مولویوں کا متعصبانہ رویہ


”مولانا مودودی کے کفری عقائد“
یہ پمفلٹ مجھے اس وقت دیا گیا جب میں جماعت نہم کا طالب علم تھا۔
مودودی بلی کھانے کو حلال سمجھتا ہے۔
مودودی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشرک کہا ہے (نعوذ با اللہ)
مودودی بیک وقت دو بہنوں کا ایک مرد کے ساتھ نکاح کا قائل ہے۔
مودودی عصمت انبیاء کا منکر ہے۔
مودودی صحابہ کرام پر لعن طعن کرتا ہے۔
اسی نوعیت کے قریبا اٹھائیس، تیس قابل اعتراض عبارات ”حوالہ جات“ کے ساتھ اس میں موجود تھے۔
ایک نو خیز ذہن کا اس طرح کی باتوں پر مضطرب، بے چین اور پریشان ہونا عین فطری امر تھا۔

ایک سینئیر ساتھی کی لائبریری میں ہم گئے اور وہاں تفہیم القرآن سمیت دیگر دستیاب کتب میں مذکورہ عبارات کو نکالا اور پڑھا۔

یقین جانئیے کہ ہم دنگ رہ گئے کہ یہ ساری عبارات کانٹ چھانٹ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر بلکہ قطع و برید کر کے اپنا ہی مفہوم پہنایا گیا ہے

میرا ذاتی حال تو یہ تھا کہ کئی دن طبعیت بوجھل اور مکدر رہی کہ کیا اہل مذہب اور علماء بھی ایسا کام کر سکتے ہیں؟

ایسا پروپیگنڈا جو صریح الزامات، بہتان اور درحقیقت جھوٹ پہ مبنی ہو۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر دین، اہل دین اور علماء کرام کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی تھی اور ان کا دل میں ایک بڑا مقام تھا۔ اسی تناظر میں دل گرفتگی، شکوہ اور سوالات اور خدشات کا اٹھنا بالکل فطری تقاضا تھا۔

بہرحال اسی بہانے ہم نے مطالعہ کرنے کی ٹھان لی اور سید مودودی کی کتب: خطبات، تنقیحات، تفہیمات، خلافت و ملوکیت، سنت کی آئینی حیثیت، رسائل و مسائل اور تفہیم القرآن کا مطلوبہ حصہ پڑھ ڈالا۔

شہادت حق، دینیات، سلامتی کا راستہ، بناؤ اور بگاڑ، کتاب الصوم اور دیگر کئی چھوٹے کتابچے تو ہم پہلے مطالعہ کرچکے تھے۔

اسی طرح کالج میں آنے سے پہلے مکمل تفہیم القرآن کا مطالعہ کیے بغیر سید مودودی کا معروف لٹریچر مع محترمین سید قطب شہید، امام حسن البنا شہید، شاہ اسمعیل شہید، مولنا امین احسن اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، نعیم صدیقی، ابوالکلام آزاد، شاہ ولی اللہ، مفتی محمد شفیع اور مفتی تقی عثمانی کی ایک ایک یا دو دو کتب بھی پڑھ لیں تھیں کچھ عمیق، کچھ سطحی اور کچھ زیادہ اور کچھ کم فہم کے ساتھ جبکہ نسیم حجازی کے سارے اور عبد الحلیم شرر اور طارق اسمعیل ساگر کے چند ناول سمیت ”داستاں ایمان فروشوں کی“ شب بیداری کر کر کے ذہنی عیاشی کے طور پر پڑھ ڈالے تھے۔

وہی دن اور آج کا دن ہمیں بہت کچھ پڑھنے کا شوق رہا اور حتی المقدور پڑھنے اور کچھ پانے کی جستجو اور کوشش رہی۔ جو کچھ ہاتھ لگا تو بلاتفریق اور کسی تعصب کے بغیر پڑھا۔

تحریکی لٹریچر کے علاوہ، فقہی موضوعات، تعلیم و تربیت سیرت اور مغربی تہذیب پسندیدہ موضوع رہا۔ دلی میلان نہ ہونے کے باوجود تنقیدانہ، مناظرانہ اور الزامانہ مواد بھی پڑھنے کا موقع ملا۔
یہی ہم نے پایا کہ بہت ہی محدود لوگوں نے کوئی، علمی بحث کی ہے اور کوئی معقول اعتراض کیا ہے۔ انہی میں سے بھی بہت ہی کم لوگوں نے یہ کام، اخلاص کے ساتھ کیا ہے۔

اکثریت نے اصل مصادر تک پہنچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ہے بلکہ کسی کے دیے گئے حوالے پر اپنی ہی عمارت کھڑی کی ہے۔

غالب اکثریت نے دستیاب اور مہیا کردہ عبارات جو دراصل سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کی گئیں بلکہ قطع و برید کر کے درمیان میں اپنا مفہوم شامل کیا ہے اور اسی بنیاد پر فتوے صادر فرمائے ہیں اور صفحات کے صفحات سیاہ کرنے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔

اکثر بے خبری اور نا سمجھی میں اپنی ہی، فکر، مسلک، فرقے اور نظریے کے خلاف خود، مقدمہ لا کھڑا کیا ہے یعنی اپنے ہی بیانیے کو، مشکوک اور متنازع بنا ڈالا ہے۔

آج تک کم ازکم میرے علم کی حد تک کسی بھی نے، حقائق جاننے کے باوجود علانیہ طور پر نہ اپنی رائے سے، رجوع کیا ہے اور نہ کسی دلیل، وضاحت اور صفائی کو قبول کر کے مخالفت اور حریف کو، معاف کیا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے اپنے کسی بے بنیاد الزام، بہتان، غیبت اور صریح جھوٹ تک پر کوئی ندامت کا اظہار کیس ہو اور اخلاقی جرآت کا مظاہرہ کر کے، معذرت کرنے کسی معافی تلافی کی خواہش کا اظہار کیا ہو۔

مطالعاتی سفر جاری ہے :

بہت کچھ پڑھنے، پرکھنے اور سمجھنے کے باوجود کبھی ہمارے، عقیدے پر کوئی ضرب پڑی نہ ایک لمحے کے لئے بھی، ایمان متزلزل ہوا، نہ کبھی ادھر ادھر کی، پگڈنڈیوں پر چلنے کو دل نے چاہا اور نہ ہی کسی رافضیت، ناصبیت، قادیانیت، پرویزیت، جدیدیت، خارجیت یا سیکولرازم و لبرل ازم نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی جانب راغب کیا۔

اہل سنت و الجماعت کا متفقہ عقیدہ و ایمان ہے
اور
جمہور علماء کا اختیار کردہ مسلک اور رائے باعث اطمینان ہے۔
تمام مکاتب فکر کے علماء اور اہل دانش کے احترام پر یقین جبکہ
اسلام ایک مکمل نظام حیات اور اقامت دین نظریہ ہونے پر استقامت ہے۔

سید ابو علی مودودی کو ایک مفسر، محقق، مفکر، مصلح، مجدد اور عالم ربانی پانا، جاننا اور ماننا اور ان کی عظمت کا اعتراف کرنا حق گوئی کا تقاضا ہے۔

صراط مستقیم پر استقامت کے ساتھ چلنے کا عزم اور اللہ تعالی سے تائید و نصرت کی التجا و دعا ہے۔ الحمدللہ

گزارش اپنے دوست احباب، شاگردوں اور محیین سے یہی ہے کہ

پڑھنا ہے، خوب پڑھنا ہے اور بلا امتیاز پڑھنا ہے لیکن مطالعہ ثمر آور تب ہوتا ہے جب دقیق ہو، تحقیقی ہو، وسیع ہو، کچھ پانے کی غرض سے ہو اور سب سے بڑھ کر تحریک کے ساتھ ہو۔

وہ مطالعہ جو انسان کو عمل، تحرک اور جدوجہد پر آمادہ اور اجتماعیت کا خوگر نہ بنا دے وہ ایک ذہنی عیاشی کا سبب تو ہو سکتا ہو سکتا ہے لیکن تعمیر انسانیت اور معرفت رب کے حصول کا ذریعہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔

علم، تحرک، للہیت
یہ سب لازم و ملزوم، ایک دوسرے کے ممد و معاون اور درحقیقت مطلوب و مقصود ہیں کہ۔

اس پورے سفر میں پہلے قدم پر ایک مفید، نادر، شاہکار اور قیمتی ترین زاد راہ ساتھ لینا نہ بھولیے۔ ”سورہ حجرات“

سورہ حجرات کا پوری گہرائی، یکسوئی، دلجمعی اور راہ نمائی و و طلب ہدایت کے ساتھ مطالعہ لازمی اور ناگزیر ہے۔

آخری بات:

تمام تر مذہبی، مسلکی، نظریاتی اور سیاسی اختلافات رکھتے ہوئے بھی باہمی دوستی ہو سکتی ہے پوری رواداری، برداشت، احترام، ہمدردی اور محبت کے احساسات کے ساتھ۔

اللہ کی رضا اور جنت کا حصول اول و آخر نصب العین رکھنا ایمان کا تقاضا اور اصل کامیابی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments