس کا مقصد فرانس سمیت مغربی یورپ کے دیگر ممالک کو جرمن تسلط سے آزاد کرانا تھا لیکن فرانس میں فوجیں اتارنے سے پہلے اتحادیوں نے جرمن صنعتوں، شہروں اور فوجی تنصیبات پر ایک بڑے پیمانے پر فضائی بمباری کا آغاز کیا۔ اگرچہ بیشتر بم نشانے پر نہیں لگے تاہم جرمنی کو کافی نقصان پہنچا۔

1943 ء اور 1944 ء میں برطانوی اور امریکی بمباروں نے رومانیہ میں تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ رومانیہ ہٹلر کا اتحادی تھا اور جرمنی کو تیل کی سپلائی کا اصل مرکز تھا کیونکہ روسی تیل کا قبضہ جرمنی کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

1944 ء تک جرمنی میں تیل کی شدید قلت ہو چکی تھی۔ جرمن فضائیہ کا بیشتر حصہ گراؤنڈ کر دیا گیا۔ فوجی دستوں کی نقل و حمل میں مشکلات آنے لگیں۔ جب نارمنڈی میں اتحادیوں نے فوجیں اتاریں تو جرمن فوج تیل کی کمی کی وجہ سے فوراً کمک پہنچانے میں ناکام رہی۔ 1944 ء کی گرمیوں میں اتحادیوں نے جرمنوں کو فرانس کے ایک بڑے حصے سے نکال باہر کیا۔ ہٹلر نے دسمبر 1944 ء میں بیلجیئم کی بندرگاہ اینٹورپ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تاکہ فرانس میں موجود اتحادی فوجوں کو تیل نہ پہنچ پائے۔ اگر اس کی یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو جنگ کا نقشہ پلٹ جاتا۔ لیکن ہٹلر کے ٹینک برف میں پھنس گئے اور یہ منصوبہ ناکام رہا۔

1945 ء میں جب فرانس میں اتحادیوں کی سپلائی بحال ہوئی تو مغرب سے اتحادیوں اور مشرق سے روسیوں نے جرمنی کی طرف پیشقدمی کی اور برلن کا محاصرہ کر لیا۔ 8 مئی 1945 ء کو ہٹلر نے خودکشی کر لی۔

اور یہ تیل کی قلت تھی جس نے بالآخر جرمنی کے ساتھ ساتھ جاپان کو بھی شکست سے دوچار کر دیا۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ اس وقت ہوا جب فروری کے آخر میں تیل پیدا کرنے والے بڑے ملک روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا جس سے توانائی کے شعبے میں عالمی سپلائی چین میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں کیونکہ مغربی ممالک نے ماسکو پر یوکرین پر بلا اشتعال جنگ مسلط کرنے کی وجہ سے بھاری پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔

ایک عالمی ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ اب ہمارے پاس توانائی کے شعبے میں بحرانوں کا یہ مسلسل رول ہونے والا سلسلہ جاری ہو چکا ہے۔ کورونا، آب و ہوا کے معاملات اور سیاسی تنازعات۔ اب ہمیں بہت سے ممالک میں زندگی کے بحران کا سامنا ہے۔ ”یہ ایک بین الاقوامی بحران ہے جس کا پاکستان بھی ایک شکار ہے مہنگائی کا عفریت عوام کا شکار کرنے کو تیار ہے۔

٭٭ اس آرٹیکل کی تیاری کے لیے وکی پیڈیا اور سی این بی سی کی ویب سائیٹ سے استفادہ کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments