محنت اور جہد مسلسل


اس کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری مگر غربت اور تنگدستی اس کے حصول علم کی جستجو پر غالب نہ آ سکی۔ اسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق بلکہ جنون تھا۔ وہ رات کو اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک کہ دن کا لیا ہوا سبق یاد نہیں کر لیتا۔ اس دور میں چونکہ بجلی نہیں ہوتی تھی اس لئے اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا تھا اسی کی روشنی میں وہ رات کو بہت دیر تک اپنے سبق کو یاد کرنے کے علاوہ اضافی مطالعے میں مصروف رہتا تھا۔

ایک رات جب وہ پورے انہماک سے اپنے مطالعے میں مصروف تھا تو دیے کی روشنی مدھم ہونے لگی اور مدھم ہوتے ہوتے بج گئی دراصل دیے کا تیل ختم ہو گیا تھا۔ اب اس کے پاس تیل خریدنے کے لئے پیسے بھی نہیں تھے۔ طالب علمی کے دور میں وہ اتنا غریب تھا کہ روٹی ایک مسجد میں جاکر کھا لیتا تھا اور محلے کے ایک بچے کو پڑھانے سے اسے جو رقم ملتی تھی اس سے وہ اپنے لئے معمولی کپڑے اور تیل خرید لیتا تھا لیکن اس وقت اسے جو پیسے ملے تھے وہ انہیں خرچ کر چکا تھا اور اب آدھی رات کو دیے کا تیل ختم ہو گیا لیکن اسے مزید پڑھنا تھا۔

وہ اپنی چارپائی سے اترا اور اپنی کتاب اٹھا کر باہر آ کر بیٹھ گیا۔ باہر تاحد نگاہ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اتنے میں اسے دور سے روشنی کی ایک لکیر نظر آئی وہ اٹھا اور اس طرف چل دیا جب قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک چوکیدار کے ہاتھ میں لالٹین ہے۔ اس نے چوکیدار سے بڑے احترام کے ساتھ درخواست کی اور کہا جناب آپ اجازت دیں تو میں لالٹین کی روشنی میں اپنی کتاب پڑھ لوں۔ چوکیدار ایک نیک آدمی تھا لہذا اس نے ہامی بھر لی۔

لڑکا چوکیدار کے ساتھ بیٹھ کر لالٹین کی روشنی میں اپنی کتاب پڑھنے لگا لیکن چوکیدار کی مجبوری یہ تھی کہ وہ ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے تھوڑی دیر بعد لڑکے سے کہا بیٹا اب تم جا کر سو جاؤ میں آگے چلتا ہوں۔ لڑکے نے کہا جناب آپ ضرور آگے جائیے میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا اور اپنی کتاب پڑھتا جاؤں گا۔ چوکیدار لالٹین اٹھا کر آگے آگے چلنے لگا اور لڑکا اس کے پیچھے پیچھے۔ اس طرح مطالعہ کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آ رہی تھی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔

وہ صبح کے چار بجے تک اسی حالت میں مطالعہ کرتا رہا اور اس کے بعد چوکیدار کا شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔ دوسرے روز بھی یہی معاملہ رہا، تیسرے روز بھی لڑکا چوکیدار کا انتظار کرتا رہا جب وہ آیا تو اس نے لڑکے کی لگن اور شوق سے متاثر ہو کر اپنا لالٹین یہ کہہ کر اسے دے دیا کہ میں نے اپنے لئے دوسرا لالٹین خرید لیا ہے اور اب یہ تمہارا ہے۔ جب لڑکے نے یہ بات سنی تو اتنا خوش ہو گیا کہ جیسے اسے بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔

یہ اسی جہد مسلسل، لگن اور محنت کا نتیجہ تھا کہ بعد میں یہ طالب علم جس کے پاس کسی زمانے میں چراغ میں تیل ڈالنے کے لئے پیسے نہیں تھے عالم اسلام میں ایک مشہور شخصیت بن کر ابھرے اور تاریخ میں محمد بن ترخان ابو نصر فارابی کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے اپنی محنت، لگن اور جستجو سے فلسفہ، منطق، طب، موسیقی، ریاضی، سائنس، کیمیا، اور سیاسیات کے علوم میں نہ صرف نام پیدا کیا بلکہ ان علوم پر کئی کتابیں بھی لکھیں۔ ابو نصر فارابی 870 ء میں ترکستان کے علاقے فاراب میں پیدا ہوئے اور 950 ء میں 80 سال کی عمر میں دمشق میں وفات پائی۔

ابو نصر فارابی کو دیگر کئی علوم میں مہارت حاصل تھا لیکن فلسفہ سے انھیں خاص لگاؤ تھا۔ فلسفے کے میدان میں ان کی تحریریں بعد میں آنے والے بہت سے لوگوں کے لیے بنیادی سبق ثابت ہوئیں۔ اندلس کے مشہور یہودی فلسفی موسی بن میمون (میمونیڈیز) اپنے شاگردوں کو ابو نصر فارابی کے فلسفے پر تحقیق کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ وہ فارابی کے فلسفے پر کام کو ”نفیس پھول“ قرار دیتے تھے۔

مسلم دنیا میں منطق ارسطو کے ماہرین میں سے ایک ”ابن رشد اندلسی“ بھی فارابی سے بہت متاثر تھے۔ حتی کہ ابن سینا جیسے بلند پایہ کے فلسفی نے بھی ”الفارابی“ کے کام کی تعریف کی ہے۔

ابو نصر فارابی نے یونانی فلسفیوں خاص کر ارسطو کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ارسطو کی کئی کتابوں پر شرح بھی لکھی اس وجہ سے انھیں ”شارح ارسطو“ بھی کہا جاتا ہے۔ ارسطو کو متعدد علوم میں نمایاں خدمات سر انجام دینے پر ”معلم اول“ کہا جاتا ہے جبکہ ابو نصر فارابی کو ان کی علمی خدمات کی بنا پر ”معلم ثانی“ کہا جاتا ہے۔

فارابی نہ صرف فلسفہ بلکہ علم طب، موسیقی اور ریاضی کے بھی ماہر تھے۔ راجر بیکن جیسے ماہرین ریاضی نے علم ریاضی میں ان کی شاگردی کو تسلیم کیا ہے۔

موسیقی کے علم سے بھی فارابی کو بڑا شغف تھا۔ انھوں نے موسیقی پر ایک مشہور کتاب ”کتاب الاغانی“ تالیف کیا تھا۔ انھیں موسیقی کے کئی آلات جن میں ”رباب“ بھی شامل ہے کا موجد بھی مانا جاتا ہے۔

الفارابی نے چونکہ حصول علم کے سلسلے میں کئی علاقوں کی سیاحت بھی کی تھی اس لئے انھیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ابن خلکان نے اپنی کتاب ”وفیات الاعیان“ میں لکھا ہے کہ الفارابی نے سلطان سیف الدولہ کو بتایا تھا کہ وہ ستر ( 70 ) زبانوں اور بولیوں میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ ان کو ترکی، عربی، یونانی اور فارسی جیسے بڑی زبانوں پر مکمل مہارت حاصل تھا۔

الفارابی جیسے غریب طالب علم کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا کہ آج ان کی وفات کے 1072 سال بعد بھی ان کا نام اور کام زندہ ہے۔ پوری مسلم دنیا میں آج بھی فارابی کے نام سے کئی سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے قائم ہیں جیسے کہ قازقستان میں ان کے نام پر ”الفارابی انٹرنیشنل قازق یونیورسٹی“ بھی قائم ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مسلم ممالک کے کئی شہروں میں ان کے مجسمے بھی نصب ہیں جو ان کی مقبولیت کے واضح ثبوت ہیں۔

الفارابی کو یہ مقام ان کی مسلسل جدوجہد، لگن اور محنت کی وجہ سے حاصل ہوا اگر وہ بھی بچپن میں اپنے دور کے لاکھوں بچوں کی طرح غربت کی وجہ سے مایوس ہو کر محنت نہیں کرتے تو آج اس کی بھی داستان نہیں ہوتی داستانوں میں۔

اللہ تعالی قرآن پاک میں سورۃ الرعد کی آیت نمبر 10 میں ارشاد فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے آج تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلی ہے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہیں بدلتے۔

کوئی بھی قوم ہو یا فرد اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ خود ترقی اور بہتری کی طرف قدم نہیں بڑھاتا۔ قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالی بھی ان کا ساتھ دیتا ہے جن میں اپنی مدد آپ کا جذبہ موجود ہو۔ اللہ تعالی نے کامیابی اور ترقی کے حصول کے لئے محنت کو وسیلہ اور شرط مقرر کیا ہے۔ اگر ہر انسان درست سمت میں محنت کرے تو ہر انسان فطرتی طور پر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ ہر اس چیز کو حاصل کر لے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی محنت اور جہد مسلسل کی ترغیب دیتے ہوئے سورۃ النجم کی آیت نمبر 39 میں فرماتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ انسان جتنی کوشش کرے گا اتنا پائے گا۔

محنت کے بارے میں عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ”من جد وجد“ (جس نے جدوجہد سے کام لیا اس نے منزل پالی)

ابو نصر فارابی کی طرح دنیا میں ایسے لاتعداد انسان گزرے ہیں جنہوں نے محنت اور جہد مسلسل سے اپنی دنیا آپ پیدا کی، جنہوں نے محنت کے ہتھیار سے ناممکن کو ممکن بنایا اور جنہوں نے فقط محنت ہی کی وجہ سے اپنا نام رہتی دنیا تک محفوظ کر لیا۔

الفارابی کا چوکیدار کے پیچھے پیچھے چل کر اپنا سبق یاد کرنا اسلامی تاریخ میں ایک لازوال مثال بن گیا ہے اور یہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک تابناک کارنامہ ہے۔ الفارابی کے سلسلے میں عربی کا یہ مقولہ سو فیصد درست ثابت ہوا ہے۔

” من طلب العلی سھر اللیالی“
(جو بلندیاں حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو رات بھر جاگنا ہو گا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments