پنجاب کے ضمنی انتخابات: ابھی دور ہیں منزلیں ابھی سفر طویل ہے


پنجاب میں 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن مکمل ہو گئے پی ٹی آئی نے 20 میں 15 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی، تحریک انصاف جو شام تک دھاندلی، دھاندلی کا غوغا کر رہی تھی۔ نتائج آنے کے بعد خاموش ہو گئی تحریک انصاف اور بعض تجزیہ کاروں کا یہ کہنا کہ حمزہ شہباز اپنی حکومت بچانے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ وہ حکومتی مشینری کا بے دریغ استعمال کریں گے لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا اس سلسلے میں الیکشن کمیشن وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور سیکورٹی ادارے پر امن انتخابات کرانے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

انتخابات میں فتح و شکست جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اسے دشمنی بنا لینے کا سلسلہ دیکھنے میں آتا ہے اور تحریک انصاف نے اگر یہ کہا جائے کہ اسے عروج پر پہنچا دیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ عمران کی افتاد طبع سونامی سے شروع ہوئی اور پاکستان کو سری لنکا بنانے تک پہنچ گئی۔ سونامی کی سونامی کا یہ سفر جاری ہے۔ الیکشن کمیشن، اسٹیبلشمنٹ عدلیہ سمیت کوئی ادارہ ایسا نہیں جس کی کر دار کشی نہ کی گئی ہو، انصاف وہ ہے جو ان کے حق میں ہو نیوٹرل کی اصطلاح، متعارف کرائی اور پھر نیوٹرل کو جانور قرار دے ڈالا۔

خیبر پختونخوا کے ضمنی انتخابات میں عمران خان اور ان کے وزراء نے ضابطہ اخلاق کو پا مال کر کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے شرکت کی جس کا مظاہرہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں دیکھنے میں نہیں آیا، ماضی قریب میں آزاد کشمیر میں ہو نے والی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے وزراء اور خود عمران خان نے اسی رویے کا مظاہرہ کیا۔ وزراء نے الیکشن کمیشن کی طرف سے آزاد کشمیر چھوڑ دینے کے حکم کو بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا، ایسے میں اگر ضمنی انتخابات میں نتائج ان کی مرضی کے نہ آتے تو“ دمادم مست قلندر ”کر نے کی پوری تیاریاں تھیں، عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کسی اصول، ضابطے کو خاطر میں نہ لا نا یہاں تک کہ عدم اعتماد کے آئینی طریق کار کو بھی تسلیم نہ کر نا اور اسمبلی میں سپیکر کو آئین کے خلاف رولنگ دینے کو اپنا حق گرداننا کیا سیاست کا ایسا رنگ نہیں جس سے آنے والے دنوں پاکستان میں نفرت کی آگ الاؤ کی شکل اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ قومی سیاست کا یہ منظر نا مہ سامنے آتا ہے۔ تو دل کو دھڑکا لگ جاتا ہے کہ نہ جا نے کس لمحے کیا ہو جائے؟

گزشتہ دو دہائیوں سے اندھی نفرت و عقیدت پر مبنی تقسیم شدید تر ہوئی تو اس کا نتیجہ کامل انتشار اور خلفشار کی صورت میں نکلے گا جس سے نجات کی صورت نہ سیاستدان نکال پائیں گے۔ نہ ریاستی ادارے۔ ”سلیکٹیڈ“ اور ”امپورٹڈ“ کی اصطلاحات اسی کی غماز ہیں۔ پنجاب میں اگر تحریک انصاف حکومت بنا نے کے بعد مخالفین کو سبق سکھانے چل نکلی تو پنجاب کا سب سے بڑا صوبہ ابتری اور خلفشار سے نہیں نکل پائے گا۔ لوٹا کریسی کی بات کر نے والے عمران خان نے جولائی اور اگست 2018 میں ’جہازی ”امید واروں کو لا کر پنجاب میں اپنی حکومت بنائی کیا یہ جائز تھا؟

موجودہ ضمنی انتخابات میں اکثریت ان امید واروں کی تھی جنہوں کئی جماعتوں کو بھگتایا ہوا ہے۔ عمران خان نے بھی دو چار جگہ اپنی پارٹی کے بجائے ایسے ہی لو ٹوں کو ضمنی انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دیا، ”مسٹر ایکس اور وائی“ کی باتیں کی جاتی رہیں مگر انتخابات میں کامیابی کے بعد شانتی نظر آ رہی ہے اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ریاستی مشینری کے ساتھ سب اداروں کو شکست دی ہے۔ ایک سپورٹس مین، سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہ کر سکے تو اسے کیا نام دیا جائے؟

اس سے یہی واضح ہو رہا ہے کہ مستقبل قریب میں اگر انتخابات ہوتے ہیں تو خان صاحب یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ اور فوج سمیت ادارے نیوٹرل رہنے کے بجائے ان کے دست و باز بن جائیں تو محب وطن کہلائیں گے ورنہ ملک دشمن، ہمارے ہاں برطانوی جمہوریت رائج ہے جس کی پارلیمنٹ سب سے قدیم ہے۔ وہاں بھی ایوان بالا اور ایوان زیریں ہے۔ حال ہی میں وہاں کے وزیر اعظم بورس جانسن کے خلاف پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی مگر کامیاب نہ ہو سکی، دوسری بار پارٹی میں بغاوت ہوئی، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے استعفوں کا اعلان کیا تو وزیر اعظم نے استعفا دینے کا جمہوری راستہ اختیار کیا عمران خان جو برطانیہ میں رہے، آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی وہاں کے ایک امیر گھرانے کی خاتون جمائما سے شادی ہوئی اور پھر وہ وہاں کے قانون اور روایات کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

مگر جب ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو وہ یہ جمہوری روایات بھول گئے امریکی سازش کا بیانیہ لے کر مخالفانہ مہم جوئی شروع کر دی مگر بورس جانسن نے پاکستانی نژاد ساجد حسین اور انڈین نژاد رشی سو نک کے وزارتوں سے استعفے کے آغاز پر جو بعد میں پارٹی بغاوت کی شکل میں تبدیل ہو گیا انہوں نے پاکستان یا انڈیا پر سازش کا الزام نہ لگایا جبکہ خان صاحب نے اس بیانیہ کو نفرت کا الاؤ بنایا جو سرد ہونے کا نام نہیں لے رہا ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ نون کی طرف سے مریم نو از نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ نون کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کر نے چاہیں عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے، سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔

دل بڑا کرنا چاہیے کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ یہی کچھ نو از شریف نے کہا کہ مشکل فیصلوں کا نقصان اٹھانا پڑا لیکن ہم عوام کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں جیت مبارک ہو، ہم نے شفاف الیکشن کرائے 2018 میں بھی یہ نشستیں نون لیگ کے پاس نہیں تھیں، خواجہ سعد رفیق کے بقول نتائج سے ثابت ہو گیا کہ ریا ستی اداروں اور حکومت نے کوئی دھاندلی نہیں کی ہم بھی الزامات لگا سکتے تھے۔ خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومتی وسائل کے استعمال کی بات کر سکتے تھے۔ مگر نہیں کریں گے۔ شام تک دھاندلی کا شور مچانے اور عدالتیں کھولنے کی بات کر نے والے عمران اب کیا کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی؟ سیاست اور جمہوریت کا حسن ہو تا ہے کہ اپنی شکست کو بہادری سے تسلیم کیا جائے نہ کہ اس کو دھاندلی کے۔

الزامات کے سہارے فضا کو مقدر کرنے کے لئے استعمال کیا جائے، اس لئے اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد شانتی ہو جائے گی تو فی الوقت یہی کہا جا سکتا ہے کہ

ابھی یقین ہے کہاں ابھی گماں کا دور ہے ابھی مسرتیں کہاں ابھی فغاں کا دور ہے
ابھی نہ ڈھونڈیے بہار ابھی خزاں کا دور ہے منافرت کی گرد شہر زندگی کی فصیل ہے
ابھی دور ہیں منزلیں ابھی سفر طویل ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments