آئی ایم ایف معاہدے کے معیشت پر اثرات


پاکستان کے موجودہ بدترین معاشی حالات کے پیش نظر دنیا کے معاشی تجزیہ کاروں کی انٹرنیشنل میڈیا میں پیش گوئیاں گردش کرنا شروع ہو گئیں تھیں کہ سری لنکا کے بعد خدانخواستہ پاکستان بھی دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، معاشی تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا نہیں کرپائے گا لیکن تجزیہ کاروں کی پیش گوئیاں اس وقت غلط ثابت ہو گئیں جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف سطح کا معاہدہ طے پا گیا۔

پاکستان نے خراب معاشی حالات میں بھی آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط کو پورا کیا جس کے بعد اب پاکستان کو ساتویں اور آٹھویں قسط کی مد میں ایک ارب سترہ کروڑ ڈالر ملیں گے۔ آئی ایم ایف بورڈ معاہدے کی حتمی منظوری دے گا جس کے بعد پاکستان کو قرض کی اگلی قسط جاری کردی جائے گی یہ بھی توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اگلی دو قسطیں ایک ساتھ جاری کردے گا۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کے بعد پاکستان کو ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی مختلف پروگرامز کی مد میں قرض ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے اس کے علاوہ چین، سعودی عرب سمیت دیگر دوست ممالک کی جانب سے بھی پاکستان کو رقوم ملنے کا سلسلہ جلد شروع ہو جائے گا اگرچہ پاکستان کی معیشت کی صحیح معنوں میں مستقل بحالی کے لئے کافی وقت درکار ہے لیکن فی الوقت ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لئے عارضی سہارے ملنا شروع ہو گئے ہیں ان مالی وسائل کو بہترین حکمت عملی کے ذریعے استعمال کر کے ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ایک آخری موقع پاکستان کو مل گیا ہے۔

ایک خوش آئند بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت میں ایک روپیہ کمی ہوئی جس کے بعد ڈالر اوپن مارکیٹ میں 210 روپے میں فروخت ہوا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے 14 جولائی کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق انٹر بنک میں ڈالر کی قیمت میں 30 پیسے کی کمی ہوئی جس کے بعد انٹر بنک میں ڈالر 209 روپے 80 پیسے پر بند ہوا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ایک ایسے وقت میں حکومت ملی جب ملکی معیشت مکمل طور پر ڈوب چکی تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، عالمی مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی ملکی سیاسی بحران اور دیگر اہم فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوچکے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بھی بڑھ چکا تھا ایسے سنگین حالات میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانا یقیناً موجودہ حکومت کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

معاشی ترقی، مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے کے لئے حکومت کے پاس مالی وسائل بالکل نہیں تھے اسی لئے جب آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب معاہدہ طے پا گیا تو وزیر اعظم شہباز شریف نے خصوصی طور پر وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی۔ موجودہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدے کا چیلنج تو پورا کر لیا ہے لیکن حکومت کے اصل چیلنجز تو ابھی شروع ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کو کس طرح اور کیسے استعمال کیا جائے گا؟

یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس کے لئے حکومت کو بہترین اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت کی تمام اتحادی جماعتوں کو بھی اپنے حلقوں کی ترقی کے لئے بڑے فنڈز درکار ہیں جبکہ مہنگائی میں کمی اور عوامی ریلیف دینے اور وفاقی و صوبائی سطح پر شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھی بہت بڑی رقم درکار ہوگی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے عوام نے توقع ظاہر کی ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی رقوم کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچاتے ہوئے مہنگائی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی کے لئے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments