خواتین کے لیے تعلیم ضروری کیوں ہے


جب فرانس کی نیشنل اسمبلی میں عورتوں کے حقوق کی بحث ہوئی تو اراکین کی اکثریت نے عورتوں کی آزادی کے خلاف تقاریر کیں اور انقلاب سے بھی پدرسری تعصبات کا خاتمہ ممکن نہ ہو سکا۔ عورتوں کو سیاسی حقوق تو نہیں دیے گئے مگر سماجی حقوق ضرور دیے گئے جن کے مطابق: عورتوں کو طلاق کا حق، وراثت میں ان کا حصہ اور شوہروں پر مقدمہ کرنے کا حق ملا اور اس کے علاوہ تعلیم میں برابری کا حق بھی ملا۔ جب ذکر ہو تعلیم نسواں کا تو نپولین کا کہا ہوا وہ خوبصورت جملہ یاد آ جاتا ہے کہ ”تم مجھے اچھی (تعلیم یافتہ ) مائیں دو، میں تمہیں مہذب اور تعلیم یافتہ قوم دوں گا“ ۔ ان چند لفظوں میں نپولین نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو اتنی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ شاید کوئی دوسرا نہ کرپائے۔

تعلیم نسواں کی اہمیت تو طے ہے، جسے دنیا بھر کے ممالک میں تسلیم کیا جانے لگا ہے، اب لڑکیوں کی قابلیت کو چار دیواری کی حدود تک محدود نہیں کیا جاتا بلکہ دنیا بھر میں انھیں خود کو منوانے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا، ”تعلیم ایک طاقتور ہتھیار ہے، جس کی بدولت کوئی بھی قوم دنیا کو تبدیل کر سکتی ہے“ ۔ تو اس ہتھیار کے استعمال کو کیا صرف مردوں کی ذات تک محدود کیا جاسکتا ہے؟ کیا ملک کی نصف آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے اس تبدیلی میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی؟

ہم لوگ آج تک یہ نہ طے کرسکے کہ تعلیم نسواں کس طرح کی ہونی چاہیے، اس قدر تو ہو گیا ہے کہ تعلیم کی ضرورت کو سب نے تسلیم کر لیا ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ خیال ابھی تک ہم پر مسلط ہے کہ عورت ہماری سماجی زندگی میں کم درجہ رکھتی ہے۔

جس طرح انسانی آزادی کی تحریک نے ممالک کو آزاد کرایا۔ حرفتی تحریک نے پیشہ ور کا عقدہ وا کیا اسی طرح ہم بھی عورتوں کے تعلیمی نصاب میں ایک سریع انقلاب چاہتے ہیں تاکہ عورت اس معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے معاشرے کے لئے اہم کردار ادا کر سکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں پر ہمیشہ ظلم، تشدد اور جبر ہوتا رہا اور یہ استحصال کی چکی میں پستی رہی اور پس رہی ہے۔ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے بڑی جدوجہد کی مگر ان کی یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے برابر سیاسی اور سماجی تحریکوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح نے 25 مارچ 1940 کو اسلامیہ کالج میں خطاب کے دوران کہا دنیا میں دو طاقتور چیزیں ہیں ایک قلم، دوسری تلوار اور ان دونوں سے زیادہ طاقت ور عورت ہے۔ ایک اور خطاب میں کہا عورت کے پاس بڑی طاقت ہے وہ بچوں کو صحیح راستے پر ڈال سکتی ہے اس قیمتی اثاثے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ کیو نکہ اثاثے بڑے قیمتی ہوا کرتے ہیں اور دنیا بھر کی قومیں اپنے اثاثوں کی قدر کیا کرتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں تعلیم نسواں کی بات کریں تو 146 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 120 ہے عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے 26 ممالک ہم سے پیچھے ہیں۔ 2000۔ 2001 میں 1.82 فیصد جی ڈی پی عورتوں کی تعلیم کے لیے تھا اور 2006 اور 2007 میں اس کو بڑھا کر 2.4 فیصد کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد عورتوں کی تعلیم میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن پھر بھی یہ دوسرے پڑوسی ممالک سے بہت ہی کم ہے۔

اگر ہم غور کریں تو عورتوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر عورت کو تعلیم دی جائے تو تمدن، معاشرتی، ثقافتی، طرز معاشرت، شائستگی، تہذیب، کسی ایک جگہ مل جل کر رہنا ہی وہ اقدار ہیں جن سے سماجی زندگی کا درخت بار آور ہو گا وہ پھولے پھلے گا، ورنہ وہ درخت بانجھ ہو گا۔

اب وہ زمانہ گیا کہ عورتیں تعلیم سے عاری ہوا کرتی تھیں اور مرد کے ظلم و تشدد برداشت کر کے اس کی لونڈی کا کردار ادا کیا کرتی تھیں۔ اب وہ دور

آ گیا ہے کہ عورتیں علم کے بغیر تاریکی میں نہیں رکھی جا سکتیں، نہ ہی انہیں اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جا سکتا ہے۔ ہماری معاشرتی اور سیاسی زندگی کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ نصف اولاد آدمؑ کو بجائے عاقل اور مکلفہ تسلیم کرنے کے مردوں نے بے بس اور کم درجے کی مخلوق سمجھ رکھا ہے۔ اور اس پر یہ خوف طاری ہے کہ اگر عورت نے تعلیم حاصل کر لی تو اسے اپنے حقوق کا علم ہو جائے گا اور یہ اس کے قبضے سے آزادی حاصل کر لے گی۔ مذہبی رہنماؤں کے بیانات مذہب کا نقطہ نظر نہیں بلکہ پدرسری معاشرے کی ان اقدار کا مشترکہ اظہار ہے جو ان معاشروں میں پنپنے والے تمام مذاہب کا خاصہ ہے کہ عورت کو جہالت کے اندھیروں میں رکھا جائے تاکہ اس کا رعب داب عورت پر مسلط رہے۔

نو آبادیاتی نظام کے تحت مسلم بادشاہت کے خاتمے اور جمہوری نظام کے محدود نفاذ کے بعد مسلم ریاستوں میں پہلی بار مذہب اور ریاست علیحدہ ہوئے اور نوآبادیاتی قابضین کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے برصغیر میں قومیت کی بنیاد پر ریاست اور سیاسی اختیار حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اس عمل نے عورت کو تقویت بخشی اور عورت کو تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ملی

ہمارے ملک میں عورتوں کے بہت سے مسائل ہیں ان کے حل کے لیے اداروں میں عورتوں کی تعداد روز افزوں مرد کے برابر ہونی چاہیے اور خواتین کا علمی درجہ اس قدر بلند ہو کہ وہ مشکلات کو سمجھ سکیں اور ان کو از خود حل کرسکیں۔ مرد ان سے ہزار ہمدردی کریں لیکن عورت کی مہم عورت ہی سر کر سکتی ہے، جو مصیبت اور تکلیف میں مبتلا ہے اور اسے دور کرنے کا احساس رکھتی ہو۔ جس طرح انسانی آزادی کی تحریک نے ممالک کو آزاد کیا۔ اسی طرح خواتین کو بھی ان کے ضروری حقوق دیے جایں

ہمارے سماج میں یہ بہت عام سی صورت حال ہے کہ عورتوں کو تعلیم کے معاملے میں بھی ایک الگ صنف کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ عورت کس طرح کی تعلیم حاصل کرے اور وہ تعلیم حاصل کر لے تو اس تعلیم کا کیا کرے؟ ہمارے بہت سے پڑھے لکھے مرد حضرات بھی عورتوں کی تعلیم کے متعلق نہایت فرسودہ اور دقیانوسی خیالات رکھتے ہیں۔ عورت کو تعلیم کا حق دینے میں بھی ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے ( جس میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہیں ) کہ عورتوں کو تعلیم کی خاص ضرورت نہیں چونکہ وہ معاشرے کا فعال کردار ادا نہیں کر سکتیں لہٰذا انھیں تعلیم کی سختیاں برداشت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ طبقہ اپنے سخت گیر تصورات سے بچنے کے لیے عورتوں کی معمولی یا ابتدائی تعلیم کے حق میں رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں وڈیرہ نظام جس کے تحت بھی ملک کے کچھ علاقوں میں عورتیں تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کے یہ وڈیرے نہیں چاہتے کہ خواتین پڑھ لکھ کر ملازمتیں حاصل کر لیں اور ان کے مدمقابل آ جائیں جو کہ ایک منفی سوچ ہے۔ وہ عورت کو صرف گھر کے کام کاج، کھیتی باڑی میں مد و معاون، بچے پالنے اور ان کی نگہداشت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر جس سے عورتوں کی تعلیم پر قدغن لگائی جاتی ہے جو سوائے دماغ کی خلجانی ذہنیت کی عکاس ہے۔ ہمارے قومی لیڈران کی یہ حالت ہے کہ سیاسی مطمح نظر میں آسمان سے تارے توڑ لانے پر تو تیاری ہے مگر معاشرتی نقطۂ نظر سے دیکھیے تو خواتین کی ترقی کے بارے میں کوئی پروگرام نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments