رانی خان (خواجہ سرا) کے گھر میں عید کا دن


ہمارا بچپن راولپنڈی کے علاقے ٹینچ بھاٹہ میں گزرا۔ عید الاضحٰی کی آمد سے مہینہ قبل ہی بکرا دلاؤ کی رٹ لگا لیتے تھے۔ والد محترم سعودی ارامکو میں نوکری کرتے تھے۔ عید سے دو ہفتہ قبل تشریف لاتے اور آتے ہی بکرا دلا دیتے۔ غربت کا دور تھا کم ہی لوگ قربانی کیا کرتے تھے۔ ہمارا اٹھارہ سو، دو ہزار کا بکرا علاقے کا سب سے تگڑا بکرا ہوا کرتا تھا۔ دس پندرہ دن بکرے کی خوب خدمت کرتے۔ اسے نہلاتے دھلاتے خوب سیر کرواتے۔ عید کے دن جب اس کے گلے پر چھری پھرتی تو خوب روتے اور اگلی عید کی پلاننگ کرنا شروع کر دیتے۔

آج میرے بچے بھی قربانی سے کئی روز قبل ہی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ قربانی کے لئے جس جگہ حصہ ڈالا وہ گھر سے کافی دور تھا۔ ایک چاند رات وہیں گزاری اور خوب انجوائے کیا۔

ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے بھی بچے پائے جاتے ہیں۔ جو خوشی کا دن اپنوں سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔ انھیں تیسری جنس ہونے کی بنیاد پر گھر والے خود سے دور کر دیتے ہیں۔ یہ اپنا پیٹ پالنے کے لئے بھیک مانگتے ہیں ناچ گانا کرتے ہیں۔ بھوک مٹانے کے لئے اپنا جسم تک بیچ دیتے ہیں۔ عید کے دن ان کے گھروں میں خاموشی کا سماں ہوتا ہے۔ ایک گھر میں رہنے والے خواجہ سرا ایک دوسرے سے نظریں چراتے، چھپ چھپ کر روتے اور ایک دوسرے کو ماضی کے قصے سناتے ہیں۔

خواجہ سرا چاہتے ہیں کہ ان سے عام لوگوں والا برتاؤ کیا جائے۔ یہ بھی عید کا دن اپنوں کے ساتھ گزاریں۔ خواجہ سرا عید کا دن کیسے گزارتے ہیں یہ جاننے کے لئے ہم نے رانی خان نامی خواجہ سرا سے چند سوالات کیے۔

رانی خان کا تعلق چنیوٹ سے ہے۔ اسلام آباد کی رہائشی ہیں۔ لال مسجد سے دینی تعلیم حاصل کی۔ رانی خان نے اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کا دنیا کا پہلا مدرسہ قائم کیا ہے۔ مدرسے سے منسلک چار مرلے کے پلاٹ پر خواجہ سراؤں کا پہلا ہسپتال قائم کرنے جا رہی ہیں۔ رانی خان خواجہ سراؤں کا ایک شیلٹر ہوم بھی چلا رہی ہیں جہاں خواجہ سراؤں کو مختلف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کو بھیک، ناچ گانے اور سیکس ورک سے بچانے کے لئے رانی نے ریڑھیاں فراہم کیں ہیں۔ اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں رانی کے شاگرد ریڑھیوں پر مختلف اشیا بیچتے نظر آتے ہیں۔ رانی خان بہت سے پڑھے لکھے خواجہ سراؤں کو گورنمنٹ اور پرائیویٹ نوکریاں بھی دلوا چکی ہیں۔ رانی ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے پراجیکٹس پر بھی کام کر رہی ہیں۔

تیرہ چودہ سال کی عمر میں رانی خان پر گھر والوں اور معاشرے کا دباؤ بہت بڑھ گیا تو انھوں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ رانی خان کی اپنے علاقے کی ایک اور خواجہ سرا سے دوستی ہوگی۔ گھریلو حالات سے تنگ آ کر دونوں نے گھر چھوڑ دیا۔ مختلف شہروں میں رہیں۔ پھر اسلام آباد میں پکا ڈیرہ جما لیا۔ رانی ڈانس کر کے پیٹ بھرتیں۔ روحانی سکون کے لئے دینی تعلیم حاصل کرتیں۔ رانی کی دوست کی اچانک موت واقع ہوئی۔ جس نے رانی کو اتنا صدمہ پہنچایا کہ انھوں نے برائی کی دنیا کو خیر آباد کہا اور دین کے ساتھ جڑ گئیں۔

سوال: عید کا دن کیسے گزارتی ہیں؟

رانی خان کہتی ہیں کہ یہ عید کا دن اپنے گھر میں شاگردوں کے ساتھ گزارتیں ہیں۔ عام دن تو کسی نہ کسی طرح گزار لیتی ہیں۔ رمضان، شب برات اور عید کے دنوں میں اپنوں کی یاد بہت ستاتی ہے۔ رانی اور ان کی شاگرد بڑے دنوں کی خوب تیاری کرتی ہیں۔ نئے جوڑے، جوتیاں، چوڑیاں اور میک اپ کا سامان بھی خریدتی ہیں۔ لیکن جب عید کا دن آتا ہے تو گھر میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ گھر والوں کی بہت یاد آتی ہے۔ گھر میں موجود تمام خواجہ سرا ایک دوسرے سے چھپ چھپ کر روتی ہیں۔ مل بیٹھیں تو ایک دوسرے کو ماضی کے قصے سناتی ہیں۔

سوال: بچپن میں عید کیسے مناتی تھیں؟

رانی کہتی ہیں کہ ان کا تعلق چنیوٹ کے متوسط مذہبی گھرانے سے ہے۔ قربانی کا جانور خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی عید کی خوب تیاری کرتیں۔ عید کے دن لوگوں کے گھروں میں گوشت مانگنے جایا کرتیں۔ جب گوشت جمع ہو جاتا تو والدہ سے پکانے کو کہتیں۔ پھر سارے بہن بھائی خوب مزے لے کر کھایا کرتے تھے۔

سوال: گھر چھوڑنے کے بعد پہلی عید کیسے گزاری؟

عید کے دن بڑے چھوٹوں کو گلے لگاتے ہیں۔ رشتے دار گلے شکوے بھلا کر ایک دوسرے کو محبت کا پیغام دیتے ہیں۔ گھر چھوڑنے کے بعد جب پہلی عید آئی تو پتہ چلا کہ اپنوں سے دور رہ کر عید کا دن گزارنا گھر چھوڑنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔

چاند رات روتے جاگتے گزاری۔ عید کا سارا دن سوتے ہوئے گزار دیا۔ رات پھر جاگتے ہوئے گزار دی۔ رانی کہتی ہیں کہ یہ صرف ان کی کہانی نہیں خواجہ سرا کمیونٹی عید کا دن اسی طرح گزارتی ہے۔

سوال: کیا آپ اپنے شاگردوں کو عید کے دن گھر والوں سے ملوانے کی کوشش کرتی ہیں؟

رانی کہتی ہیں کہ شادی بیاہ، ماتم اور عید کے دنوں میں لوگ ناراضگیوں کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خواجہ سراؤں کے گھر والوں پر خدا ایسی مہر لگا دیتا ہے کہ یہ ایسے موقعوں پر خواجہ سراؤں کو گھر میں گھسنے کی اجازت نہیں دیتے۔

تانیہ نام کی خواجہ سرا کم عمری میں رانی کے پاس آئی۔ رانی کی کئی سالوں کی محنت کے بعد گھر والے اسے قبول کرنے پر راضی ہوئے۔ عید کے دن اسے گھر بھیجنے کی کوشش کی تو گھر والوں نے انکار کر دیا۔

سوال: مسئلے کا حل کیا ہے؟

رانی کہتی ہیں حکومت خواجہ سراؤں کے مسائل میں بالکل دلچسپی نہیں لیتی اسی وجہ سے خواجہ سراؤں کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بچے کو جنس کی بنیاد پر گھر سے بے دخل کرنے کی سخت ترین سزا ہونی چاہیے اور ان پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔ خواجہ سرا بچے کو گھر سے نکالنے پر دو چار گھرانوں کو سزا ملی تو حالات نارمل ہونا شروع ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments