کیا پرائی آگ میں جھونکے بچے کچرے سے اٹھائے گئے تھے؟


ہمارے یہاں مفاد پرست طبقے کو ہر دور میں جب بھی ذاتی اور معاشی فوائد کے لئے کوئی بھی موقع ملتا ہے، اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس کے واسطے ہزاروں انسانوں کو بھی اگر بلی چڑھانا پڑھ جائے، تو وہ اس کے لئے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان نوجوانوں کو بلی چڑھا کر بے شمار فوائد سمیٹنے کے لئے جو نسخہ کیمیا اس طبقے کے یہاں معروف و مقبول رہا ہے، وہ مذہب کا استعمال ہے جس کو خطرے میں بتا کر اور جھوٹی مبشرات کا سہارا لے کر ان کو گمراہ کیا جاتا ہے حتی کہ وہ ان کی باتوں میں بہک کر مرنے کے واسطے تیار ہو جاتے ہیں۔

مگر خود کمال ہنرمندی اور ہوشیاری سے یہ طبقہ اپنے اہل و عیال کو اس ”مقدس“ فریضے سے دور رکھ کر، ان کا مستقبل محفوظ بنانے میں مستعد رہتا ہے۔ ہمارے آبائی علاقے میں ایک مشہور مذہبی جماعت کے مقامی امیر ہوا کرتے تھے، جو افغانستان میں امریکہ کے تعاون سے ”لادین“ روس سے جہاد میں مصروف تھی، جس کے لئے غرباء کے بچوں کو جنت اور ”ستر لباس کے پیرہن کے باوجود بھی برہنہ“ نظر آنے والی حوروں سے شادی جیسے جھانسے دے کر افغانستان بھیجا جا رہا تھا۔

مگر خود ان امیر صاحب کے تمام بچے اس سارے بکھیڑے سے بے خبر یونیورسٹیز میں ’کافروں‘ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ نہ جانے امیر صاحب کو اپنے بچوں سے کیا دشمنی تھی، کہ ان کو جنت اور حوروں سے وصل کی بجائے کافروں کے بنائے تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے تھے؟ اس پر حضرت کے یکے از صاحب زادگان سے جب استفسار فرمایا، تو یہ بات ان کی طبع نازک پہ اس قدر ناگوار گزری کہ آج تک وہ مجھ سے ناراض ہیں۔

اگر ہم مذکورہ بالا مثال پر غور کریں، تو یہ چیز اس امر کی عکاسی کرتی ہے، کہ یقیناً ان لوگوں کو اس جہاد کے پیچھے چھپی حقیقت کا اچھی طرح ادراک تھا، جس کے باعث ان لوگوں نے اپنے بچے تو بچا لیے، مگر غربا کے بچوں کو بہکا کر ان کو پرائی آگ میں جھونک کر ان کی ماؤں کی جھولیوں کو اجاڑ ڈالا۔ اور اس خدمت کے عوض جو مالی منفعت سمیٹی وہ اس کے علاوہ ہے، جس کی ایک جھلک حالیہ پینڈورہ لیک میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوقیانہ رویہ جس میں غریب کا بچہ جان سے جائے مگر اس کو استعمال کرنے والوں کے بچے عیش میں پلیں، اس کی وجہ کیا ہے؟

کیا یہ بچے کچرے کے ڈھیر سے اٹھائے گئے تھے، جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا، اور جن کا وجود معاشرے پر بوجھ ہوتا ہے، لہذا اگر یہ پرائی آگ میں جھونک بھی دیے گئے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، یا یہ بھی کسی نہ کسی گھر کے چراغ، کسی کے بڑھاپے کا سہارا، کسی کی امید کی کرن تھے، جن کی پیدائش پہ ان کے گھر والوں نے خوشیاں منائیں تھیں۔ یہ سوال آج بھی اس لئے زندہ ہے، کہ کھیل ختم نہیں ہوا۔ بلکہ وہی کھیل ہنوز جاری و ساری ہے، جس میں صرف نام بدلے ہیں مگر کردار بھی وہی ہیں، نعرے بھی وہی ہیں، اور مقاصد بھی وہی ہیں۔

یہاں جب بھی کسی کو اپنے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا نظر آیا، اس نے اسلام کی آڑ لے کر سادہ اور معصوم افراد کو بھاڑے کے ٹٹوؤں کی مدد سے گمراہ کر کے، پورے معاشرے کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر تقسیم در تقسیم کر کے اسے مزید کمزور کر دیا۔ اپنے مالی مفادات اور بیرونی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے، ان تمام عوامل کی حوصلہ افزائی کی گئی جن کا مقصد کبھی بھی معاشرے کی تعمیر اور فلاح نہیں بالکل شکست و ریخت اور تفریق رہا ہے۔

تاہم اس میں سب سے شرم ناک کردار ریاست کا ہے جو اپنے بچوں کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے، اور آج بھی یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ یہ بات بھی کس قدر معنی خیز ہے کہ جب ہمارے یہاں سے نوجوانوں کی ذہن سازی کر کے، ان کو پرائی جنگ میں جھونکا جا رہا تھا، اس وقت ریاست کی باگ ڈور ایک ایسے آمر کے ہاتھ میں تھی جو اس ملک کے دستور کو ذرے برابر اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں تھا، سو وہ عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو جوابدہ بھی نہیں تھا۔

اور ایسے میں اس کھیل کے اصل کرداروں کے لئے اپنا کام کرنا نہایت آسان تھا۔ پھر عین وہ وقت کہ جب ان بچوں کو تربیت دی جا رہی تھی، اسی زمانے میں ملک کی مشہور مذہبی جماعت کے ایک سرکردہ رہنما کے بیٹے بھی اس جہاد کے لئے رضاکارانہ اپنا نام دے آئے۔ مگر جیسے ہی ان کے والد گرامی کو معلوم ہوا، وہ فوراً وہاں پہنچے اور اپنے بیٹے کی گوشمالی کرتے ہوئے، یہ کہہ کر اسے گھر واپس لے آئے کہ یہ ذہنی مریض ہے اور اس کے دماغ کا علاج جاری ہے۔

کیا یہ منافقانہ طرز عمل اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ، یہ لوگ جہاد کے نام پر کھیلے جا رہے اصل ڈرامے کی حقیقت سے واقف تھے، مگر ڈالرز کی چمک نے ان کی آنکھیں خیرہ کردی تھیں اور وہ اس کھیل کے انجام سے بے خبر پرائے گھر میں لگی آگ میں اپنے ملک کے بچے جلا رہے تھے۔ یہ اپنی اولاد کے بارے میں اس قدر حساس واقع ہوئے ہیں کہ جماعت اسلامی کے بانی کے ایک فرزند کا انٹرویو آج بھی دستیاب ہے، جس میں وہ واشگاف الفاظ میں بتا رہے ہیں کہ والد نے کیسے اپنی اولاد کو جماعت اور اس کی سرگرمیوں سے دور رکھا مبادا وہ بھی کسی پرائی آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔

کچھ ایسا ہی حال ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا بھی ہے، جن کے ہاں ماڈل ٹاؤن سانحہ ہوا تو جاں بحق ہونے والوں میں صرف غربا کے بچے ہی شامل تھے، مگر اس خونریزی میں نہ تو موصوف کی اپنی اولاد کو کوئی گزند پہنچی، نہ جماعت کے باقی عہدیداروں کو۔ اور آج تک ان جاں بحق افراد کے لواحقین انصاف کے لئے منتظر ہیں۔ سو اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم سوچیں کہ آخر کب تک ہمارے بچے یونہی ان کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں گے۔ کیا عزت سے جینے کا حق صرف اسی طبقے کے بچوں کو حاصل ہے؟ کیا ہمارے بچے کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی؟ کیا اسلام کو خطرے سے نکالنے کے لئے صرف غریب کے بچے کا خون ہی رہ گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments