ڈیلوں کی سیاست


اگر دیکھا جائے تو اصلی مسلم لیگ قائدؒ کی رحلت کے ساتھ ہی ختم ہو گئی اور جو کچھ تھوڑا سا بھرم رہ گیا تھا وہ لیاقت علی خان کی شہادت نے ختم کر دیا۔ اس کے بعد سے آج تک مسلم لیگ ایک پروردہ جماعت ہے، جسے آمریت نے خوب استعمال کیا۔ چاہے اس کا نام کچھ بھی رکھ لیں ”لیگ“ سے جان نہیں چھوٹی، کنونشن لیگ تو کبھی عوامی لیگ، ہر دفعہ لیگی رہنما آمریت سے ڈیل کر کے حکومتی راہداریوں میں آتے جاتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تیسری فورس نے گزارا اور پھر دوبارہ لیگوں کی ژالہ باری شروع ہو گئی۔

تیسری فورس اس لئے کہا کہ آمریت کے ساتھ لیگ دوسری فورس تھی جبکہ تیسری فورس نے اپنی حکومت بنانے کے لئے بچا کھچا پاکستان پا کر کہا ”شکر ہے پاکستان بچ گیا“ ۔ اسلامی مارشل لاء لگا تو پھر مسلم لیگ کا ڈول ڈالا گیا، آمریت کے ساتھ ایک اور ڈیل کی گئی تا کہ مسلم لیگ کا احیاء کیا جا سکے، اقتدار کی سازشوں میں جتنا حصہ مسلم لیگ کا ہے شاید ہی کسی اور پارٹی کا ہو۔ اس پارٹی کا سربراہ کوئی بھی ہو ڈیل کا سرخیل ہوتا ہے اور ڈیل کی پگ اس کے سر پر ہی سجائی جاتی ہے۔

اس نئی مسلم لیگ کا احیاء خاک ہونا تھا، مسلم لیگ کو ایسا دھچکا لگا کہ مسلم لیگ حروف تہجی میں بٹ گئی، ایسا لگتا تھا سی 130 کی طرح مسلم لیگ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے جو آج تک نہیں جڑ سکے بلکہ ان میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لگتا ہے حروف تہجی ختم ہو جائیں گے اگر مسلم لیگ کی شیرازہ یوں ہی بکھرتا رہا۔ لیکن ان تمام مسلم لیگوں میں شریفین کا پلڑا بھاری رہا، چاہے انہیں جونیجو کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا پڑا یا پھر بعد میں چٹھوں، وٹو، چوہدری وغیرہ کو اپنے لئے استعمال کر کے پھینکنا پڑا حتٰی کہ اس تازہ مسلم لیگ کے بانی کے ولی عہد کے ساتھ بھی زیادہ عرصہ گزارا نہ ہو سکا تو اس نے بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ لیگ بنا لی۔ شریفین سربراہی عہدوں میں حصہ داری پسند نہیں کرتے اس لئے ان بقیہ حضرات کو اپنی اپنی لیگ بنانی پڑی۔ آج کل آپ کسی سیاسی تجزیہ نگار کو کہیں کہ وہ ان تمام مسلم لیگوں کے نام بتا دے تو ایسا ناممکن ہے، کوئی نہ کوئی نام گنتی میں سے رہ ہی جائے گا۔ اتنی زرخیز ہو چکی ہے قائدؒ کی مسلم لیگ۔

مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے شریفین نے ہمیشہ کامیاب ڈیلیں کی ہیں چاہے وہ اقتدار میں آنے کے لئے ہوں یا پھر بھاگنے کے لئے۔ اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ان کی ہر ڈیل کامیاب رہی۔ جب سب لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شریفین پھنسے کہ پھنسے اور نکلنا ناممکن ہو، اس وقت بھی ان کے پاس ترپ کا ایسا پتہ ہوتا ہے جس کو یہ سب سے آخر میں کھیل کر اپنا آپ بچا کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ 90 کی دہائی ہو یا پھر ڈرتا ورتا نہیں فیم جنرل ہو، شریفین کی کوئی ڈیل آج تک ناکام نہیں ہوئی۔

پاناما ہنگامہ میں جب سب کچھ مکمل سیٹ تھا اور حکومت وقت مطمئن و مسرور تھی کی اب کی دفعہ شریفین کا بچنا ممکن ہی نہیں، تو بڑا شریف مکھن میں سے بال کی طرح نکل کر لندن جا بیٹھا اور چھوٹا شریف مدارالمہام بن گیا اور جنہوں نے ان کو شکار کرنے کا جال بچھایا تھا وہ ششدر کھڑے ہیں اور عوام کی عدالت میں انصاف طلب ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟ اس پہ طرفہ تماشا یہ کہ بڑے کو حکومت وقت نے خود لندن بھجوایا اور چھوٹے نے سائیں کے کہنے میں آ کر شیروانی تو پہن لی مگر یہ شیروانی اتنی تنگ اور سخت ہے کہ اس ڈیل سے شریفین کے اپنے ڈیلے باہر آ گئے ہیں، بلکہ جن کے ساتھ ڈیل کی گئی وہ اب ان کو ڈیلے دکھا رہے ہیں۔ فی الحال تو ایسا لگ رہا کہ یہ آخری ڈیل ان کے گلے کا ڈھول ثابت ہو گی جسے یہ طریقے و سلیقے سے نہ بجا سکتے ہیں اور نہ ہی گلے سے اتار سکتے ہیں۔ لگتا ہے اس آخری ڈیل کا ڈیل ڈول سنبھالا نہیں جا رہا اور وقت ہے کہ مزید ڈھیل دینے پر تیار نہیں۔

سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان
Latest posts by سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments