چانکیہ کا ”آخری آپشن“ اور ایک یہ آپشن


ریاستی سطح پر جب معاملات ”آخری آپشن“ تک پہنچ جائیں تو یہ اس امر کی غمازی ہیں کہ ریاست تیزی سے ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے یا پھر ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ پاکستانی سیاست میں ”آخری آپشن“ کے حوالے سے کچھ بیان کیا جائے اس سے پہلے قدیم تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کرتے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند یعنی متحدہ ہندوستان کے قبل مسیح کے ممتاز فلسفی، ماہر سیاسیات و معاشیات سمیت درجنوں علوم کے ماہر ”وشنو گپت کوتلیہ چانکیہ“ نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کو متحد کرنے اور ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے لیے ایک عظیم نظریہ پیش کیا جس پر عملدرآمد کے لیے اس کی طرف سے بہت سے حکمرانوں کو اس جانب رغبت دلانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوششیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں۔

بالآخر کوتلیہ چانکیہ کی نظر ایک ایسے نوجوان پر پڑی جسے تاریخ ”چندر گپت موریا“ کے نام سے جانتی ہے۔ شہرہ آفاق تصنیف ”ارتھ شاستر“ کے خالق وشنو گپت کوتلیہ چانکیہ نے اپنے عظیم نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے نا صرف چندر گپت موریا کو ”آخری آپشن“ کے طور پر پیش کیا بلکہ اس کی سیاسی و حربی اعتبار سے غیر معمولی تربیت بھی کی۔ یہی وجہ ہے چندر گپت موریا نے اپنے عظیم استاد کوتلیہ چانکیہ کی مدد اور مشورے سے پنجاب اور مگدھ جیسی بڑی ریاستوں کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان میں ایک عظیم حکومت قائم کی۔

کوتلیہ چانکیہ جو کہ ایک عظیم فلسفی تھا لیکن اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ اپنی زندگی میں ”کفایت شعاری“ کو بڑی اہمیت دیتا تھا، یعنی اس نے اپنی پوری زندگی سادگی سے گزاری اور رہائش کچے مکان یا جھونپڑی میں رکھی۔ یاد رہے قدیم ہندوستان کے اس عظیم فلسفی ”وشنو گپت کوتلیہ چانکیہ“ کا تعلق پاکستانی شہر ٹیکسلا سے تھا۔

ریاستوں میں ”آخری آپشن“ کا نظریہ آج بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ نظریہ ترقی یافتہ اور مہذب ریاستوں میں دم توڑ چکا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک بالخصوص ایشیائی ممالک میں یہ نظریہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سماج میں بھی وقفے وقفے سے ”آخری آپشن“ کے طور پر بہت سی شخصیات کو پیش کیا جاتا رہا ہے یا پھر خود سے کوئی اپنے آپ کو آخری آپشن کے طور پر متعارف کرانا پسند کرتے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے متحدہ پاکستان میں بہت سے لیڈر پیدا ہوئے اور بہت سوں کو لیڈر بنا کر پیش کیا گیا لیکن اس بحث سے ہٹ کر متحدہ پاکستان کا آخری لیڈر ”شیخ مجیب“ کو کہا جاسکتا ہے جس کے ساتھ پورا مشرقی پاکستان کھڑا تھا لیکن مغربی پاکستان میں کوئی ایک لیڈ ر ایسا نہیں تھا جسے اس طرح کی مقبولیت اور اہمیت حاصل ہو۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور تحریک استقلال کے چیئر مین ائر مارشل (ر) اصغر خان کی بات ہے تو یہ دو الگ الگ سیاسی نظریہ کی بنیاد پر عوام میں مقبولیت رکھتے تھے لیکن ان میں کسی ایک کو بھی ”قومی لیڈر“ کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔ اس کے باوجود سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے لیے آخری آپشن کے طور پر پیش کیا گیا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنے سوشلزم کے حامل نظریات میں جاگیردارانہ سوچ کی آمیزش نہ ہونے دیتے تو وہ ایک کامیاب آپشن ہوسکتے تھے، بہر کیف اس آخری آپشن کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے موجود ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ پاکستان میں پہلے مارشل لاء سے لے کر جنرل (ر) پرویز مشرف تک کے مارشل لاء تک آئین کو معطل کرنے سے اس کے خاتمہ تک کے تمام تر معاملات کو ”آخری آپشن“ کے تصور کے ساتھ جواز دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح ماضی میں بعض سیاسی رہنماؤں کی طرف سے خود کو ”نجات دہندہ“ اور ”مسیحا“ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے لیکن جس طرح سابق وزیر اعظم عمران خان کو جس انداز سے ”آخری آپشن“ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔

2018 کے عام انتخابات میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو قوم کے لیے آخری امید کے ساتھ میدان میں اتارا گیا، اور اس طرح انھیں مسند اقتدار پر بھی بٹھایا گیا۔ اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں عمران خان کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکے اور انھیں ”آخری آپشن“ کے طور پیش کرنے والے بھی ایک وقت پر آ کر بہت حد تک حیران و پریشان ہوئے ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی کے لیے ”آخری آپشن“ کا نظریہ اپنانا کوئی معیوب نہیں ہے لیکن جس شخصیت کو ”آخری آپشن“ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اس میں اپنی اہلیت کتنی ہے اور اس کی تربیت کس حد تک کی گئی ہے، کیا ایسے کسی کردار کو عظیم فلسفی ”وشنو گپت کوتلیہ چانکیہ“ جیسا اتالیق میسر ہے جو نا صرف نظریہ رکھتا ہے بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مکمل منصوبہ بندی و حکمت عملی (ہوم ورک) بھی رکھتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی آپشنز پیش کیے گئے یا متعارف کرائے گئے، کیا انہیں مکمل تربیت و تیاری کے ساتھ میدان میں اتارا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جو آپشنز پیش کیے جاتے رہے ہیں اس کا نتیجہ ”کیف عظیم آبادی“ کے اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں :

نکل آئے تنہا تری رہگزر پر
بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments