روداد سفر حصہ 30


ایوو کی ہانگو ہوٹل مسجد کے امام ابوبکر بہت پیاری شخصیت تھی۔ بہت ہنس مکھ اور ملنسار۔ بہت پیاری قرات کرتے تھے۔ ان کا تعلق چائنا کے سن ڈونگ صوبے سے ہے اور ان کی سالی خدیجہ جن کا شوہر الجزائر کے تھے وہ میری بیوی کی سہیلی۔ ابوبکر بعد میں مرکزی مسجد میں نائب امام متعین ہو گئے۔ ایک دن رمضان کے مہینے میں اپنی بیوی ماریا اور بیٹی حنا کے ساتھ جمعہ پڑھنے گئے تو جمعہ کی نماز کے بعد ماریا نے مجھے کہا کہ افطاری یہیں کریں گے۔

اس کی سہیلیاں وہیں موجود تھی اور ان کے بچے بھی جن کے ساتھ میری بیٹی حنا کھیل رہی تھی۔ مجھے بھی کوئی خاص کام نہیں تھا اس لیے میں بھی مردوں والے حصہ میں بیٹھ گیا۔ امام ابوبکر بھی ایک سائیڈ پر بیٹھے تھے تو میں ان کے پاس گپ شپ لگانے بیٹھ گیا۔ کچھ عرصے پہلے ہی مسجد میں امامت کے معاملے میں جھگڑا ہوا تھا تو موضوع وہ چھیڑ دیا کہ اصل معاملہ کیا۔ خیر انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ یہ فرقے تمہارے پاکستان میں بھی ہیں۔

میں نے کہا ہاں ہر جگہ ہیں لیکن مجھے چائنا میں ایک عجیب بات یہ محسوس ہوئی کہ یہاں کے مسلمانوں کے فرقے اور کچھ غیر مسلم چائنیز بھی آپس میں کچھ کھچے کھچے رہتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ایسے لگتا ہے شاید کوئی پرانی دشمنیاں ہیں جو ایسا کھچاؤ اور بد اعتمادی کی فضا پیدا کرتی ہے۔ اور دوسری بات آپ چائنیز کا رویہ بھی وہ نہیں ہے جو میں تائیوان میں دیکھ چکا ہوں۔ میں نے کہا مجھے یہ تو معلوم ہے کہ کسی دور میں کچھ علاقوں میں مسلمانوں نے بغاوت کی تھی لیکن وہ کیا تھی پھر مسلمان چائنا میں کہاں سے آئے اور یہ ان میں فرقے کہاں سے آئے۔

مجھے اس کی کوئی تفصیل بتائیے کیونکہ میری بیوی خاص کر ان مسلمان لڑکیوں کے بارے میں اچھے خیالات نہی رکھتی جو اس کے صوبے سے ہوں۔ اور ایک دفعہ میں ان کے گاؤں میں مسلمانوں کی گوشت کی دکان پر گیا تو اس دکان والے کا لہجہ اور گفتگو کا انداز میرے ساتھ بہت اچھا تھا لیکن میری بیوی کے ساتھ اس کا انداز بالکل ہی مختلف جیسے مجبوراً اسے اپنی دکان پر برداشت کر رہا ہو۔ اور دوسری بار جب میں اس کی دکان پر اکیلا گیا تو اس نے مجھ سے خاص کر یہ بات کی کہ تم نے ہان چائنیز سے کیسے شادی کر لی۔ میں نے اسے بتایا کہ میری بیوی نے اسلام قبول کیا ہے لیکن اس نے کہا لیکن ہے تو وہ ہان چائنیز ہی ناں۔ مجھے اس کی یہ بات بہت عجیب سی لگی، کہ اسلام کیا کسی نسل کا مذہب ہے؟ یا کسی مخصوص نسل کی ملکیت ہے کہ دوسرے اسے اپنا نہیں سکتے۔

( میں ان کی گفتگو کا کچھ خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ تفصیل اتنی زیادہ ہے کہ بہت کچھ مکس ہو جائے گا بہرحال جو کچھ میری یاداشت میں ہے جو کچھ میں نے بعد میں اس کے متعلق پڑھا ہے بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس سے چائنا کے مسلمان کے متعلق ایک خاکہ سامنے آ جائے گا )

ابوبکر امام نے ادر گرد کا جائزہ لیا پھر بتانا شروع کیا۔

ہم ہوئی مسلمان کہلاتے ہیں۔ چائنا میں مسلمانوں کے اس کو گروہ کو نام دیا جاتا ہے جو تیرہویں صدی میں وسطی ایشیاء اور مشرقی ایشیاء سے ہجرت کر کے آئے۔ کچھ لوگ انہیں ڈنگن یا تنگن کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ ویسے تو تقریبآ یہ چائنا کے سبھی علاقوں میں آباد ہیں لیکن ان کی زیادہ تعداد کانسو، چھن ہائی، نگشاء، سان شی، سنکیانگ کے صوبوں میں آباد ہے۔

ان چینی مسلمانوں نے کئی سال تک مغربی ایشیا کا سفر کیا تھا۔ 18 ویں صدی میں گانسو صوبے سے تعلق رکھنے والے کئی ممتاز مسلم علماء نے مکہ اور یمن میں نقشبندی صوفی اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ ان مکہ اور یمن سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے دو مسلم علماء واپسی پر تصوف کی دو مختلف شکلیں اپنے ساتھ لے کر آئے۔ یہ دو علماء جنہیں شیخ کہا جاتا ہے میں سے ایک ذکر خفی تحریک کے شیخ ما لائچی اور دوسرے شیخ ما منگسین جنہوں نے بنیاد پرست فکر ذکر جہریہ کی بنیاد رکھی تھی۔ ان دونوں شخصیات کے ساتھ طلسماتی تصورات وابستہ ہیں۔ یہ دونوں فرقے خفی اور جہریہ، زیادہ روایتی غیر صوفی سنی فرقہ، ( روایت ) جسے قدیمی کا نام سے جانا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ موجود تھے اور مقامی مساجد کے اردگرد ہی مرکوز تھے۔

1368 سے 1644 تک چائنا میں منگ خاندان حکومت تھی جس کے مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ اور مسلمان کئی حکومتی عہدوں پر موجود تھے۔

1644 میں چھن خاندان نے منگ حکومت پر حملہ کر کے ان سے حکومت چھین لی۔ 1646 میں گانسو صوبے میں مسلمان جو منگ حکومت کے وفادار تھے نے اس نئی چھن حکومت کے خلاف بغاوت کر دی، جس کی قیادت مسلم رہنماؤں ملاین اور ڈنگ گوڈونگ نے کی۔ اس بغاوت کا مقصد چھن بادشاہ کو باہر نکالنے اور منگ شہزادے کو یانچانگ ژو شیچوان کو شہنشاہ کے طور پر تخت نشین کرنا تھا۔ مسلم منگ کے وفاداروں کی حمایت ہامی کے سلطان سعید بابا اور ان کے بیٹے شہزادہ تورمتے نے کی۔

اس بغاوت میں تبتی اور ہان چینیوں نے بھی ساتھ دیا۔ شدید لڑائی، اور مذاکرات کے بعد ، 1649 میں ایک امن معاہدے پر اتفاق ہوا، اور مسلم رہنما میلان اور ڈنگ نے برائے نام طور پر بادشاہ سے وفاداری کا عہد کیا اور انہیں چھن بادشاہ کی فوج میں عہدے دیے گئے۔ یہ پہلی بغاوت کہلاتی ہے۔ جو مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے جاری رہی۔

اس بغاوت میں ہر علاقے کے حالات مختلف تھے اور اسے چھن حکومت نے علیحدہ علیحدہ ہینڈل کیا۔

جب جنوبی چین میں منگ بادشاہت کے دیگر وفاداروں نے دوبارہ سر اٹھایا لیا چھن بادشاہ کو ان سے لڑنے کے لیے گانسو صوبے سے اپنی فوجیں ہٹانے پر مجبور کیا گیا تو مسلم رہمنا ملایان اور ڈنگ نے ایک بار پھر ہتھیار اٹھا لیے اور بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دی یہ دوسری بغاوت تھی۔ اس کے بعد مسلمان منگ بادشاہت کے وفاداروں کی اس بغاوت کو چھن بادشاہ کی فوج نے کچل دیا، ایک لاکھ افراد جن میں ملاین، ڈنگ گوڈونگ، اور تورمتے مسلم رہنما شامل تھے جنگ میں مارے گئے۔ اگر اس کے بعد مسلم ہجرت نہ کرتے تو بالکل مٹا دیے جاتے۔ اس بغاوت نے مسلم اور ہان چائنیز کے درمیان مذہبی کی بجائے نسلی نتازعات کو جنم دیا۔

بغاوت سے پہلے کم از کم 4 ملین ہوئی شانشی صوبے میں آباد تھے، تنازعہ کے بعد صرف 20,000 صوبے میں باقی رہ گئے جبکہ باقی تمام ہوئی مسلمان حکومتی اور ملیشیا فورسز کے قتل عام اور انتقامی کارروائیوں میں مارے گئے یا صوبے سے باہر بھیج دیے گئے۔ شانشی صوبے سے میں 700,000 سے 800,000 ہوئی مسلمانوں کو گانسو صوبے کی طرف جلاوطن کیا گیا تھا۔ اس سفر کے دوران ملیشیا نے اکثریت کو قتل کر دیا، صرف چند ہزار زندہ رہے۔ ان میں بہت سے لوگ گانسو کے سفر میں پیاس اور بھوک سے مر گئے۔ اس جنگ کے بعد ہان چائنیز کی بڑی تعداد کو اندرونی منگولیا میں بھی آباد کیا گیا۔

اس کے بعد 1796۔ 1735 چھن لونگ بادشاہ کے دور میں جھن حکام اور جہریہ فرقے کے درمیان چھڑپیں ہوئی تھیں لیکن اکثریت غیر صوفی سنی یا خفیہ صوفی فرقے جنہیں قدیمہ کہتے ہیں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

1781 اور 1783 میں ذکر خفی اور ذکر جہریہ فرقے کے پیروکاروں کے درمیان اختلافات کے ساتھ ساتھ چھن حکام کی بدانتظامی، بدعنوانی اور صوفی مخالف رویوں کے نتیجے میں بغاوت ہوئی۔

اس بغاوت کی ابتداء ذکر جہری صوفی مسلمانوں اور ذکر خفی صوفی مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد سے ہوئی۔ دونوں کے درمیان لڑائی کو روکنے کے لیے چھن حکومت نے مداخلت کی۔ جہری اور خفی صوفی مسلمانوں کے درمیان سڑکوں پر ہونے والی اس لڑائی اور مقدمات کی وجہ سے، صوفیاء کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے جہریہ کے لیڈر ما منگسین کو گرفتار کر لیا گیا۔ جہریہ نے پھر پرتشدد طریقے سے ما منگکسین کو جیل توڑ کر نکالنے کوشش کی جس کی وجہ سے اسے پھانسی دی گئی اور حکومت نے جہریہ فرقے کے مسلمان باغیوں کو خفیہ فرقے کے مسلمانوں کی مدد سے کچل دیا۔ چھن حکومت نے جہریہ فرقے کے باغیوں کو گوئزو صوبے، کچھ کو یونان اور کچھ کو سنکیانگ جلا وطن کر دیا۔

1862 اور 1877 کے عرصے میں جہریہ فرقے ( جدیدہ ) کے ہوئی مسلمان اور سالار نسل کے مسلمانوں پیروکاروں کی بغاوتیں ہوئیں، لیکن ان کو فوری طور پر دبا دیا گیا۔ صوفیاء کے مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کی وجہ اس مسلمان بغاوت سے پہلے علاقے میں پرتشدد ماحول موجود تھا۔ اس بغاوت کی وجہ ذکر خفیہ مکتبہ اور غیر صوفی گیڈیمو (قدیم ) دونوں فرقوں کو چھن حکام نے برداشت کیا۔ انہیں ”پرانی تعلیم“ (قدیمہ ) کہا جاتا تھا۔ جب کہ ذکر جہریہ فرقہ جسے نئی تعلیم کا نام دیا جاتا ہے ( جدید ) کو حکام مشتبہ کے طور پر دیکھتے تھے۔

مسلم جہریہ فرقے کے رہنما ما ہوالونگ نے بہت سے تاجروں کے ساتھ مل کر ایک بڑے مسلم تجارتی نیٹ ورک کو کنٹرول کیا ہوا تھا، اس کے پاس مختلف علاقوں میں متعدد شہروں کے تجارتی راستوں پر کنٹرول تھا۔ اس نے علاقے میں تجارت پر اجارہ داری قائم کی اور اپنی دولت کو اسلحہ خریدنے کے لیے استعمال کیا۔ چھن حکام کو ما ہوا لونگ کے ارادوں پر شک ہو گیا، حکام کو شک تھا کہ وہ پورے منگولیا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

( ذکر جہری فرقے کے متعلق ایسے خدشات کہ وہ متوقع خطرہ ہیں یا ان کے عقائد و نظریات حکومت وقت کے لیے خطرناک ہیں اس بات کا مجھے پتہ بعد میں ہمارے ٹیکسلا شہر میں موجود ذکر جہری کی خانقاہ سے فوجی بغاوت کے پکڑے جانے سے ہوا۔ پھر پڑوس میں موجود تالیبان ( سوڈنٹس ) کی حکومت بھی جہری فرقے ہی سے تعلق رکھتی ہے اور یہ دونوں جگہیں ہی تبلیغی جماعت سے گہرا تعلق رکھتی ہیں )

چھن حکومت نے عام طور پر جدیدہ فرقے کے باغیوں کا قتل عام کیا، چاہے وہ ہتھیار ڈال دیں، لیکن پرانے قدیمہ یعنی ذکر خفی اور باقی غیر صوفی سنی جنہیں قدیمی کہا جاتا ہے کے باغیوں کو بچایا۔ ما ہوالونگ کا تعلق جدیدہ مکتبہ فکر سے تھا، اسے جنوری 1871 میں اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے 80 سے زیادہ ساتھیوں کو موت کی سزا سنائی۔ اس کے علاقے کے ہزاروں مسلمانوں کو چین کے دوسرے حصوں میں جلاوطن کر دیا گیا۔

1895۔ 1896 میں پھر اسی مقام دوبارہ انہی وجوہات فرقہ وارانہ تشدد اور دوسرے صوفی فرقے کے خلاف مقدمات کی وجہ سے بغاوت پھوٹ پڑی۔ جسے حکومت نے حل کرنی کی کوشش کی۔ بہت سے سرغنہ باغیوں کو چھن حکومت دور کے مقامات پر مختلف فوجی یونٹوں میں بطور غلام بھیج دیتی تھی۔ مثلا اس بغاوت کے سرغنہ ما جن لو کو گوانزو صوبے میں موجود فوجی یونٹ میں بطور غلام یا خدمت گار بھیج دیا گیا۔

باتوں باتوں میں عصر کی اذان کا وقت ہو رہا تھا اس لیے امام ابوبکر وضو کرنے چلے گئے اور میں سوچنے لگ گیا کہ کیا ”ذکر“ وہی ذکر ہے جسے قرآن ذکر کہتا ہے۔ یا یہ آپس کی لڑائیاں صرف اس وجہ سے تھیں کہ ہر فرقہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ ہمارے فرقے کا خدا ہے ہم ہی اس کا ذکر کر سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ ابھی تو ہم مسلمان فرقے ہی آپس میں خدا کی ملکیت کا فیصلہ نہیں کر سکے دوسرے غیر مسلموں کے سامنے اس خدا کا تعارف کیا پیش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments