پاکستان کا معاشی بحران کیسے ختم ہو گا؟


معیشت کے بارے میں رآئے دینا بہت مشکل کام ہے مگر پاکستان میں ہر ایک کو یقین ہے کے فلاں سیاستدان تو ملک کی معیشت کو بہت اوپر لے گیا تھا مگر پھر فلاں نے ڈبو دیا۔ میں نے پچھلے دنوں اپنے ایک دوست سے جو کہ پاکستان کی صف اول کی یونیورسٹی میں اکانومی کے پروفیسر ہیں پوچھا کہ اکانومی کیا چیز ہے؟ کیا عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کی معیشت مضبوط ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر یہ سوال میں ایک عام پاکستانی سے پوچھتا تو وہ اپنی سیاسی پارٹی کے مطابق پورے اعتماد سے ہاں یا نا میں جواب دیتا۔ مگر پروفیسر صاحب نے ہاں یہ نہ میں جواب دینے کی بجائے اکانومی کے ایسے الفاظ کا استعمال شروع کر دیا جو میرے جیسے بظاہر اعلی تعلیم یافتہ انسان کے لئے بھی ناقابل فہم تھے، اور کوئی کم پڑھا لکھا آدمی سن لیتا تو اس کو یہی معلوم ہوتا کہ یہ پروفیسر غالباً فارسی میں گفتگو فرما رہے ہیں۔

میں نے پروفیسر صاحب سے دوبارہ درخواست کی کہ آسان الفاظ میں بتائیں کہ کون سے سیاستدان نے معیشت کو فائدہ پہنچایا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس بات کا آسان جواب نہیں ہے کیونکہ اکنامکس ریاضی کی طرح غلط یا صحیح میں کام نہیں کرتی۔ بلکہ مذہب، سیاست یا دیگر معاشرتی علوم کی طرح سے اکانومی میں ہر ایک کا اپنا اپنا نظریہ ہے اور ہر ایک کی اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔ اور دوبارہ وہی گمبھیر گفتگو شروع کر دی کہ فلاں کام تو فلاں نے بہت اچھا کیا تھا لیکن بیچ میں اگر ایسے نہ ہوتا تا تو یہ ہو جاتا۔ اور فلاں نے فلاں چیز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جو کہ اچھی سٹریٹیجی تھی مگر پھر فلاں چیز بے قابو ہو گئی تو الٹا پڑ گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔

مگر گلی کے نکڑ پر بیٹھے، سگریٹ پیتے، اور ٹی وی دیکھتے عبدالودود کو سب پتہ ہے کہ کس سیاستدان نے کتنا کھایا ہے اور کون کون وطن عزیز کا مسیحا ہے۔

معاشیات کے بنیادی اصولوں سے لا علمی کے باوجود معیشت پر لیکچر دینا ہماری قوم کا ہی خاصہ ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک امر ہماری قوم کا معیشت کی بجائے انٹرنیشنل قوتوں سے پنجہ آزمائی کرنے میں انٹرسٹ ہے۔ ہمیں وہ ملک اچھے لگتے ہیں جن کے حکمران مغرب مخالف ہوں چاہے وہ اپنی ہی عوام کا خون کیوں نہ چوس رہے ہوں۔ ہمیں وینزویلا اور کیوبا اچھے لگتے ہیں۔ ہمیں صدام حسین اور معمر قذافی اپنی ناقص معلومات کی بنا پر ہیرو نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اپنے ممالک کے لوگ ان کی کرپشن، عیاشی اور غیر ذمہ داری کی داستان سناتے نہیں تھکتے۔ حتیٰ کہ ہمارے بعض لوگ ہٹلر کی توصیف کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمارے تمام مسائل کی ذمہ دار بیرونی قوتیں ہیں۔ اس لئے ہم بیرونی قوتوں سے مقابلہ کرنے پر زیادہ فوکس کرتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر ہماری خارجہ پالیسی انڈیپنڈنٹ ہو جائے تو ہمارے ملک کی معیشت بھی راتوں رات ٹھیک ہو جائے گی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک غریب ملک ہیں۔ جو ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں وہ کسی بھی حالت میں غریب نہیں ہوتے۔ ان کا گزارہ تیل بیچ بیچ کر چلتا رہتا ہے۔ مگر ہمارے پاس ایسے کوئی وسائل نہیں ہیں۔ ہم محلے کا وہ گھر ہیں کہ جس نے سب کا قرضہ بھی دینا ہے جس کے بچے بھی سب سے زیادہ ہیں اور جس کی کمائی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

ہمیں سب سے پہلے اپنی کمائی کا کوئی مضبوط ذریعہ بنانا چاہیے۔ جب ہماری کمائی اچھی ہو جائے گی تو محلے کے لوگ خود بخود ہماری بات کو کبھی کبھی سن لیا کریں گے۔ ہمارا مسئلہ کمائی نہ ہونا ہے اور اس کی وجہ ہماری اپنی سستی ہے۔ نہ پڑوسن نے ہمارے اوپر جادو کیا ہے اور نہ ہی ہم محلے والوں کی نظر بد کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اسباب پیدا نہیں کرسکے کہ جن سے کمائی ہو سکے۔ ہمیں اپنی کمائی بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم دیگر کو کوسنے کی بجائے اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ میری نظر میں کمائی بہتر کرنے کا بہترین ذریعہ بچوں کی تعلیم و تربیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments