شہباز شریف: مجھے کس نے دھکا دیا


یہ ایک خوشگوار شام کا ذکر ہے جب ایک بحری جہاز کے عرشے پر مسافروں کی ایک بڑی تعداد سمندر میں اٹھنے والی بلند لہروں اور ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ کر رہی تھی کہ اچانک ایک خاتون مسافر نے شور مچا دیا کہ اس کا بچہ سمندر میں گرگیا ہے اور کوئی ہے جو اس کو بچائے۔ لیکن بلند ہوتی ہوئی سمندری لہروں کی موجوگی میں کسی مسافر کی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس جان جوکھوں کے کام کو سرانجام دے کہ اچانک ایک نوجوان مسافر نے بلا خوف و خطر سمندر میں چھلانگ لگا دی اور ڈوبتے ہوئے بچے کو بچا لیا۔ تمام مسافر اور بچے کی ماں نوجوان کی تعریف و ستائش میں مصروف تھے۔ جب ایک شخص نے نوجوان سے ان جذبات اور احساسات کو بیان کرنے کو کہا جس کے تحت اس نے سمندر میں کودنے کا فیصلہ کیا تھا تو نوجوان نے نہایت غصے سے جواب دیا کہ جذبات تو وہ بعد میں بیان کرے گا لیکن پہلے یہ تو پتہ چلے کہ اسے سمندر میں دھکا کس نے دیا تھا۔
قارئین کرام کہنے کو تو یہ محض ایک لطیفہ ہے لیکن درحقیقت یہ لطیفہ موجودہ وزیراعظم اور ان کی جماعت کی مکمل ترجمانی کر رہا ہے جو 17 جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات میں ایک عبرت ناک شکست کے بعد اس شخص یا ادارے کی تلاش میں ہیں جس نے انہیں اس وقت ایوان اقتدار میں دھکا دے دیا جب سابق وزیراعظم عمران خان ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب اپنی مقبولیت کی کم ترین سطح پر تھے اور وسط مدتی انتخابات کچھ دور دکھائی نہیں دیتے تھے۔
پاکستان کا ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتیں بغیر کسی ذمہ داری اور عوامی جوابدہی کہ ملک میں کووڈ کے بعد سپر کموڈٹی سائیکل کے زیر اثر غذائی اجناس، تیل، گیس، اور کوئلے کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے اور ملک کی معیشت پر اس وجہ سے تیزی سے پڑتے ہوۓ منفی اثرات اور افراط زر میں ناقابل یقین اضافے کا اطمینان سے نظارہ کرتے ہوئے ان سب عوامل کو اس وقت کی حکومت کے خلاف عوامی جذبات اور غیظ و غضب کو مزید ابھارنے کی مہم میں مصروف تھیں اور اس کامیاب حکمتِ عملی کے باعث انہوں نے باآسانی سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا تھا۔ بدقسمتی سے اس تمام تر مہم میں انہیں ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے اور ان نام نہاد معاشی ماہرین کا بھرپور ساتھ حاصل تھا جو سرِ شام ٹی وی کی سکرین پر اپنی تمام تر توانائیاں اس وقت کی حکومت پر نالائقی اور نااہلی کے الزامات عائد کرنے  میں مصروف تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اُن میں سے بہت سارے ماہرین ماضی کی حکومتوں میں متعدد بار اہم ذمہ داریاں نبھا چکے تھے جہاں ان کی کارکردگی انتہائی اوسط درجے کی تھی۔
اس تمام تر پس منظر میں مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا وسط مدتی انتخابات کا بیانیہ دن بدن مضبوط ہو رہا تھا۔ فروری 2022 میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے وسط مدتی انتخابات اور مسلم لیگ کی سینئر نائب صدر مریم نواز صاحبہ نے مہنگائی مکاؤ مہم کے سلسلے میں بالترتیب کراچی اور لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا اور ابھی یہ  مارچ ختم بھی نہیں ہوئے تھے کہ متحدہ حزب اختلاف  نے  مارچ کے پہلے ہفتے میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی جو بالآخر ایک ہنگامہ خیز مہم جوئی اور عمران خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کے باوجود سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت آدھی رات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں منظور کرائی گئی۔
ملک کے تمام مقتدر سیاسی حلقے اس بات پر پر اُمید تھے  کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے ملک کو عام انتخابات کی جانب لے جائیں گے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی پذیرائی نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ لازم تو یہ تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران کو حل کرنے کی طرف اپنی تمام تر توجہ اور توانائی صرف کرتے لیکن انہوں نے توقعات کے عین برخلاف اپنی توجہ کا مرکز زیرِ تکمیل ترقیاتی منصوبوں کو بنا لیا جہاں وہ  صبح شام مصروف ہونے کا ناٹک کرتے رہے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے نیب قوانین میں من پسند ترامیم کے ذریعے اپنے اور اپنے ساتھیوں پر ممکنہ نہ اہلی کی لٹکتی ہوئی تلوار کو دور کرنے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں سے ووٹ دینے کے حق کو بھی چھین لیا۔
 دوسری جانب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف نے بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مشہور مقولے کے مُطابق سابقہ حکمران جماعت کے 25 اراکین اسمبلی کو توڑ کر پنجاب میں اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف ان کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا بلکہ ان کے وزیر اعلی کے اختیارات پر بھی بڑی قدغن لگا دی۔ حمزہ شہباز 17 جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات میں بھاری  ہزیمت اٹھانے کے بعد آج کل ان مہربانوں کی تلاش میں ہیں جنہوں نے انہیں طاقت کے ایوانوں میں تمام تر زمینی حقائق اور سیاسی اور اخلاقی اصولوں کے عین برعکس دھکا دے دیا تھا۔
اس تمام تر صورتحال میں وزیراعظم کو اقتدار میں دھکا دینے والی قوتوں نے ان سے انتہائی سخت شرائط پر آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی کروا لیا ہے جس کے تحت ملک میں تیل، گیس، بجلی، اور دیگر اشیائے خورد ونوش میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس نے عوام الناس جو بہت پہلے سے ان کے وزیراعظم بننے کے عمل  اور من پسند قانون سازی سے نالاں تھے مکمل طور پر لاتعلق کر دیا جو 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں ان کی عبرتناک شکست پر اختتام پذیر ہوا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے لیے یہ تمام تر صورتحال  نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق ہے کیونکہ اگر وہ عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبہ کو مان لیں تو ان کی شکست انتہائی واضح ہے اور اگر وہ وزیراعظم کے عہدے سے چپکے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ان کے اپنے لائے ہوئے اینٹی گروتھ بجٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ وسیع بےروزگاری مسلم لیگ نون کی پہلے سے ہی ہچکولے لیتی ہوئے کشتی کو بہت جلد غرقاب کر دے گی۔
ہماری وزیراعظم شہباز شریف سے بہرحال گزارش ہے کہ وہ ایک محب وطن سیاست دان کی طرح اس تیزی سے بگڑتی ہوئی  صورتحال  میں ملک کی سالمیت اور معاشی بقا کے لیے فلفور عام انتخابات کا اعلان کر کے گھر واپس چلے جائیں کیونکہ انکی کمزور صحت اور بڑھتی ہوئی عمر ان سے اطمینان اور مکمل آرام کی متقاضی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ شاید ان افراد اور قوتوں کو بخوبی سمجھ سکیں گے جنہوں نے انہیں نہایت نامناسب حالات میں ایوان وزیراعظم میں دھکیل دیا تھا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments