باجوڑ: مردوں کے زنانہ فیصلے


آج کل ایک بحث سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ جرگے کے افراد کو ٹولے کی شکل میں دکھایا بھی جا رہا ہے۔ جو یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ باجوڑ میں خواتین سیر سپاٹے یا دوسرے معنوں میں عوامی اجتماع کی جگہوں میں نہیں جا سکتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرگوں میں اکثر فیصلے مرد ہی کرتے ہیں لیکن وہ فیصلے صرف زنانہ نہیں بلکہ مردانہ بھی ہوتے ہیں۔ اس میں پابندیاں، قدغنیں یا جرمانے مردوں پر بھی لگائے جاتے ہیں۔

لیکن وہ سماج، اخلاقیات یا زندگی کے دیگر امور سے متعلقہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ جو خالصتاً تورسروں یعنی مستورات سے علاقہ رکھتا تھا لیکن مردوں کے حق میں اور عورتوں کے مخالفت پر منتج ہوا۔ وہ اس طرح کہ اپنے آبادی کے نصف حصے پر یہ کہہ کر قدغن لگائی گئی کہ جہاں مرد حضرات جاتے ہیں یا جا سکتے ہیں وہاں خواتین نہیں جا سکتیں۔ یعنی خواتین سیر سپاٹے یا تفریحی مقامات میں نہیں جا سکتیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قبائل کے اپنے رسم و رواج اور طور طریقے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا یہ قبائل ملکی قوانین سے بالا تر ہیں؟ یا اگر یہ فیصلہ کرتے ہیں تو پھر خالصتاً مستورات پر قدغن پر کیوں بس کرتے ہیں کیا ان کے پاس اجتماعی شعور کی کمی ہے یا ان میں نئے تقاضوں کے مطابق چلنے کا فقدان ہے یا پھر یہ لوگ عورت کو کمزور سمجھ کر ان پر اپنے فیصلے صادر کروانا چاہتے ہیں؟

کیا اس فیصلے کا متبادل حل موجود نہیں تھا؟ کیا اس کا حل یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ہفتے میں ایک یا دو دن صرف عورتوں کے لئے مخصوص کرتے جیسے کہ، کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں فیملی پارک، پردہ باغ بنا دیے گئے ہیں یا پھر چڑیا گھر جیسے بڑی تفریحی مقام کو بدھ والے دن خواتین کے لئے مختص کیا گیا ہے۔

باجوڑ تو اب صوبائی انتظامیہ اور قوانین کے زیر اثر ہے۔ وہاں اب پڑھے لکھے لڑکے اور لڑکیاں پروان چڑھ رہے ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیوں کی اعلی تعلیم یافتہ کھیپ ادھر موجود ہے۔ تھانے، تحصیل، کچہریاں اور ضلعی عدالتیں وہاں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں۔ صوبائی سطح پر ہائی کورٹ تک اپروچ موجود ہے۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو رٹ پٹیشن میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

لیکن ان سب کچھ ہونے کے باوجود لوگ جرگوں کے فیصلوں کے کیوں محتاج ہیں۔ کیا وہاں ملکی قوانین یا ریاستی رٹ موثر نہیں یا پھر اس کو جان بوجھ کر ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے حوالے کیا جا رہا ہے یا اس مخصوص مائنڈ سیٹ کو عوام پر ایک بار پھر کسی خاص منصوبے کے تحت نازل فرمایا جا رہا ہے۔

یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ عورتوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ایک حلقے میں ووٹ کے حق سے جرگے کے فیصلے کی روسے خواتین کو روکا گیا تھا۔ عورتوں کو زیور اور اپنی مرضی کے لباس تک زیب تن کرنے سے روکا گیا۔

ایک بار محض شادی کی تقریب میں ناچنے پر کم عمر لڑکیوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ ناچ گانوں والی لڑکیوں کو گولیوں سے مارا اور گلے سے لٹکایا گیا۔

پشتون معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور مردوں کو زنانہ فیصلے زیب نہیں دیتے۔ مرد اپنے سے کمزور لوگوں پر ظلم نہیں کرتے۔ یہ تو پشتون معاشرے میں کم ظرفی اور کم مائیگی سمجھی جاتی ہے۔

جمہوری ملک میں جمہوری فیصلے ہونے چاہیے نہ کہ آمرانہ فیصلے۔ جمہوری ملک میں منصفانہ فیصلے ہونے چاہیے نہ کہ غیر منصفانہ یا متکبرانہ فیصلے۔ جمہوری ملک میں قانون کو کسی مخصوص ہاتھوں میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ قانون سب کے لئے قابل اطلاق ہو نہ کہ صنف امتیاز کے بھینٹ چڑھانے کا متحمل بنایا جائے۔

باجوڑ میں رہنے والی خاتون کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو بڑے شہروں جیسے پشاور، لاہور، اسلام آباد کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی، ملتان، مردان، نوشہرہ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان وغیرہ میں بسنے والی خواتین کو حاصل ہیں۔

ہمارے معاشرے میں مردوں کی غیرت خواتین کے پردے سے شروع ہو کر خواتین کے پردے پر ختم ہوتی ہے۔ حقوق کا تو یہ عالم ہے کہ وراثت جیسے حق کو جسے تمام حقوق کا نصف کہا جاتا ہے سے عورت کو محروم رکھا جاتا ہے۔ حق مہر، نان نفقہ، جہیز، خلع طلاق کے مسائل میں انھیں الجھا کر تمام زندگی ذلیل و خوار رکھا جاتا ہے۔ عورت کو زمین یا جائیداد کی طرح ملکیت نہیں سمجھنا چاہیے کہ جب چاہا اپنے تصرف میں لایا، اپنے منشا کے مطابق آبیاری کی، اس میں حل چلایا، اس میں فصل اگائی اور پھر جب ان سے متعلق فیصلے کا وقت آیا تو اس سے بانڈری وال گھما کر نہ اپنے تصرف میں اور نہ دوسرے کے تصرف کے انتقام میں بنجر ہی رہنے دیا جائے۔

پشتون معاشرہ ہمیشہ سے سوشلسٹ معاشرہ رہا ہے خواتین نے ہمیشہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا ہیں۔ کھیتوں میں، پہاڑوں میں، شادی بیاہ میں، بزنس میں حتی کی قبائلی جنگوں میں برابر کا حصہ لیا ہے کبھی کسی عورت پر نہ ہاتھ اٹھایا گیا اور نہ پابندی لگائی گئی۔

قبائلی معاشرے میں خواتین کے پردے کی بھی کوئی مخصوص شکل نہیں تھی آپس میں مرد و خواتین رشتہ دار ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے اور شادی بیاہ میں اتنڑ بھی کرتے تھے۔

لیکن کچھ عرصے سے اس خطے میں ایک مخصوص سوچ نے اپنی قدغنوں اور غیر ضروری حصاروں کے پنجے گاڑے ہیں جو نہ اسلامی ہے، نہ عقلی ہے، نہ اخلاقی ہے، نہ سماجی ہے اور نہ پشتون روایت کے عکاس ہیں۔ پتہ نہیں یہ کہاں کی ہوا چل پڑی ہے جو ہمارے پہاڑوں، کہساروں، آبشاروں اور صاف و شفاف چشموں کی آب و ہوا کو گدلا کیے جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments