تیقن اور مکالمہ


”“ کنڈی پتھر سے افضل ہے، بارش کمبل سے افضل ہے، جوتا نلکے سے افضل ہے، پزا کوئلے سے ہے، درخت پانی سے افضل ہے، دادی نانی سے افضل ہے، (پاکستانی) فری تھنکر کھوٹے سکے سے افضل ہے۔ اور ساڈے لائق کوئی خدمت؟ ”“ ”“ ہمارے ایک، عزیز دوست نے ایک فیس بک پوسٹ پر، جس میں انسانیت کی خدمت کے سلسلے میں سرسری طور پر تھامس ایڈیسن کی بلب کی ایجاد، اور مولانا طاہر القادری صاحب کی تقریر اور تحاریر کا انسانیت کی خدمت کے تناظر میں موازنہ اور ذکر فرمایا تھا، اس پر ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ، شعبہ تعلیم سے وابستہ، عزیز دوست جو نظریاتی اور اعتقادی طور پر ”دائیں بازو“ کی طرف گہرا رجحان اور جھکاؤ رکھتے ہیں انہوں نے اس پوسٹ میں ایڈیسن اور محترم طاہر القادری کے موازنے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے ہمارے ”اہل مدرسہ“ کے عمومی طنزیہ انداز میں، دلیل کے طور پر متضاد اشیاء کی ایک طویل فہرست تحریر فرما دی، کہ ان اشیاء کا آپس میں موازنہ کیسے ممکن ہے، ہماری نظر میں اپنے اختصار کے باوجود، ہمارے معاشرے کے تناظر اور صورتحال کو واضح کرنے کے لیے، اور یہاں متوازی طور پر موجود دو مختلف انداز فکر کی نمائندگی، اور نشاندہی کے لیے اس مختصر مکالمہ کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے۔

جملہ معترضہ کے طور پر یہ عرض کرنا اور واضح کرنا بھی ہماری نظر میں انتہائی ضروری ہے، کہ ہمارے ہاں ان دونوں انداز ہائے فکر کے درمیان کتنا غیر فطری اور خطرناک فاصلہ قائم ہو چکا ہے، اور یہ دوری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ نارمل روئیے اور انداز گفتگو کے ذریعے فریقین ایک دوسرے تک اپنا موقف مہذب انداز میں پیش کرنے کے قابل تک نہیں رہے، اور اب انھیں اس مکالمے کو بلکہ اس کے پیغام کو دلیل کے بجائے طنز، دشنام، الزام یا مشدد رویے یا انداز کے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچانا پڑ رہا ہے۔

یہاں ہمارے معاشرے کی وسیع تر، بلا تخصیص روایتی عقیدت، اور مختلف قسم کے دیرینہ ضمنی تعصبات، ان میں سے ایک مکتبہ فکر کو افرادی اور عملی برتری دلا کر فریق مخالف کے خلاف متذکرہ بالا اقدامات کی مکمل آزادی، اور ارتکاب کے بعد بھی بالائے قانون آزادی، اور کسی بھی اس نام پر عمل میں لائے گئے شدید ترین مجرمانہ یا متشدد اقدام کے احتساب سے مکمل تحفظ کی سہولت فراہم کرتے ہیں، جس کے ثبوت میں ہمیں مشال خان اور دیگر بہت سے بے گناہ مقتولین کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ معاشرے کے ضمیر میں اس غیر متوازن سوچ اور رویے کی بالا دستی ہمیں نہ صرف ناخواندہ اور نیم خواندہ عوام میں دکھائی دیتی ہے بلکہ اس ذہنی اور نظریاتی شدت پسندی کا شکار ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، جید سرکردہ اور انتہائی با اثر علماء، اساتذہ، اور اعلی تعلیمی اداروں کے پروفیسرز، مدارس کے اساتذہ تک نظر آتے ہیں، ہمیں انتہائی افسوسناک حیرت ہوتی ہے جب ہم کسی ملاقات یا محفل میں، جدید علوم سے بہترین طور پر بہرہ مند، سند یا اعلیٰ ڈگری یافتہ اساتذہ کو جو نوجوان نسل تک تحصیل علم اور ذہن سازی کے پیمبرانہ پیشے سے وابستہ ہیں، ان کو بھی ویسے ہی اعتقادات اور تعصبات کا نہ صرف حامل پاتے ہیں بلکہ یہ حضرات ان اعتقادات و تعصبات کی حمایت اور پرچار ہمیں اعتقادی دلائل اور روحانی تیقن اور شدت کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں، یہ سنجیدگی کے ساتھ آپ کے یا کسی کے ساتھ جنوں بھوتوں کی موجودگی کی وکالت فرمائیں گے، بلکہ شاید اس ضمن میں کچھ ذاتی ”تجربات“ کا بھی ذکر فرما دیں، خطرناک بات یہ ہے کہ بصیرت اور فہم کا یہی معیار آپ کو عام ناخواندہ اور نیم خواندہ عوام کی اکثریت میں بھی یکساں طور پر دکھائی دے گا، یہ جنوں بھوتوں کی مثال تو راقم نے ”حفظ ماتقدم“ کے طور پر ہی دی ہے ورنہ ان موضوعات، اعتقادات و تعصبات کا پھیلاؤ تو مابعد الطبیعات، دنیا و مافیاء اور دیگر متعدد ایسے ہی ”روحانی“ موضوعات تک وسیع ہو چکا ہے۔

دراصل پس منظر میں سوال اور اس کا مفہوم شاید کچھ اور تھا، کیونکہ اس علامتی موازنے اور سوال سے مراد یہ تھی کہ دنیا میں انسانوں کی عملی، قابل بصارت مدد میں روحانیت اور سائنس میں سے کس کا زیادہ کردار ہے۔ باقی مثالیں ہیں، مذہب یا روحانیت کے پاس کوئی بجلی گھر، ڈسٹری بیوشن لائن یا سوئچ بورڈ نہیں، اسی طرح کوئی ہسپتال، ادویات کی لیبارٹری اور کارخانہ نہیں بلکہ دینی شخصیات بھی اپنے دنیاوی معاملات و مسائل کے حل کے سلسلے میں انھیں ہسپتالوں پر جاتے ہیں، ان ہی ادویہ سے علاج و آپریشن کرواتے ہیں، کسی کام یا مطالعہ کے لیے اپنے اندر کی کوئی روحانی روشنی استعمال کرنے کے بجائے، اپنے کاموں اور مطالعہ دین تک کے لیے کے وہی مصنوعی لائٹ ان ہی ذرائع سے جیسے کوئی ہم جیسا عامی و عاصی کرتا ہے، حاصل و استعمال کرتے ہیں۔

دوسری طرف روحانیت کا اخلاقیات کی حد تک دعویٰ ماضی قریب تک ان کے مطابق موجود تھا، لیکن افسوس گہرائی سے پرکھنے پر یہ دعویٰ اور اس پر اجارے کا دعویٰ بھی درست ثابت نہیں ہوا۔ اب باقی پیچھے کیا رہ گیا، اپنے اس وجود کے علاوہ، جو نظریات کے قطع نظر، ساخت، انونٹری اور اعضاء میں کسی بھی دوسرے انسان، مذہبی، ملحد یا دہریے جیسا ہی ہے، یعنی کہ سادہ الفاظ میں کہ مجموعی طور پر صلاحیت ساخت اور وضع انسانوں کی کم و بیش یکساں ہی ہے۔

اب فرق کدھر ہے، اور کون سے روحانی دعوے کی ہم دنیا میں ”ایمان اور اعتقاد“ کے بغیر عملی طور پر تصدیق کے قابل ہیں؟ ایک کہتا ہے کہ مرنے کے بعد بہت بڑا نظام ہو گا، اعمال کی آزمائش اور جزا و سزا ہو گی، دوسرا کہتا ہے کچھ نہیں ہو گا، ایک جو مانتا ہے، وہ اپنی مذہبی کتاب اور ایمان و اعتقاد سے تاویل کی کوشش کرتا ہے، دوسرا جو منکر ہے وہ معدوم شدہ اقسام جن کا وجود دوران ارتقاء معدوم ہو گیا یا تبدیل ہو رہا ہے، اور حیات کی یکسانیت کی عملی مثال دکھاتا ہے، وہ ایک یا بہت سے ایسے دیگر جاندار دکھاتا ہے، جن کے جسم کا نظام ہم جیسا ہی ہے، اور اب جدید تحقیق کے ذریعے ان میں ویسے ہی ذرا سادہ اور غیر ترقی یافتہ جذبات بھی ثابت ہو چکے ہیں گویا ہماری روح تو اعلی ہے، کیوں کہ ہم تخیل کی طاقت رکھتے ہیں، اور ہم جیسے ہی یہ جاندار اس صلاحیت کے متبادل اپنی ضرورت کی صلاحیتیں رکھتے ہیں مثلاً کتے کی سونگھنے کی صلاحیت انسان سے دو لاکھ گنا زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ اس کو اپنے لیے شکار کرنے یا شکار ہو جانے سے بچنے کے لیے اس صلاحیت کی ضرورت ہے، تو ہم نے تصور کر لیا ہے کہ اعلی اور بالا روح تو صرف انسان کی ہی ہے باقی دیگر سب جانداروں کی ارواح معدوم کر دی جائیں گی۔

گویا معمولی دنیا جہاں ایک مکھی تک ہمیں تنگ کرتی ہے، کبھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتی، بلکہ ہمیں تنگ کر کے ”ہمارے بادشاہت اور برتری وحاکمیت میں“ شراکت داری ”کر لیتی ہے وہ بھی ہماری مرضی کے بغیر یعنی“ اشرف المخلوقات ”کی مرضی کے خلاف، تو پھر ہمارے ایمان کے مطابق مرنے کے بعد اس دنیا سے بہت زیادہ شاندار اور زیادہ بڑا جہاں یا دنیا ہو گی، جو تنگ کرنے والی مکھیوں اور دیگر جانداروں سے پاک ہو گی، وہاں پرندوں کا کام صرف بھنی ہوئی شکل میں جنتیوں کے کام و دھن کی تسکین ہو گا، لیکن یہ باتیں ایمان کے طور پر تو ٹھیک ہیں لیکن زندگی میں عملی طور پر ناقابل ثبوت و ناقابل تصدیق ہیں۔

لہذا واقعی چارپائی پتھر سے بہتر ہے۔ تھامس ایڈیسن کا ہر بلب اپنی ٹیکنالوجی کے مطابق اپنا کام یعنی روشنی وعدہ شدہ اور درج شدہ مقدار میں ہر کسی کو یکساں طور پر دیتا ہے جبکہ محترمی و مکرمی طاہر القادری، رسول اللہ کو مہمان بنانے اور رسول اللہ کا ان سے واپسی کا کرایہ مانگنے اورمہمان نوازی کا مطالبہ کرنے کا ذکر جب سر منبر پورے تیقن اور دبنگ لہجے میں کرتے ہیں تو ہم جیسے گناہ گاروں کو بھی یقین آ جاتا ہے، کہ واقعی ٹی وی سڑک سے اور ہانڈی تبر سے بہتر ہوتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments