آذربائیجان۔ پرستان


کچھ دن پہلے میرا آذربائیجان جانے کا پروگرام بنا۔ روانگی سے قبل میں نے اپنے کچھ احباب سے اس بارے میں مشورہ کرنا بہتر سمجھا۔ اس دوران میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ آذربائیجان جانے کے پروگرام کے بارے میں میں نے جس بھی صاحب نظر شخص کو بتایا اس کے چہرے پہ پہلے تو عجیب شرارتی سی مسکراہٹ آئی اور پھر اس نے یہ ضرور پوچھا کہ، ”جناب خیر تو ہے! آپ جیسے بھلے آدمی کا وہاں کیا کام“ ؟ ان میں سے کسی نے اگر یہ واہیات سا استفسار نہیں بھی کیا تو کم از کم اس کے چہرے پہ اک ذو معنی مسکراہٹ ضرور آئی۔

مجھے کئی دیگر ممالک کے سفروں کا موقع ملا ہے جن میں ترکی، مصر اور ازبکستان وغیرہ بھی شامل ہیں لیکن ان سفروں کے متعلق دوستوں کی طرف سے کبھی اس طرح کی رائے کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ میرے دوست احباب میں خیر سے دو طرح کے لوگ شامل ہیں! ایک فضول قسم کے۔ اور دوسرے نہایت ہی فضول قسم کے لوگ۔ کسی بھی موضوع پر ان احباب کی آراء کے بیچ ہمیشہ بعد مشرقین دیکھنے میں آتا ہے لیکن حیرت کی بات تھی کہ یہ سب احباب آذربائیجان جانے کے مقصد کے بارے میں مکمل طور پر ’ایک پیج‘ پر نظر آئے۔

میں نے ان میں سے ایک دو کو بتایا بھی کہ بھئی! میرے سفر کا بنیادی مقصد وہاں کی تاریخ و ثقافت کا مطالعہ اور تہذیب و روایت کا مشاہدہ کرنا ہے مگر میری اس گزارش کے جواب میں عموماً مجھے ایک قہقہہ سننے کو ملتا اور یہی تاثر دیا جاتا کہ اکثر لوگ بظاہر یہی کہتے ہیں۔ خیر! اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ اتنے تیقن سے آذربائیجان یاترا کے صرف ایک مقصد پہ زور کیوں دے رہے ہیں۔ اور مجھے ان کی بات پہ کبھی بھی یقین نہ آتا اگر میں خود جا کے وہاں کے حالات نہ دیکھ لیتا۔

کسی بیرون ملک جاتے ہوئے آپ کا سفر کیسا ہو گا اور سفری اخراجات وغیرہ کتنے ہوں گے اس کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ پہلی یہ کہ آپ کا ٹریول ایجنٹ کتنا مخلص اور سمجھدار ہے اور دوسری یہ کہ آپ میں اچھی پلاننگ اور بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کس قدر موجود ہے۔ جہاں تک ٹریول ایجنٹ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے یقیناً وطن عزیز میں مخلص اور سمجھدار لوگ بھی موجود ہوں گے لیکن بوجوہ ہماری ملاقات ان سے نہیں کبھی ہو سکی۔ ہم نے آٹھ دس ممالک کا سفر کیا ہے اور ہمیشہ ایک سے بڑھ کر ایک لیجنڈری قسم کے فضول ٹریول ایجنٹ سے پالا پڑا۔

ہمارے ایجنٹ نے ہمیں ہمیشہ سوئٹزرلینڈ کی سہولتوں کا وعدہ کیا ہے جبکہ اصل میں جو سہولتیں ( اگر انہیں سہولتیں کہا جا سکے تو ) مہیا کی گئیں وہ یوگنڈا اور ایتھوپیا لیول کی تھیں۔ دوسری طرف جہاں تک اچھی پلاننگ، اچھے اور بروقت فیصلوں کی صلاحیتوں کی بات ہے تو اس ضمن میں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے اندر یہ صلاحیتیں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں! یقیناً ہوں گی۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کم از کم سفری معاملات میں اپنی ذات گرامی سے ان صلاحیتوں کا اظہار ہوتا کم از کم ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔

چنانچہ اس حوالے سے کلاسیکل دھوکے کھانے کا ریکارڈ اگر کسی کے پاس ہے تو وہ خیر سے یہی خاکسار ہے۔ اس بار ہمارے سفر کے لیے ہمارے ٹریول ایجنٹ صاحب نے جس ائر لائن کا انتخاب کیا وہ بلاشبہ ”عالم میں انتخاب“ تھی اور ائر لائنز میں اپنی نوعیت کی واحد چیز! اس اعزاز کی وجہ بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ ہمارے مختصر سے شیڈول کے باوجود ہماری فلائیٹ تین دفعہ کینسل ہوئی۔ جن میں سے ایک دفعہ تو بورڈنگ وغیرہ کے بعد جہاز میں بیٹھے ہوئے ہم تمام مسافروں کو نکالا گیا اور وہ بھی ایسے اکرام کے ساتھ کہ ہمیں ”خلد سے آدم کا نکلنا“ یاد آ گیا۔

جہاز میں دیا گیا کھانا سب سے الگ چیز تھا۔ باریک گتے کے کھردرے سے ڈبوں میں ’چٹے چاول‘ اور اس کے اوپر سبزی نما کوئی چیز! یہ لنچ تھا۔ ہلکی بھوک کے باعث اور ذرا ٹیسٹ کرنے کی غرض سے ہم نے چاولوں کے دو تین چمچ منہ میں ڈالے تو وہ جیسے حلق میں پھنس کے رہ گئے۔ کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کہ کہ ایک ہوائی میزبان خاتون، جس کا حسن کے کسی بھی معیار سے کوئی دور پار کا بھی تعلق نہ تھا، فروٹ جوسز کی ٹرالی دھکیلتے ہوئے ہمارے قریب سے گزری۔

ہمیں خشک چاولوں کے بعد جوس کی دستیابی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ہم نے اشارے سے اسے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ کون کون سے جوس مینیو میں ہیں۔ اس نے تین چار جوسز کا بتایا۔ ہم نے بوجوہ سیب کے جوس کا انتخاب کیا کہ حکماء سے سنا ہے یہ مقوی قلب اور مفرح ہوتا ہے۔ وہ اک انداز دلبری سے واپس پلٹی تو اس کے ہاتھ میں جوس کا گلاس تھا۔ ہم نے شکریے کے ساتھ گلاس لیا۔ ایک سپ لیا۔ مزا آ گیا۔ ٹھنڈا اور کمال فرحت بخش۔ لیکن ابھی ہم نے دو تین گھونٹ ہی لیے ہوں گے اور مذکورہ ائر لائن کے بارے میں فاسد خیالات ہمارے ذہن سے چھٹنے ہی والے کہ وہ قتالہ دوبارہ ہمارے قریب آئی اور کان کے پاس سرگوشی کے سے انداز میں بولی، ”؟ Excuse me، You will pay in dollor or dirham“ ہمارے ہاتھ سے گلاس گرتے گرتے بچا۔ ہمارے استفسار پر اس ظالم نے بتایا کہ یہ جوس پیکج میں نہیں ہے یہ جناب نے خریدا ہے۔ یک دم جوس کا ذائقہ کڑوا کسیلا اور بد مزا سا لگنے لگا۔ مجھے لگا میں کسی جہاز میں نہیں بلکہ کسی تھکڑ سے چائے پانی کے کھوکھے پہ بیٹھا ہوں۔

میں باکو پہنچا، تھوڑی دیر ہوٹل سے فریش ہو کر کھانا کھانے کی غرض سے باکو کی معروف ”گلی“ نظامی سٹریٹ کا چکر لگایا تو مجھ پر کھلا کہ احباب کی آذربائیجان کے بارے میں رائے اتنی غلط بھی نہیں تھی۔ یعنی ایسا انسانی حسن یہاں دیکھنے کو مل رہا تھا جو بلا شبہ اپنی مثال آپ تھا۔ کئی دیگر ممالک کی آوارہ گردی کے باوجود حسن کے ایسے جادؤئی نظارے کہیں اور دیکھنے کو نہیں مل سکے۔ باکو کے بارے میں احباب کی پیش کردہ تصویر مجھے اب درست معلوم ہو رہی تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ دنیا جہاں میں اعلیٰ ترین حسن کے لیے کوئی مروجہ پیمانہ ہو سکتا ہے تو اس پیمانے کے لیے اصلی امیدوار آپ کو یہاں سے مل سکتے ہیں۔ بلکہ کسی غیر کے مقرر شدہ کسی پیمانے کی کیا بات کریں یہاں ان لوگوں نے خود اپنے پیمانے وضع کیے ہوئے ہیں۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں یقیناً تاریخ، تہذیب اور ثقافت وغیرہ کی تلاش میں یہاں آیا تھا لیکن باکو کی چند گھنٹے کی سیر کے بعد مجھے لگا کہ میرے زاویہ نظر میں لاشعوری طور پر ہلکی سی تبدیلی آ رہی ہے۔ کچھ دیر بعد میں ’نظامی سٹریٹ‘ کی ایک سائیڈ پہ پڑے آہنی بنچ پہ بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ یہاں کی تاریخ و تہذیب کا مطالعہ بھی یقیناً اہم ہے۔ لیکن!

” حسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments