انقلاب اور عصر حاضر کے تقاضے


انقلاب کہتے ہیں ایک ہمہ جہت تبدیلی کو۔ کسی بھی قسم کی مکمل تبدیلی کو انقلاب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اگر اسے سیاسی نظر سے دیکھا جائے تو کسی بھی ملک میں چل رہے سیاسی نظام میں یکسر مکمل تبدیلی کے نام کو انقلاب کہتے ہیں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ وطن عزیز کے موجودہ حالات اور انقلاب کا کیا سنگ میل ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ کے علاوہ تمام طبقوں کے لوگ ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔ ریاست کے کسی بھی ادارے یا محکمے کو دیکھ لیں۔ چاہے صحت کا میدان ہو یا معیشت کا اکھاڑا، پولیس کا محکمہ ہو یا عدل کا ایوان، شعبہ تعلیم ہو یا روزگار کا میدان، ٹیکنالوجی کو تو رہنے ہی دیں، ان کے علاوہ بھی تمام شعبہ جات میں ایک چیز مشترکہ اور روز روشن کی طرح عیاں دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ ہے ”مسائل“ ۔

سرکاری ہسپتالوں کی طرف منہ کرنے کو جی گھبراتا ہے۔ اگر با امر مجبوری کسی کو جانا بھی پڑ جائے تو اسے غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح، بے دھڑک ہو کر اور بڑی لاپرواہی سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ معائنہ تو بہت دور رہا، یہاں کے ڈاکٹر حضرات مریض کے منہ سے نکلتے الفاظ سے اس کی بیماری کا اندازہ لگا کر فوراً اپنے قلم سے اس کا علاج پیش کر دیتے ہیں اور دوائیوں کا انبار اسے بطور علاج تجویز کر دیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریض کے ساتھ گراہک اور بلی کے بکرے جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

تھانے کچہری کے تو نام سے ہی لوگ تھر تھر کانپنے لگ جاتے ہیں۔ انصاف نام کی چیز یہاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ ہاں رشوت، سفارش اور بے ایمانی یہاں سرعام دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر اپ کے پاس دولت ہے تو انصاف آپ کے قدموں میں، نہیں تو اپ ان جگہوں کے چکر ہی لگاتے پھریں گے۔

تعلیمی نظام کی تو بات ہی نہ کریں۔ لارڈ میکالے کے بنائے گئے تعلیمی نظام کو بڑی خوبصورتی سے ابھی تک اس ملک میں رائج رکھا گیا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہاں کے عوام کو کبھی شعور ملا ہی نہیں۔ ویسے تو سینتالیس میں پاکستان کے عوام کو الگ وطن اور انگریزوں سے آزادی مل گئی لیکن اس تعلیمی نظام کے باعث یہاں کے عوام آج تک ذہنی غلامی کا شکار ہیں جو کہ اس تعلیمی نظام کو بنانے کا مقصد بھی تھا۔ یہاں کا تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔ اشرافیہ کے بچوں کے لیے نصاب سے لے کر اداروں کے ماحول تک کو بہترین پیمانوں پر استوار کیا گیا ہے جبکہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو برائے نام تعلیم کے ذریعے بے شعور رکھا جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے شعبے سے تو ہمارا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ آزادی کے دن سے لے کر آج تک کبھی قوم کو اس طرف متوجہ ہی نہیں کیا گیا۔ سسٹم نے انھیں بڑے احسن طریقے سے غیر ضروری اور جہالت پر مبنی مسائل میں الجھا کر ترقی سے قوسوں دور روک رکھا ہے۔

ملکی معیشت ابھی چند روز قبل ڈوبنے کو تھی۔ پھر بیرونی قرضوں اور امداد کی مدد سے اسے تنکے کا سہارا دیا گیا۔

سسٹم کے پیدا کردہ مسائل نے پاکستان کے عوام کی اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ، ان کی معاشی، معاشری اور انفرادی زندگی کو بھی دوبر کر رکھا ہے۔ ایک مزدور کی تنخواہ کم سے کم پچیس ہزار متعین ہے جبکہ اشرافیہ پچیس ہزار سے بھی مہنگی قیمت کے جوتے پاؤں میں پہنے عوام کو کچلتے پھرتے ہیں۔ عوام کو اس طرح مسائل کے چنگل میں پھنسایا گیا ہے کہ ان کی بدولت ذہنی و جسمانی امراض پاکستانی عوام کے اثاثے کی سی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی سسٹم نے ڈھیروں مسائل بطور کھلونا عوام کے لیے پیش کر رکھے ہیں اور عوام بے خیالی میں ان سے کھلنے میں مصروف ہیں۔ ان سب حالات کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ ملکی نظام کے اندر رہتے ہوئے ان سب مسائل کو حل کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ہر شعبہ مسائل کا گھر بنا ہے اور موجودہ سسٹم

اس سب کو بنیادیں اور ستون فراہم کرتا ہے۔

یہ سب حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس سسٹم کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے تاکہ ان سب مسائل کو عوام کی زندگیوں سے نکالا دیا جا سکے۔ نظام کی مکمل تبدیلی یعنی کہ ”انقلاب“ اب نا گزیر ہے۔

انقلاب کی بدولت ہی اس نظام کی عمارت کو گرایا جا سکتا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک نیا نظام نافذ کیا جا سکتا ہے جس کے بعد ہی سب مسائل کا حل ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments