” عربی سے طب تک“ قسط 10


’عربی سے طب تک‘ کی داستان طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ تو میری زندگی کی کہانی ’دامن کو ذرا دیکھ‘ بن گئی ہے۔ لہذا میں اس قسط میں ’پیش لفظ‘ بھی شامل کر رہا ہوں۔ پہلے اسے پڑھیے اور پھر اس داستان کو ۔ بچپن کی کہانی کبھی بعد میں۔

عرض مصنف

امرتا پریتم نے آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ میں لکھا ہے : ”خود نوشت سوانح حیات کو اکثر چمک دمک بھری یک طرفہ سچائی خیال کیا جاتا ہے ۔ خود ستائش کا فن کارانہ وسیلہ۔ لیکن بنیادی سچائی ادیب کو اپنی ضرورت مان کر میں کہنا چاہوں گی۔ یہ حقیقت سے حقیقت تک پہنچنے کا عمل ہے۔ ایک (حقیقت) وہ ہوتی ہے جو سامنے بغیر کسی تردد کے نظر آجاتی ہے اور ایک (حقیقت) صرف نظر جما کر دکھائی دیتی ہے اور ایک خیالات کی مٹی چھان چھان کر ڈھونڈی جاتی ہے۔

حقیقت وہ بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی اور وہ بھی۔ ہر ایک فن ’تعمیر میں نئی تعمیر کا نام ہے۔ یہ حقیقت کی دوبارہ تعمیر بھی حقیقت ہے۔ سچائی کی کوکھ میں پڑ کر پھر اس کوکھ سے نکلی ہوئی سچائی۔ حقیقت کی تعمیر ثانی، حقیقت سے حقیقت تک پہنچنے کا عمل ہے۔ کسی کی آپ بیتی پڑھنے والا اپنی تمام تر توجہ ایک ہی جانے پہچانے چہرے پر مرکوز کرتا ہے۔ اس میں مصنف اور قاری رو برو ہوتے ہیں۔ یہ مصنف کا اپنے گھر میں پڑھنے والے کو نجی بلاوا ہوتا ہے، شرم اور جھجک کی دہلیز کے اندر۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہوتا ہے۔ جب مصنف کا حوصلہ اس کے کسی سچ سے کم تر نہ ہو۔ اس میں دروغ بیانی مہمان کی نہیں میزبان کی اپنی ہتک ہوتی ہے“

میں نے ’رسیدی ٹکٹ‘ پڑھنے سے بہت پہلے کہیں لکھا تھا: ”دراصل ادیب کی حسیات ایک عام شخص کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تیز ہوتی ہیں چنانچہ اس کی قوت مشاہدہ میں چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی بڑی (Magnify) ہو کر خوردبینی (Microscopic) یعنی آنکھ سے نظر نہ آنے والی سے مرئی (Macroscopic) یعنی انسانی آنکھ سے نظر آنے والی بن جاتی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ عام انسانوں کی نسبت اللہ والوں یعنی اتقاء کے راستہ کے مسافروں کی آنکھ کچھ زیادہ ہی دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ایک عام آدمی راستے میں چلتی ہوئی چیونٹی یا رینگتے ہوئے کیڑے کو دیکھ نہ پائے اور اسے پاؤں سے کچلتا ہوا گزر جائے مگر وہ لوگ جو خاک نشین ہوتے ہیں انہیں چیونٹی کے پاؤں کی دھمک بھی سنائی دیتی ہے۔ انہیں گھاس کی پتی میں بھی جان کا احساس ہوتا ہے۔ وہ روز مرہ کی غلطیاں یا گناہ جنہیں ہر انسان زندگی کی روا روی میں گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ وہی غلطی، وہی گناہ کسی اللہ کے بندے کی نظر میں گناہ کا پہاڑ دکھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ فراست، بصیرت اور چشم بینا کا کمال ہے۔ ادیب بھی معاشرے کے ڈھکے چھپے کونوں کھدروں کو چشم بینا سے دیکھتا ہے اور وہ کچھ طشت از بام یا آشکار کرتا ہے جو دوسرے لوگ بذات خود دیکھ نہیں سکتے یا دیکھتے ہوئے بھی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں“

مجھے ادیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ دیکھا، سہا یا برتا اسے قلم بند کر دیا ہے۔ خود نوشت سوانح عمری میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ بے جا خود ستائش سے اجتناب برتا جائے۔ کیوں کہ اس تقریب کا دولہا خود قلم کار ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو خود پر گل پاشی کرے کا یا پھر سنگ باری۔ کچھ لوگ اپنے اوپر سنگ باری بھی ایسے سلیقے اور طریقے سے کرتے ہیں کہ گل پاشی کا گمان ہوتا ہے۔ میں نے خود پر گل پاشی سے اجتناب برتا ہے البتہ ہو سکتا ہے جہاں حقائق کے بیان میں اس سے اعراض ممکن نہیں تھا، پھول کی کچھ پتیاں خود پر نچھاور کر دی ہوں۔

بچپن، لڑکپن اور اوائل جوانی کا دور معصومیت، بھولپن، سادہ لوحی اور صاف باطنی سے عبارت ہو تا ہے۔ زندگی کے واقعات جو ہماری مستقل یادوں کا سرمایہ بن جاتے ہیں وہ زندگی میں جمود یا بے عملی سے جنم نہیں لیتے وہ تو رجائیت پسندی، جوش و ولولہ، بے پرواہی و ناپختہ کاری، احساس جرات و جواں مردی اور زعم طاقت (بدنی کم اور عقلی زیادہ) کی حماقتوں، جو نوجوانی کا طرہ امتیاز ہوتے ہیں، کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ نوجوانی میں نوجوانی بذات خود لا زوال لگتی ہے۔

پختہ عمر میں تو مشاہدات، تجربات، زمانہ شناسی اور خردمندی کے طفیل ہمارا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے اور ہم پھونک پھونک کر قدم رکھنے لگتے ہیں۔ چناں چہ زندگی میں یک رنگی سی در آتی ہے۔ ان حالات میں وہ واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے جو بچگانہ سوچ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور جب زندگی صرف جینے تک محدود ہو جاتی ہے تو بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کی نادانیوں اور جولانیوں سے منسلک یادیں بڑی

سہانی لگنے لگتی ہیں۔ ڈھلتی عمر میں، اوائل عمری کے ناقص فیصلے، اس عمر کی وہ شان بے نیازی اور خود سری اور بے پرواہی، اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ مزار ماضی پر آویزاں حسین یادوں کے کتبے انہی کی بدولت تو سجے ہوتے ہیں۔ ان خوش گوار لمحات کو یاد کر کے انسان پھرسے گزرے ہوئے وقت کی بازگشت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جو زندگی سے لطف اندوز ہونے کا سلیقہ جانتے ہیں وہ عمر کے ہر حصے میں وہی کام کرتے ہیں جو اس عمر کا

تقاضا ہوتے ہیں۔ اوائل نوجوانی میں ناصح یا فلسفی بن جانا شاید مشکل نہ ہو مگر یہ بے وقت کی ناصحانہ اور فلسفیانہ سوچ لڑکپن اور نوجوانی کے دور کو نگل لیتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر وقت کی دھول کی جھاڑ پونچھ کی جائے تو اندر سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔

زندگی ایک کتاب کی مانند ہی تو ہوتی ہے۔ اس کتاب کے اوراق، بغیر کسی تردد کے، خود بخود پلٹتے چلے جاتے ہیں۔ ہاں، یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اگلے صفحے پر کیا لکھا ہے۔ اس کتاب کو آپ دھیان سے پڑھیں یا بے دھیانی میں، ہر روز کے سبق پر آپ غور کریں یا نہیں، اسے یاد رکھیں یا نہیں، اگلے دن صفحہ پلٹ جاتا ہے۔ کتاب حیات کا سامنے آنے والا صفحہ یاد تو رکھا جا سکتا ہے، دوبارہ سے پلٹ کر پڑھا نہیں جاسکتا۔ یعنی ہر روز ایک نیا منظر آپ کے سامنے ہوتا ہے۔

اگر آپ چشم بینا رکھتے ہوں تو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے اور اگر فہم فراست بھی ودیعت ہو تو بہت کچھ سیکھنے کو بھی مل جاتا ہے ۔ پڑھے گئے اسباق میں بہت سے بالکل بھول جاتے ہیں جب کہ کچھ ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اور پھر ایک دن یہ کتاب بند ہوجاتی ہے۔ کتاب حیات کے بند ہونے سے پہلے، اگر اپنے مشاہدات، تجربات اور احساسات کو قلم بند کر دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اسے دل چسپی سے پڑھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ چند افراد اس سے راہنمائی یا حوصلہ پا کر کے اپنی زندگی کی روش میں تبدیلی پیدا کر لیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ آپ اپنے حلقہ شناسائی میں اپنے طرز عمل اور دوسروں سے اپنے سلوک، برتاؤ کی بدولت ایک تاثر قائم کرتے ہیں لیکن سوانح عمری کی تحریر سے آپ انجان لو گوں تک بھی رسائی حاصل کرتے ہیں اور اپنے نقش پا کا عکس ان میں بھی چھوڑ جاتے ہیں۔

مجھے پارسائی کا دعویٰ نہیں۔ میں نے بھی اپنے ہم عمروں کی طرح بچپن، لڑکپن اور نوجوانی گزاری ہے۔ ڈھلتی عمر میں داڑھی کا بڑھانا محض تلبیس شخصی (Camolauge) ہے۔ اسے ایسے ہی سمجھا جائے۔

ڈاکٹر جمیل احمد میر
فرسٹ ائر فول

میرا خیال تھا میڈیکل کالج میں فرسٹ ائر فولنگ کا رواج نہیں ہو گا۔ مگر یہ خام خیالی تھی۔ ابھی کالج میں آئے ہمیں پانچ چھے دن ہی ہوئے تھے۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے جو قاسم ہال کے ساتھ ہی تھی، خواجہ ناظم الدین کے ساتھ واپس ہاسٹل آیا تو وہاں ہاسٹل کے لان میں سیکنڈ اور تھرڈ ائر کے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ ان سب کا سرغنہ احسان باری تھا۔ یہ صاحب تین سال پہلے نشتر میں داخل ہوئے تھے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے دوسرے سال میں ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے۔

احسان نے خواجہ سے کہا کہ لان کے اس طرف جا کر اٹھک بیٹھک شروع کر دو ۔ خواجہ نے بے چون و چرا بیٹھکیں نکالنی شروع کر دیں۔ احسان نے مجھے بھی حکم دیا تم بھی ایسے ہی کرو۔ اس وقت میں احسان باری کو بالکل نہیں جانتا تھا۔ میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ احسان باری کو ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ جب تمہارا ساتھی ایسے کر رہا ہے تو تم کیوں نہیں کرتے لیکن میرے جارحانہ انداز پر اندر سے وہ بھی کچھ ڈانواں ڈول ہو گیا۔ میں نے کہا کہ آپ خواجہ سے پوچھیں کہ وہ ایسے کیوں کر رہا ہے۔ میرا جواب تو بالکل صاف ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ کہنے لگا اچھا تو تم اس درخت سے ایک پتہ توڑ لاؤ۔ میں جاکر ایک پتہ توڑ لایا۔ کہا اب اس پتے کو وہاں بالکل اسی طرح جوڑ کے آؤ جیسے یہ پہلے وہاں لگا ہوا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے باٹنی (Botany) پڑھی ضرور ہے لیکن میں نے کوئی ایسا طریقہ نہیں پڑھا جس میں توڑے ہوئے پتے کو واپس درخت کے ساتھ اسی طرح جوڑا جا سکے جیسے کہ توڑنے سے پہلے تھا۔

معاملہ کچھ الجھتا جا رہا تھا۔ حالات کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر بہت سارے لڑکے وہاں جمع ہو گئے۔ ان میں کچھ سینیئر کشمیری طلباء بھی تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ کشمیری طلباء میں میرے وہاں آتے ہی ایک لائق فائق اور ذہین طالب علم ہونے کا غلط تاثر کیسے قائم ہو گیا تھا لیکن ایسے ہوا ضرور تھا۔ احسان کو دو تین سینیئر کشمیری لڑکے پکڑ کر لان کے دوسرے حصے میں لے گئے اور اسے سمجھایا کہ اس کے ساتھ یہ کچھ نہیں چلے گا۔ جو تم سمجھ رہے ہو، یہ وہ نہیں ہے۔ یہ تمہاری بات نہیں مانے گا۔ کیوں اپنی بے عزتی کرواتے ہو؟ اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ آپ اپنے کمرے میں چلے جائیں۔ میں کمرے میں چلا آیا۔ ہم سبھی روم میٹ کچھ دیر بعد کاپیاں کتابیں خریدنے ملتان کے ایک بازار ’حسین آگاہی‘ چلے گئے۔ شام کو لوٹے۔ خریدی ہوئی اشیاء از قسم قلمیں، پنسلیں، پن اور شیونگ کا ساز و سامان میزوں پر ڈھیر کر دیے گئے۔ خیال تھا کہ شام کا کھانا کھانے اور عشاء کی نماز کے بعد اطمینان سے ان اشیاء کو اپنے ٹھکانے پر رکھیں گے۔

رات کے تقریباً ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ ہم سونے کے کپڑے تبدیل کر چکے تھے۔ بکھری ہوئی اپنی اپنی اشیاء کو ابھی قرینے سے رکھنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک صاحب دوڑتے ہوئے ہمارے کمرے میں آئے اور بتایا کہ احسان باری اپنی پوری گینگ کے ساتھ دن کے وقت ہونے والی بے عزتی کا بدلہ لینے آپ کی ڈارمیٹری میں آ رہا ہے۔ ہم جیسے تھے ویسے ہی باہر کو بھاگ نکلے۔ دوسروں کا تو مجھے پتہ نہ چل سکا وہ کدھر کو گئے۔ میں سیڑھیاں، جن پر بلب روشن نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا، اتر کر ہاسٹل کے صدر دروازے کی طرف بھاگا۔

دروازہ کھلا تھا، باری کا ایک ساتھی وہاں کھڑا تھا۔ سیڑھیوں کے عین بیچ میں موٹر سائیکلوں کے اوپر چڑھنے اور اترنے کے لئے تقریباً ایک فٹ چوڑی ڈھلوان (Slope) بنی ہوئی تھی۔ وہ صاحب ڈھلوان کے اوپر والے حصے پر کھڑے تھے۔ جونہی میں سیڑھیوں کے پاس پہنچا ان صاحب نے میرا بازو پکڑ لیا۔ میں پیچھے سے دوڑتا ہوا آ رہا تھا اور اسی رفتار سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ میرے زور حرکت کی زد میں آ کر ان صاحب کا پاؤں سلوپ پر آیا، توازن بگڑا اور وہ قلابازیاں کھاتے ہوئے دو تین فٹ نیچے سڑک پر جا گرے۔

اس سے پہلے کہ وہ اٹھتے میں بھاگ کر کالج گراؤنڈ میں چلا گیا۔ یہ کبھی پتہ نہ چل سکا کہ وہ صاحب کون تھے۔ انہوں نے خود بھی کبھی ذکر نہیں کیا۔ کالج گراؤنڈ ہاسٹلز کے عین سامنے تھا۔ اس کے چاروں طرف بڑے بڑے درخت تھے۔ ابتدائی چاند کی سیاہ راتیں تھیں اور درختوں کے نیچے بالکل گھپ اندھیرا تھا۔ میں رازی ہال کے سامنے درختوں کے نیچے جا کھڑا ہوا۔ جسم پر صرف لباس شب خوابی تھا۔ 9جنوری کی سرد رات تھی۔ ابتداء ًدوڑتے ہوئے آنے کے وجہ سے جسم گرم تھا اس لئے سردی کا احساس نہ ہوا۔

جب جسم ٹھنڈا ہوا تو سخت سردی لگنے لگی۔ میں درختوں کے نیچے ہی نیچے رازی ہال سے سینا ہال اور پھر نشتر روڈ کی طرف سے ہوتا ہوا پون کلو میٹر کا چکر کاٹ کر جب واپس قاسم ہال کے پاس آیا تو اپنے ہاسٹل کا صدر دروازہ بند پایا۔ دروازے کے اندر تین لڑکے کھڑے میرے منتظر تھے۔ میرے لئے مشکل صورت حال بن گئی تھی۔ ہاسٹل کے اندر جا نہیں سکتا تھا اور باہر سردی ناقابل برداشت تھی۔ ہاسٹل کے پاس ہی مسجد تھی۔ میں سردی سے ٹھٹھرتا ہوا مسجد میں چلا گیا۔

وہاں کوئی تبلیغی جماعت آئی بیٹھی تھی۔ جونہی میں اندر جا کر ایک کونے میں بیٹھا۔ ایک صاحب میرے پاس آئے اور بڑی اپنائیت سے میرا نام پتہ پوچھا، اپنا نام عبد الباری بتایا۔ کہنے لگے جمیل صاحب! ہمیں دین میں سخت محنت کی ضرورت ہے۔ میرا جسم سردی سے اکڑتا جا رہا تھا اور میں کانپ رہا تھا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا ’جناب اس وقت مجھے کمبل کی سخت ضرورت ہے‘ عبدالباری صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کہنے لگے کیا ہوا؟

میں نے کہا: آپ دیکھ ہی رہے ہیں میں شب خوابی کے لباس میں ہوں۔ میں ہاسٹل سے بھاگ کر آیا ہوں۔ وہاں کوئی احسان باری صاحب ہیں جو مجھے فولنگ کے بہانے تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے میں باہر کو بھاگا تھا۔ انہوں نے مجھ سے ڈارمیٹری اور چارپائی کا پوچھا اور کہا کہ میں ابھی آپ کا بستر لے کر آتا ہوں۔ عبدالباری صاحب میرے ہی ہم عمر لگتے تھے بلکہ مجھ سے بھی ایک آدھ سال چھوٹے۔ میں انہیں اپنا کلاس فیلو سمجھ رہا تھا۔

میں نے انہیں کہا کہ وہ لوگ آپ کو بھی پکڑ لیں گے۔ آپ کیوں میرے لئے یہ خطرہ مول لیتے ہیں؟ وہ کہنے لگے وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے اور وہ چلے گئے۔ پندرہ منٹ بعد واپس آئے تو میرا پورا بستر اٹھا لائے۔ اسے مسجد کے ایک کونے میں بچھایا اور کہا کہ آپ آرام سے یہاں سو جائیں فجر کی نماز پڑھ کے اپنے کمرے میں چلے جانا۔ میں نے سوچا اے اللہ ایک تو ’باری تعالی‘ ہے جو میرا بہت خیال رکھتا ہے۔ ایک تیرا بندہ ’احسان باری‘ ہے جو مجھے تنگ کرنے کے درپے ہے اور ایک اور تیرا بندہ ’عبد الباری‘ ہے جو میرا بستر بچھاتا ہے اور میرے آرام کی فکر کرتا ہے۔

یہ کیسا گورکھ دھندا ہے؟ عبد الباری صاحب اس وقت فورتھ ائر میں تھے اور نشتر کی تبلیغی جماعت کے امیر تھے۔ میں فجر کی نماز کے بعد کمرے میں گیا تو سبھی ساتھی وہاں موجود تھے۔ کچھ نے ٹائلٹ میں چھپ کر جان بچائی تھی اور کچھ سینیئر ساتھیوں کے کمروں میں جا دبکے تھے۔ احسان باری کے ہاتھ ہم تو نہ آئے البتہ اس کا بریگیڈ ہماری قلمیں پنسلیں، پن، سیفٹیاں اور شیونگ بلیڈ لے اڑا۔

احسان باری بھی اپنی ہٹ کا پکا تھا۔ وہ اتوار11جنوری کو دوپہر ساڑھے تین بجے کے قریب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ پھر آ دھمکا۔ اب کی بار اس نے بھاگنے کے سارے راستے مسدود کر دیے تھے۔ ہماری ڈارمیٹری کے باہر ایک ٹیرس سا تھا۔ اس کا پچھواڑا رازی ہال کی طرف تھا۔ بارش کے پانی کے نکاس کے لئے ایک پائپ دیوار کے ساتھ چپکا ہوا نیچے جا رہا تھا۔ میں احسان باری کے آنے سے پہلے ہی پائپ کے ذریعے نہایت آرام سے اتر کر رازی ہال چلا گیا۔

دوسرے ساتھی بھی اسی پائپ کے سہارے نیچے اتر آئے اور باری پھر منہ دیکھتا رہ گیا۔ اب مجھے کالج آئے ہوئے دو ہفتے ہونے والے تھے۔ اپنی کلاس میں جان پہچان ہوتی جا رہی تھی اور ہاسٹل میں بھی سب سے علیک سلیک ہو گئی تھی۔ میں نے سوچا یہ بھاگ بھاگ کر جان بچانا آخر کب تک؟ بہتر ہے ایک مرتبہ احسان باری کا سامنا کر ہی لیا جائے۔ چنانچہ میں نے تہیہ کر لیا اب اگر باری نے چڑھائی کی تو اسے ترکی بہ ترکی جواب دوں گا۔ غالباً اسے بھی احساس ہو چکا تھا کہ بات بہت بڑھ چکی ہے کہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں۔ اس لئے اس نے بھی چپ سادھ لی۔

(جاری ہے )
ڈاکٹر جمیل احمد میر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments