اب مسلم لیگ (ن) کیا کرے؟


پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی تاریخی کامیابی نے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حیثیت کے بارے میں متعدد سیاسی سوال کھڑے کئے ہیں۔ ایسے میں یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ پارٹی نے چونکہ منحرف ارکان کو ٹکٹ دیے تھے جس کی وجہ سے اس کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوئی اور اس کے ہمدردوں نے بھی پارٹی کے ٹکٹ کو ووٹ نہیں دیا۔

یہ انتخابات بیس نشستوں پر منعقد ہوئے تھے۔ تحریک انصاف نے پندرہ حلقوں میں بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کرکے پنجاب میں مسلم لیگ پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے لئے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنی ساکھ اور سیاسی حیثیت بچانے کے لئے کیا کرسکتی ہے؟ اس مقصد کے لئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اسی وقت کسی درست نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے اگر وہ اپنی سیاسی مقبولیت و حیثیت کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے صرف ضمنی انتخابات میں ناکامی ہی کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ گزشتہ چار پانچ سال کے دوران رونما ہونے والے سیاسی واقعات، مختلف مواقع پر کئے گئے فیصلوں اور اس حوالے سے پارٹی میں پائی جانے والے اختلافات پر غور کرے اور کوئی دوٹوک اور واضح سیاسی لائحہ عمل عوام کے سامنے لے کر آئے۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد مرکز میں شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے اور پنجاب میں انہوں نے اپنے ہی صاحبزادے کو وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کردیا۔ شریف خاندان پہلے بھی اسی طریقہ سے ہی ملک پر حکومت کرتا رہاہے یعنی میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ رہے۔ اس بار مختلف سیاسی ماحول اور تبدیل شدہ حالات کی وجہ سے مرکز اور صوبے کو باپ اور بیٹے میں بانٹنے کا طریقہ پاکستانی عوام کی اکثریت کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ اس دوران سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چینلز کے ذریعے سیاسی شعور بھی پیدا ہؤا ہے اور چھوٹی بڑی سیاسی پیش رفت پر ہر پہلو سے بحث و تمحیص کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یوں موجودہ دور آج سے بیس تیس سال پہلے والے سیاسی معاشرے اور رویوں سے مختلف ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس تبدیلی کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ تاثر عام ہؤا کہ مسلم لیگ (ن) کو شریف خاندان کی میراث بنا دیا گیا ہے۔

شہباز شریف و حمزہ شہباز سمیت تمام لیگی قیادت کو بدعنوانی کے سنگین الزامات کا بھی سامنا ہے۔ عمران خان جیسا منہ زور سیاسی مخالف ان معاملات کو مسلسل شریف خاندان کی بدعنوانی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ ایسے میں پارٹی کے دوسرے لیڈروں کو موقع دینے اور سیاسی فیصلوں میں حصہ دار بنانے کی بجائے شریف خاندان نے خود ہی دونوں اہم عہدے اپنے پاس رکھنے کا قصد کیا تو دوست دشمن سب کو ہی اس طریقہ کار پر حیرت ہوئی۔ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے اس معاملہ پر سامنے آنے والی پریشانی اور پارٹی میں پیدا ہونے والی ناراضی کو اہمیت دینے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ یہی قیاس کیا کہ ووٹ بنک تو درحقیقت نواز شریف کا ہے، اس لئے جن فیصلوں پر نواز شریف کی تائید حاصل کرلی گئی ہے، انہیں عوام بھی قبول کرلیں گے۔ یہ اندازہ کئی لحاظ سے غلط تھا۔ اب عوام سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے ساتھ وابستگی رکھنے کے علاوہ ان کے فیصلوں کو پرکھنے بھی لگے ہیں۔

عمران خان کو ضرور اس حوالے سے کسی حد استثنیٰ حاصل رہا ہے لیکن ا س کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے عمران خان نے شریف خاندان کو ملکی سیاست میں بدنما داغ بنا کر پیش کیا ہے۔ تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت عمران دوستی کی بجائے شریف خاندان کی دشمنی یا اس کے ہتھکنڈوں کو ناجائز سمجھتے ہوئے ایک نئے سیاسی نعرے کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت میں ملک کے پرانے سیاسی لیڈروں کے خلاف پیدا کی گئی سیاسی فضا کا بھی اہم کردار رہاہے۔ تحریک عدم اعتماد میں وزارت عظمی سے علیحدہ ہونے کے بعد عمران خان نے عوام کی اس ناپسندیدگی کو ابھارنے اور اسے زیادہ مضبوط کرنے کی بھرپور کوشش کی جبکہ لیگی قیادت اس مہم جوئی کی شدت اور اس کے سنگین نتائج کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخاب میں بھرپو کوشش اور سخت انتخابی مہم کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو مایوس کن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کے ساتھ حکمت عملی یا سیاسی نقطہ نظر کے حوالے سے اختلاف یا اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن اگر عوام کی اکثریت کسی لیڈر کی حمایت میں ووٹ دیتی ہے تو جمہوری انتظام میں اسے نہ تو مسترد کیا جاسکتا ہے اور نہ نظر اندازکرکے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی درحقیقت عمران خان کے مؤقف اور سیاسی قیادت پر عوام کے اعتماد کا بھرپور اظہار ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے عوام نے مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کی سیاست کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس کے بعد اگر مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ سیاسی اہمیت حاصل کرنی ہے اور پنجاب میں اپنی پوزیشن کو بحال کرنا ہے تو اسے اپنے غلط فیصلوں اور رویوں کا جائزہ لینا پڑے گا اور ان کی اصلاح کی کوشش کرنا پڑے گی۔ ورنہ ضمنی انتخاب میں سامنے آنے والا رویہ عام انتخابات میں زیادہ شدت سے مسلم لیگ (ن) کی رہی سہی ساکھ ختم کردے گا۔

گزشتہ روز نواز شریف نے بھی کہا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے حامی اور ترجمان بھی یہ مؤقف سامنے لانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پارٹی کو مشکل فیصلے کرنے کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اس سے یہ مراد لی جارہی ہے کہ شہباز شریف نے وزیر اعظم بن کر پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی منڈی کے مطابق اضافہ کیا، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے عوام کو کئی طریقوں سے زیر بار کیا جس کی وجہ سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہؤا۔ حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے ناگزیر تھے۔ اگرچہ یہ سوال بھی کیا جاتا رہے گا کہ اگر اتحادی حکومت کے لیے مشکل معاشی فیصلے کر نا ناگزیر تھا تو اس کے لئے شہباز شریف نے بڑھ کر اپنا کاندھا کیوں پیش کیا؟ اتحاد میں شامل دوسری جماعتوں کو یہ ذمہ داری لینے اور اس کی سیاسی قیمت بانٹنے پر کیوں آمادہ نہیں کیا گیا۔ لیکن ا س بحث سے قطع نظر ضمنی انتخاب کی حد تک اس دلیل کو مکمل سچائی کے طور پر قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اقربا پروری کے علاوہ سیاسی مؤقف تبدیل کرنے کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اب ان غلطیوں کی حجت تلاش کرنے کی بجائے، ان سے سبق سیکھنے اور واضح سیاسی مؤقف کے ساتھ عوام کے سامنے آنا ضروری ہوگا ورنہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی ساکھ کو پہنچنے والا موجودہ نقصان شدت اختیار کرے گا جس کے نتیجہ میں یہ پارٹی ملکی سیاسی منظر نامہ سے غائب ہوسکتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کی حکومت کے دوران د وبنیادوں پر مہم جوئی کی تھی۔ اوّل یہ کہ عمران خان کو اسٹبلشمنٹ نے نامزد کیا ہے اور اسی کی مدد سے تحریک انصاف 2018 کے انتخابات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس لئے یہ منتخب نہیں بلکہ نامزد حکومت ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس مہم جوئی کا دوسرا نکتہ یہ تھا عمران حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں اور سیاسی عاقبت نااندیشی نے ملک کو معاشی تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک معاشی طور سے تباہ اور سفارتی طور سے دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا۔ تاہم پی ڈی ایم کو عمران خان کے خلاف اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب اسٹبلشمنٹ نے ’غیرجانبدار‘ ہونے کا اعلان کیا اور تحریک انصاف کی حلیف جماعتیں قلابازی کھا کر شہباز شریف کاساتھ دینے پر راضی ہوگئیں۔ اسی ’غیر جانبداری‘ کو عمران خان درحقیقت اسٹبلشنٹ کی حمایت سے ملک پر بدعنوان عناصر کی امپورٹد حکومت مسلط کرنا قرار دیتے ہیں۔

صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ جو دو دلیلیں مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف کے خلاف استعمال کرتی تھی، وہی دونوں دلائل استعمال کرکے عمران خان نے اس پارٹی کو پنجاب میں شکست فاش سے دوچار کیا ہے۔ پہلے عمران خان نامزد تھے اب شہباز شریف امپورٹد وزیر اعظم بن گئے۔ پہلے مسلم لیگ (ن) بڑھتی ہوئی مہنگائی کو تحریک انصاف کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتی تھی۔ اب مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کو شہباز شریف اور دوسری بڑی اتحادی جماعتوں کی بدنیتی اور بدعنوانی سے ملا کر پیش کر دیا گیا۔ گویا جو دلائل تین ساڑھے تین سال کی محنت سے مسلم لیگ (ن) نے عوام کو ازبر کروائے تھے، عمران خان نے انہی کی بنیاد پر اپنی سیاسی مقبولیت کا محل استوار کرلیا۔

ان حالات میں حمزہ شہباز کے علاوہ شہباز شریف کو بھی فوری طور سے استعفے دے کر عوامی فیصلوں کو ماننے کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ قومی اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں سے کہا جاتا کہ وہ نئے انتخابات کروانے یا نیا سیاسی لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کریں۔ تاہم شاہد خاقان عباسی کے ذریعے یہ بیان دیا گیا ہے کہ انتخابات آئندہ سال سے پہلے نہیں ہوں گے اور شہباز شریف کی حکومت کام کرتی رہے گی۔ نہ جانے اس فیصلہ کی کیا حکمت ہے لیکن یہ اعلان پنجاب کے عوام کی سیاسی رائے کے برعکس ہے۔ یہ حکمت عملی مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور سے تباہ کردے گی۔ پنجاب کے عوام نے دیگر باتوں کے علاوہ اینٹی اسٹبلشمنٹ نعرے کو ووٹ دیا ہے۔ حمزہ شہباز کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ بنی کہ وہ عوامی جد و جہد کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے نمائیندے کے طور پر سامنے آئے تھے۔ اس غلطی کی اصلاح کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) فوری طور سے حکومتی عہدوں سے علیحدہ ہو اور عوام کے پاس جاکر اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرے۔ یہ مان لیا جائے کہ پارٹی کو نواز شریف اور شہباز شریف کے متضاد سیاسی طرز عمل کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔ شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے لئے نواز شریف کو اسی اسٹبلشمنٹ سے مصالحت پر آمادہ کیا جسے وہ اپنے زوال کا سبب قرار دیتے تھے۔ ضمنی انتخاب نے ثابت کیا ہے کہ نواز شریف بھلے اسٹبلشمنٹ کو معاف کردیں لیکن ملکی عوام اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

نواز شریف کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیہ پر واپس آکر از سر نو سیاسی جد و جہد کا آغاز کریں گے یا موجودہ ناقص انتظام کا حصہ بنے رہ کر مسلم لیگ (ن) کی رہی سہی ساکھ کو بھی تباہ کرنے کا موجب بنیں گے۔ ایک ڈیڑھ سال میں پاکستان کی کوئی حکومت ایساکوئی معجزہ نہیں دکھا سکتی کہ عام لوگوں کو معاشی بہتری محسوس ہونے لگے۔ ایسے میں مزید انتظار کرنے کی بجائے فوری طور سے اقتدار چھوڑ کر عوام سے براہ راست مکالمہ کرنے کا وقت ہے۔ یہ وقت گنوا دیاگیا تو عام انتخابات میں ناکامی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی بطور سیاسی جماعت حیثیت ختم ہونے کا خطرہ بڑھتا رہے گا۔ غلط سیاسی فیصلوں پر اصرار سے بہتر ہوگا کہ انہیں مان کر عام انتخابات کی تیاری کی جائے۔ یہ ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی غلطیوں کی وجہ آئیندہ انتخابات میں حکومت بنانے جیسی کامیابی حاصل نہ کرسکے لیکن وہ قومی سیاست میں اپنی شناخت قائم رکھنے میں ضرور کامیاب ہوسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments