ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کی شکست کے اسباب


ملک میں ضمنی الیکشن میں نتاuج بہت سے لوگوں کے لئے حیران کن تھے۔ الیکشن میں واضح طور پر پی ٹی آئی نے برتری حاصل کر لی ہے۔ ضمنی انتحابات میں بہت سے چیزیں مثبت ہوئی جس کا فائدہ ملک کو ہو گا۔ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی اور اس کا تمام کریڈٹ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کو جاتا ہے۔ نون لیگ نے شکست کھلے دل سے تسلیم کر کے ایک aچھی اور جمہوری روایت ڈالی۔ عوامی رائے کو تسلیم کرنا ہی جمہوریت ہے۔ امید ہے آئندہ بھی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن نتائج کو ایسے ہی کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔

اور جمہوری روایت کو آگے بڑھائیں گے۔ اس حوالے سے مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ ”مسلم لیگ نون کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنا چاہئیں۔ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ دل بڑا کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے“ جبکہ ضمنی الیکشن میں اکثریت سے جیتنے والی پارٹی کے لیڈر عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ ”سب سے پہلے میں مسلم لیگ نواز کے امیدواروں ہی کو نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری خصوصاً پولیس کے جبر و ستم اور مکمل طور پر ایک متعصب الیکشن کمیشن کو شکست دینے پر پاکستان تحریک انصاف کے اپنے کارکنان اور پنجاب کے ووٹرز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں“ ۔

بیس سیٹوں پہ واضح اکثریت سے جیت کے بعد اب چیف الیکشن کمشنر پہ تنقید والے بیانیہ کا کیا اخلاقی جواز ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ پی ٹی آئی کی جیت ہے؟ جیسا کہ سوشل میڈیا میں اس حوالے سے پی ٹی آئی یہ کلیم کر رہی ہے کہ ضمنی انتحابات میں جیت ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن یہ جو 20 سیٹیں تھی سب کی سب پی ٹی آئی کی تھی۔ اس میں سے بھی اگر کچھ مسلم لیگ نون لے اڑی تو اس کو پی ٹی آئی کے اتنی بڑی کامیابی نہیں کہ سکتے۔

دوسری بات مسلم لیگ کے لیڈران نے ضمنی انتحابات میں تو اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ شکست تسلیم کرنا کیا کافی ہے، کیا شکست کی وجوہات پر غور کیا گیا ہے؟ وہ کیا وجوہات ہیں کہ پی ٹی آئی جو حکومت میں ہوتے ہوئے تمام ضمنی الیکشن ہار گئی تھی جو عوام میں غیر مقبول ہو گئی تھی۔ اب پی ٹی آئی ایک مقبول جماعت کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ ہمارے سیاسی جماعتوں نے وردی والوں کو خوش کرنے کے لئے پی ٹی آئی کو دوبارہ زندہ کیا اور خود کو غیر مقبول کیا۔

اس کے نتائج آج ضمنی الیکشن میں نتائج کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ موجودہ نتائج مسلم لیگ نون کے ورکرز اور ووٹروں کا لوٹوں کی تجارت اور ”ووٹ کو عزت دو“ کو پست پشت ڈالنے والے رہنماؤں کے ٹولے پہ عدم اعتماد بھی ہے۔ جب تک سیاستدان یا سیاسی جماعتیں خود سے فیصلے نہیں کریں گے یہی ہو گا۔ مسلم لیگ نون کو خاندان سے باہر نکلنا ہو گا۔ اور پارٹی کے جاندار اور تجربہ کار سیاسی رہنماؤں کو آگے لانا ہو گا۔ جیت اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیے کی ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستانی عوام ایک ادارے کے سیاسی کردار سے کتنے تنگ ہیں۔

پی ٹی آئی نے بہت جارحانہ طریقے سے الیکشن مہم چلائی۔ عوام میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پر زور دیا۔ امریکی سازش کا بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا۔ اب تحریک انصاف کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہو گا کہ کیا وہ اپنے اس بیانئے کو مستقبل میں بھی جاری رکھ سکیں گے کہ نہیں؟ یہی بیانیہ جب مسلم لیگ نوں نے بھی ماضی میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے استعمال کیا تھا تو وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی کامیاب ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں یہ بد قسمتی ہے کہ جو پارٹی بھی اپوزیشن میں ہوتی ہے تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن جب یہ پارٹیاں حکومت میں ہوتی ہے تو یہ اسٹیبلشمنٹ نواز بن جاتی ہے۔

“فوج الیکشن چوری کرواتی ہے۔ حکومت کو چلنے نہیں دیتی” یہ بیانیہ میاں نواز شریف کا تھا۔ جو عمران خان نے اپنایا اور عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا مسلم لیگ نون کی شکست ایک بڑی وجہ وہ افراد جن کو انہوں نے ٹکٹ دیے۔ مسلم لیگ نون نے اپنے ان امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیے جو ان کے ساتھ ہر مشکل وقت میں کھڑے تھے؟ بالکل نہیں انہوں نے پی ٹی آئی کے ان منحرف ارکان کو ٹکٹ دیے جنہوں نے پی ٹی آئی کی پالیسی کے خلاف نون کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی ان کو لوٹے کہ کر الیکشن کمپین کرتی رہی تو دوسری طرف مسلم لیگ نون کے وہ امیدوار جو ہر اچھے اور برے وقت میں پارٹی کے ساتھ تھے ان کے تحفظات دور نہیں کیے گئے۔

جس کے وجہ سے لیگی ووٹر بھی پریشان تھا کہ کیسے ایسے شخص کو ووٹ دیں جو ماضی میں پارٹی کے خلاف الیکشن لڑتا رہا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ کے اصل امیدوار بھی اس الیکشن سے لا تعلق رہے جس کی وجہ سے ایسے نتائج آئے۔ مسلم لیگ (ن) کا انتہائی کمزور بیانیہ اور عمران خان کے مقابلے میں جارحانہ سیاسی رویے کا فقدان ان کی شکست کا سبب بنی۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں ہارنے کے بعد اب نون لیگ کا حکومت میں رہنے کا اخلاقی جواز نہیں رہا۔

ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد شہباز شریف کو کم از کم مسلم لیگ نون کی صدارت سے تو فوری استعفی دے دینا چاہیے۔ مسلم لیگی ووٹر بھی شہباز شریف کو وہ مقام نہیں دے سکتے جو مقام نواز شریف کا ہے۔ آئندہ کے سیاسی منظرنامے کے لئے یہی بہتر ہے کہ اب عام انتخابات کی طرف جایا جائے۔ موجودہ تبدیل شدہ صورتحال میں ایک بار پھر نون لیگ کے لئے موقع ہے وقت پر فیصلہ کرے۔ فیصلے اگر وقت پر کیے جائیں تو اس کے نتائج نکلتے ہیں ورنہ بعد میں اس فیصلوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ آپ کو اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments