بدلتے مداریوں کے ساتھ پرانا تماشا


ہمارے ملک میں خلقت کثیر کو گمراہ کرنے اور اپنے مقاصد اصلی سے غافل رکھنے رکھنے کے لئے طاقت کے سرچشموں کی طرف سے ہر دور میں ایسے مداری میدان میں اتارے جاتے ہیں، جو تماشا لگانے اور لفاظ کی مرصع کاری سے عوام الناس کی توجہ اپنی جانب مبذول کر کے ان کو حقیقت سے بے خبر رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ بظاہر یہ تماشے علم و دانش کے عنوان سے منعقد کیے جاتے ہیں، جن سے بظاہر یہی تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ فلاح کا اصل راستہ یہی ہے، لہذا وہ لوگ جو شعور کی صفت سے محروم اور جذبات کے تلاطم سے مغلوب ہوتے ہیں وہ بلا جبر و اکراہ ان مداریوں کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کی اختلافی سوچ کے لئے بند کر دیتے ہیں۔

آپ قدرت اللہ شہاب کو دیکھ لیجیے، یا اشفاق احمد کو پڑھیے، صوفی با صفا واصف علی واصف ہوں، یا مولانا طارق جمیل، گوجر خان کا احمد رفیق اختر ہو یا قاسم شاہ، ان سب کے افکار و نظریات کا آپ مطالعہ فرما لیجیے یا ان کے ارشادات عالیہ کو سن لیں ان کے ہاں ایک واضح قدر جو قدر مشترک کہی جا سکتی ہے وہ عقل دشمنی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ ہر شخصیت یا نظریے کا ایک عہد ہوتا ہے، جس کے بعد اس کا سحر ٹوٹ جاتا ہے۔ لہذا ان تماشوں کو جاری رکھنے اور ان کھوکھلے نظریات سے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً نئے مداری تیار کر کے میدان میں اتارے جاتے ہیں، جو انہی خیالات کو عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرتے ہیں۔

اس کی تازہ مثال حالیہ دنوں میں دیکھنے کو ملی، جب ایک نو عمر لڑکا حماد صافی کوہاٹ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے سامعین سے کہہ رہا تھا کہ اس نے اسلام، قرآن اور پاکستان کو اکٹھے نازل ہوتے دیکھا ہے، اور سامعین اس کی اس نئی دریافت پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا کر داد دے رہے تھے۔ اب ان تین حقائق کا آپس میں کیا تعلق ہے، یہ سوال اٹھانا شجر ممنوعہ ہے۔ چونکہ ان افراد کا کام عوام الناس کو غفلت میں اندھیرے میں رکھنا ہوتا ہے، مبادا ان کا شعور بیدار ہو جائے اور یہ سوال کرنے کی جسارت کر بیٹھیں اس کے لئے عموماً ان کی ہر محفل میں عقل کی تحقیر اور عشق کی تحسین کے اوپر زور دیا جاتا ہے۔

ان کے یہاں عشق ہی وہ محرک ہے جس کے ماتحت یہ نظام کائنات رو بہ سفر ہے، اور عقل ( شعور) گویا وہ عامل ہے، جو ایک عاشق صادق کے راستے میں جابجا رکاوٹیں کھڑی کر کے، اس کے مسلمان سے مومن بننے تک کے سفر میں مزاحم ہوتا ہے۔ انسان کو مذہب کی راہ سے جبر کا قائل کرنا، مجہول الاسم صوفیاء کی لایعنی ریاضتوں اور عبادات کے افراط پر مبنی قصص، غوث قطب ابدال قلندر جیسے عہدوں کی تقسیم اور نظام کائنات کا ان رجال کے ماتحت ہونا، قوانین فطرت کے مطالعہ کی بجائے کہانیوں سے دل بہلانا، اولی الامر کی بلا مشروط اطاعت، مقفع مسجع مگر غور و فکر سے عاری اصطلاحات کا استعمال، عشق رسول کی راہ میں عقل کو سب سے بڑا دشمن گرداننا وغیرہ وہ نظریات ہیں، جن کو پڑھ کر یا سن کر ایک عام انسان واقعی ان سے متاثر ہوجاتا ہے اور پھر وہ راضی بہ رضا کے سنہری اصول کو قلب صادق کے ساتھ تسلیم کر کے جدوجہد سے دستبردار ہوجاتا ہے۔

مثلاً واصف صاحب مرحوم کی قبر پہ جو کتبہ نصب ہے، اس پہ یہ عبارت کندہ ہے کہ پاکستان نور ہے، اور نور کو کبھی زوال نہیں۔ بظاہر یہ عبارت کتنی خوشنما، اسلامی اور امید افزا دکھلائی دیتی ہے، مگر کیا حقیقت اس بات کی تصدیق کرتی ہے؟ یہ کیسا نور ہے جس کا چراغ قریب دس لاکھ انسانوں کے خون سے جلا گیا ہے؟ یہ کیسا نور ہے جس کا ایک حصہ چوبیس برس بعد جائز حق نہ ملنے کے سبب اس سے علیحدہ ہو گیا، اور کیا اس کے بطن سے جنم لیا گیا وہ خطہ بھی نور ہی مانا جائے گا یا وہ ظلمت کا استعارہ ہے؟

اب اگر ان سوالات کے جواب تلاش کیے جائیں تو ایسی کوئی بھی چیز تہہ میں نظر نہیں آتی، مگر ہمیں چونکہ عشق سے دوستی اور عقل سے دشمنی کا سبق پڑھایا گیا ہے لہذا ہم وہی مانیں گے جو اس کے موافق ہو۔ اس کے علاوہ ان نیم ملاؤں اور نیم صوفیاء کی جانب سے جس بات پر شدت سے زور دیا جاتا ہے، وہ انفرادی اصلاح کی تلقین اور اجتماعی رویے اور رجحان سے منہ موڑ نا ہے۔ لہذا ان کا کل اسلام اور معراج عبادت یہی ہے کہ آپ سب کے لئے سراپا خیر بن جائیں، اور آپ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔

مگر کوئی دوسرا معاشرے میں اجتماعی فساد برپا کیے رکھے، تو اس وقت میں آپ نے کیا کرنا ہے اس کا جواب ان کے ہاں ندارد ہے۔ یہ خود ساختہ دانشور اس بات کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں کہ کیا انفرادی اصلاح کے کلیے پر عمل پیرا ہو کر کل معاشرے کی اصلاح ممکن ہے؟ اگر یہ ممکن ہوتا تو کوئی بھی معاشرہ یا ملک قانون بنانے کی زحمت کیوں کرتا۔ کیونکہ قانون وہ طاقت ہے جو معاشرے میں توازن قائم کر کے، کل افراد معاشرہ کو احساس تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مابین ذمہ داریوں کو منقسم کرتی ہے تاکہ کوئی بھی زبردست کسی زیر دست کے حقوق غصب نہ کرسکے۔

تاہم ایک ریاست اور اس کے شہری میں کیا رشتہ ہونا چاہیے، عوام کو اپنے حاکم کے چننے کا اختیار کیسے دیا جائے، صحت، تعلیم، انصاف اور روزگار کے یکساں مواقع کل افراد معاشرہ کے لئے کیسے پیدا ہوں، ہمارا سیاسی اور معاشی نظام کیسا ہو، اقوام عالم کے ساتھ ہمارے تعلقات کس نہج پہ قائم ہوں، اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے قیام سے لے کر اب تک جو عوام کی خواہشات کو روند کر ان پر ان کی مرضی کے خلاف جو فیصلے کیے گئے، اس ملک کے دستور کو پامال کیا گیا، یہاں جو لسانی، مذہبی اور علاقائی تفریق پیدا کر کے خون کی ہولی کھیلی گئی ان کرداروں کی نشاندہی کیسے کی جائے، یہ سب جاننے کے لئے آپ ان حکماء کی تمام تحریرات، دروس اور واعظ سن لیجیے آپ کو یہ بحث کہیں نہیں ملے گی۔ اور یہ اچنبھے کی بات ہرگز نہیں، کیونکہ ان خودساختہ اور جعلی دانشوروں کو ہم پہ مسلط کرنے کا مقصد ہی سوال کا گلا گھونٹنا اور جہالت کو فروغ دینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments