سیاست اور عوامی مسائل: اپنی دنیا آپ پیدا کر


پنجاب اسمبلی کی بیس سیٹوں کے انتخاب کے لیے پاکستان میں سیاسی مہم زوروں پر ہے۔ جلسے، جلوس، ریلیاں اور کارنر میٹنگ اس طرح زور و شور سے جاری ہیں جیسے یہ صوبائی اسمبلی کی چند سیٹوں کے نہیں بلکہ قومی انتخابات ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں اور تحریک انصاف کے درمیان اس انتخابی معرکے کی شدت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ کے چار وزیر اپنی وزارت سے استعفٰی دے کر انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان اور مسلم لیگ کی سینئر نائب صدر مریم نواز چونکہ کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے لہذا وہ اس انتخابی مہم میں اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے قیادت کر رہے ہیں۔ اس پوری انتخابی مہم کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ سیاست نہیں جنگ معلوم ہوتی ہے۔ ایسی جنگ میں جس میں سب کچھ داؤ پر لگا ہو۔ حصول اقتدار کی ایسی جنگ، جس کا انجام دونوں فریقوں کی مرضی کے مطابق نہ ہوا تو پھر یہ جنگ کسی نہ کسی شکل میں جاری رے گی۔

چاہے ملک اور عوام کتنی ہی مشکلات سے دوچار کیوں نہ ہوں۔ اس رسہ کشی کی وجہ سے ملک اور عوام مزید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ یہ عوام کی نہیں اقتدار کی جنگ ہے۔ اقتدار کی اس جنگ میں کہیں حکومت کھو جانے کا غم و غصہ ہے اور اسے پھر سے پانے کی شدت سے تمنا کارفرما ہے اور دوسری جانب اقتدار سے چمٹے رہنے کی حتی الوسع تگ و دو ہے۔ ہاتھیوں کی اس جنگ میں عوام کا بھرکس نکل رہا ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات کی ژالہ باری میں مصروف ہیں اور کوئی اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

حالانکہ ملک کو اس نہج پر پہنچانے والے یہی لوگ ہیں۔ وہ اپنی اپنی حکومتوں، اپنی جماعتوں اور اپنے رہنماؤں کا ایسے دفاع کرتے ہیں جیسے وہ اغلاط سے پاک معصوم فرشتے ہیں اور مخالفین پر ایسے کیچڑ اچھالتے ہیں جیسے وہ شیطان سے کم نہیں ہیں۔ ان بیانات میں اس قدر غلو، دروغ گوئی، بہتان تراشی اور لغو زبان استعمال ہوتی ہے کہ شریف شخص کانوں پر ہاتھ لگا لے۔ خاص طور پر پچھلے چند برسوں میں ہمارے سیاسی کلچر میں ترجمان نام کی ایسی ایلیٹ فورس سامنے آئی ہے کہ ان کے بیانات سن کر بازار حسن کی عمر رسیدہ کسبی بھی شرما جائے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے گھٹیا الفاظ میں غلیظ بیانات دے کر گھر جا کر وہ اپنے بچوں اور بزرگوں کا سامنا کیسے کرتے ہوں گے۔ آخر کوئی نفرت سے بھی تو نفرت کرے۔

ہم نے نواب زادہ نصراللہ خان، قاضی حسین احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، پیر پگاڑا اور حنیف رامے جیسے سیاست دان بھی دیکھے ہیں جن کے بیانات پڑھ کر یوں لگتا تھا کہ کوئی ادبی شہ پارا ہو۔ جو سیاست کو عبادت اور لفظ کو امانت سمجھتے تھے۔ ان کی تحریر و تقریر کی زبان ایسی تھی جیسے لفظ نہ ہوں موتیوں کی مالا چنی ہو۔ وہ بھی اسی دیس کے باسی تھے۔ وہ بھی یہیں سیاست کرتے تھے۔ آخر کہاں گئیں ہماری سیاسی اور سماجی اقدار۔ کہاں گئی شرافت اور نجابت۔ کہاں گئی لفظ کی حرمت۔ کیا صرٖف حصول اقتدار ہی سیاست ہے۔ کہاں گیا عوام کا درد۔ کہاں گیا خدمت کا جذبہ۔ یہ کیسی سیاست کی آندھی چلی ہے جس میں مروت، شرافت، نجابت اور وضع داری سب کچھ ختم ہو گئی۔ میرا شعر ہے۔

چلی ایسی ہو، ا اڑ گئی سب رسم و راہ
جو بچی وہ نفرتوں کی نقیب ہے دوستو
کیا ہم آنے والی نسلوں کو یہی کلچر، یہی انداز سیاست اور یہی زبان ورثے میں دیں گے۔

اس پوری انتخابی مہم میں ملک کی معاشی تباہی، گرانی، بجلی، گیس اور صاف پانی کی نایابی سمیت اہم قومی مسائل زیر بحث نہیں ہیں۔ اگر کہیں ان کا ذکر ہوتا بھی ہو تو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی جماعت اس تباہی کی ذمہ داری قبول کرنے اور اس کا مداوا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ سارا ملبہ دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو رہے ہیں۔ میں سیاست دانوں کی الزام تراشیاں سنتا ہوں تو امید کرتا ہوں کہ اس کے بعد عوام کو ریلیف دینے، ملک کی معیشت بہتر بنانے اور اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بھی باری آئے گی۔

لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ تمام تقریریں اور بیانات مخالفت برائے مخالفت پر مبنی ہیں۔ ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ ملک کی حالت دن بدن دگر گوں ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا کشکول ملکوں ملکوں گردش کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف رفتہ رفتہ شرمناک شرطیں عائد کر رہی ہے۔ قومی غیرت کا جنازہ نکلا جا رہا ہے۔ ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ ملک میں انصاف ناپید ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جائیدادوں اور مال پر بد عنوان لوگ قبضہ کر لیتے ہیں جنھیں چھڑانے والا کوئی نہیں۔

ملک کی معیشت، روپے کی بے قدری، صحت، تعلیم کے مسائل، بجلی کی کمی پر توجہ دینے، مل بیٹھ کر ان مسائل کے حل کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ اقتدار کے بھوکے ہیں۔ انھیں ملک سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اکثریت کا کاروبار، پیسہ، جائیدادیں اور اہل خانہ ملک سے باہر ہیں۔ ان پر جب بھی اقتدار کے دروازے بند ہوئے تو سری لنکن صدر کی طرح ملک سے باہر بھاگ جائیں گے۔

سیاست دان جس طرح جلسے جلوسوں اور ریلیوں پر کروڑوں اربوں خرچ ہو رہے ہیں وہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ شہروں سے کچرا اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ کراچی سمیت کئی شہروں میں برساتی پانی گھٹنوں گھٹنوں کھڑا ہے۔ کراچی جو ستر اور اسی کی دہائی میں دنیا کے چند بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا آج دنیا بھر کے 140 شہروں میں 134 نمبر پر ہے۔ اس سے خراب حالت کابل، شام اور طرابلس جیسے شہروں کی ہے جو خانہ جنگی سے متاثر ہیں۔

کسی بھی حکومت کی اس سے زیادہ خراب کارکردگی کیا ہوگی۔ کراچی اور سندھ پر ایک جماعت کی چودہ برس سے حکومت چلی آ رہی ہے۔ وہ سندھ اور کراچی کو تباہی کے دہانے پر لا کر بھی پورے ملک سے الیکشن جیت کر بلاول کو وزیر اعظم بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر سیاست کا یہی چلن رہا تو یہ بعید بھی نہیں کہ ہماری بھولی بھالی عوام بلاول کو وزیر اعظم بنا ہی دے۔ آخر زرداری کو صدر بھی ہم ہی نے بنایا تھا۔ ملک کو اس حالت میں پہنچانے والے اور عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والے آج بھی عوام کو ڈگڈگی پر نچا رہے ہیں۔

کسی کو شبہ ہے تو جلسوں اور ریلیوں میں جا کر دیکھ لیں۔ ایسے لگتا ہے کہ عوام کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ ان کی زندگیوں کا بس یہی مقصد رہ گیا ہے کہ جلسوں میں نعرے لگائیں، ریلیاں نکالیں اور ان کرپٹ لیڈروں کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچائیں اور خود باہر کھڑے ہو کر بغلیں بجائیں۔ ایسی عوام کہیں نہیں دیکھی جو اپنا حق لینے کے بجائے حق غصب کرنے والوں کے آگے ناچتے گاتے دکھائی دیتے ہیں چاہے گھر میں اپنے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں۔

ایسی قوم کی حالت تو خدا بھی نہیں بدلتا جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ ہمارے قومی شاعر نے ہمیں غیرت، حمیت، خودداری کے ساتھ سرا ٹھا کر جینے کا سبق دیا ہے اور ہمارے قائد نے غیروں کے آگے سر نہ جھکانے کی تربیت دی ہے۔ یہ سبق حرز جاں بنا لیں تو ان دنیاوی خداؤں سے خود ہی جان چھوٹ جائے گی۔ اپنی دنیا آپ پید اکر اگر زندوں میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments