آپ کی وہ پسندیدہ عادات جو آپ کو انجانے میں تھکا بھی دیتی ہیں


Getty Images
کیا آپ واقعی اس قدر تھک چکے ہیں کہ آپ کے لیے اپنی کیفیت بیان کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے حالانکہ آپ نے یہ تسلی بھی کر لی ہے کہ آپ کو کوئی طبی مسئلہ درپیش نہیں۔

ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے ہی ماہرین کے تمام مشوروں پر عمل کر چکے ہوں، یعنی متوازن خوراک کھائیں، ورزش کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ آپ کی نیند پوری ہو لیکن پھر بھی آپ کی تھکاوٹ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اوپر دیے گئے مشورے اپنی جگہ لیکن ہماری روز مرہ کی کچھ ایسی عادتیں بھی ہیں جو ہمارے خیال میں تھکاوٹ کا باعث نہیں بنتیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں بھی ہمیں تھکا دیتی ہیں۔

ان میں سے کچھ تو ہماری جانی پہچانی ہیں، مثلاً بہت دیر تک غلط انداز میں بیٹھے رہنا یا وقت پر کھانا نہ کھانا، وغیرہ۔

ماہرِ نفسیات اوما نائڈو اور ذہنی امراض کی ماہر رینا مافی کا کہنا ہے کہ وہ تمام چیزیں جو ہم سوچ کر نہیں کرتے، مثلاً دماغ پر دباؤ کے وقت غلط طریقے سے سانس لینا یا اپنے کمپیوٹر پر بہت سی چیزیں ایک ساتھ کھولے رکھنا، یہ بھی ایسی حرکات ہیں جو ہمیں تھکا دیتی ہیں۔

لیکن کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو تھکاوٹ کا سبب بنتی ہیں اور ہم ان سے زیادہ واقف نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے ہم نے لیلا آر مگاوی سے بات کی جو ذہنی امراض کے ماہر ہیں اور مائنڈ پاتھ کے نام سے کیلیفورنیا میں ایک مرکز بھی چلاتے ہیں۔

ٹی وی سیریز، فلمیں اور خبریں

ٹی وی پر ڈرامے، سیریز یا فلمیں دیکھنا ایک ایسی چیز ہے جو ہم اپنا دھیان بٹانے یا ریلیکس کرنے کے لیے کرتے ہیں لیکن پھر ڈاکٹر مگاوی جیسے ماہرین اس کا شمار ایسی چیزوں میں کیوں کرتے ہیں جو تھکاوٹ کا باعث بنتی ہیں؟

اس کے جواب میں ڈاکٹر مگاوی کہتے ہیں کہ ’بطور انسان، ہم ایک ایسی مخلوق ہیں جس میں جذبات ہوتے ہیں اور ہم میں سے اکثر لوگ ڈرامے یا فلم کے کرداروں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے خود جذباتی ہو جاتے ہیں۔ یہ کردار ہمیں ہمارے اپنے دکھوں اور بُرے تجربات کی یاد دلاتے ہیں، ہمارے اندر پائی جانی والی کمی، کمزوری، عدم تحفظ اور اس قسم کے دوسرے جذبات کا احساس دلاتے ہیں جس سے ہم غمزدہ ہو جاتے ہیں یا ہم بے چینی، خوف یا غصے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ہمارے ذہن کو متاثر کر سکتی ہیں۔‘

Getty Images

’اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر آپ بہت زیادہ ڈرامے وغیرہ دیکھتے ہیں اور آپ کو نہیں لگتا کہ آپ ان کرداروں کے بارے میں سوچ رہے ہیں، تو یہ بات درست نہیں بلکہ یہ جذبات ہمارے اندر سرایت کر جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر مگاوی کا کہنا ہے کہ ’جب آپ کام کر رہے ہوتے ہیں یا اپنے خاندان والوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں تو مختلف قسم کے یہ جذبات آپ کے دماغ کو نچوڑ دیتے ہیں اور آپ تمام دن تھکے تھکے رہتے ہیں مگر آپ کو پتا نہیں چلتا کہ اس تھکاوٹ کی وجہ کیا ہے۔‘

ڈاکٹر مگاوی کا مزید کہنا تھا کہ آپ پر اسی قسم کی کیفیت خبریں پڑھنے یا خبریں دیکھنے کے بعد بھی طاری ہو سکتی ہے کیونکہ ’خبریں آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔‘

تاہم ڈاکٹر مگاوی کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ٹیلی ویژن دیکھنا یا خبریں پڑھنا کوئی خراب بات ہے۔

اس کا علاج کیا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ’اس تھکاوٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے میری تجویز یہ ہے کوئی چیز پڑھنے یا دیکھنے کے بعد، اس کے بارے میں سوچیں اور اس کے حوالے سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار لکھ کر کریں، یا کسی دوست یا گھر کے فرد سے بات کریں کہ آپ کیا سمجھتے ہیں۔‘

ڈاکٹر مگاوی کہتے ہیں ’یوں جذبات اور خیالات کو آپ کے ذہن سے نکلنے کا موقع مل جاتا ہے، وہ آپ کے ذہن پر نہیں چھائے رہتے اور یوں آپ کی ذہنی توانائی کو متاثر نہیں کرتے۔‘

لیکن آپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہمیشہ اپنا خیال کرتے رہیں، کیا اس کا کوئی بہتر طریقہ بھی ہو سکتا ہے؟

GETTY IMAGES

ڈاکٹر مگاوی کا کہنا ہے کہ ’ایک اچھا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ خود اپنی ذہنی صحت کا جائزہ لیتے رہیں اور خود سے پوچھیں کہ یہ خبر یا ڈرامہ دیکھنے کے بعد میرے اندر کس قسم کے خیالات یا جذبات پیدا ہوئے؟‘

وہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک آسان ترکیب ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر آپ نے ابھی ابھی بچوں کی مشہور فلم ’لائن کِنگ‘ دیکھی ہے اور آپ غمزدہ ہیں کہ سمبا کا باپ مر گیا ہے، ہو سکتا اس سے آپ اپنے کسی پیارے کی موت کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو جائیں۔ لیکن اگر آپ خود اپنے ذہن کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کو یہ احساس ہو گا کہ دنیا میں ہر شخص اس کوشش میں ہے کہ وہ صحت مند رہے۔

ڈاکٹر مگاوی نے کہا کہ ’اس قسم کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے آپ کو اپنے ذہن کو یہ سمجھانے میں مدد مل سکتی ہے کہ آپ جذبات کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں اور خود کو ذہنی پریشانی سے بچا کر رکھیں۔‘

Getty Images

کچھ چیزوں سے ایسا نہیں ہوتا

کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کا اثر اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔

’کتاب پڑھتے ہوئے نہ تو (کپمیوٹر اور موبائل فون کی) سکرین کی روشنی سے آپ کی آنکھوں پر دباؤ پڑتا ہے اور نہ ہی آپ کو سر درد ہوتا ہے بلکہ جب آپ کوئی کہانی پڑھتے ہیں تو آپ اپنے تخیل کی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔‘

’اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ کوئی جذباتی کہانیاں بھی پڑھتے ہیں، تب بھی یہ آپ کے ذہن کے لیے اچھی بات ہے اور ان سے آپ میں مایوسی نہیں پیدا ہوتی۔‘

پسندیدہ کھیل دیکھنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک اور چیز جو ہمارے لیے دلچسپی کا سامان پیدا کر سکتی ہے لیکن اس میں ہماری ذہنی توانائی بھی ضائع ہوتی ہے، وہ اپنے پسندیدہ کھیل دیکھنا ہے۔

ڈاکٹر مگاوی کہتے ہیں کہ ’وہ لوگ جو کسی خاص ٹیم کے بہت بڑے فین ہوتے ہیں وہ میچ دیکھنے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ اپنی پسندیدہ ٹیم یا کھلاڑی کی فتح اور شکست پر یا تو بہت ہی جذباتی ہو جاتے ہیں یا دل ہار بیٹھتے ہیں۔‘

’کوئی بھی جذبہ، چاہے وہ خوشی کا ہو یا غم کا، جب ایک حد سے زیادہ ہو جاتا ہے اس میں آپ کی ذہنی توانائی صرف ہو جاتی ہے۔ انتہائی خوشی کے جذبات سے بھی ہمارے دماغ کے اندر موجود سرکٹ تھک جاتے ہیں، اسی طرح شدید غم کا تعلق بھی پریشانی سے ہوتا ہے، جس سے ہمارے دماغ پر بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ہم تھک جاتے ہیں۔‘

Getty Images

اس کا علاج کیا ہے؟

سب سے اہم چیز یہ جاننا ہے کہ ہم کیا محسوس کر رہے ہیں۔

’اگر آپ بہت پُرجوش محسوس کر رہے ہیں تو خود سے پوچھیے کہ آیا مجھے تھوڑی دیر کے لیے اپنی توجہ ہٹا لینی چاہیے، کوئی سنیک کھانا چاہیے، یا جلدی سے نہا لینا چاہیے۔ مجھے اس وقت اپنے آپ کو ریلیکس کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘

گہرا سانس لیجیے، ایک انگڑائی لیجیے یا تھوڑی دیر چل پھر کے دیکھیے، ہو سکتا ہے آپ بہتر محسوس کرنے لگیں۔

مزید پڑھیے

کیا انسانی ذہانت کا گراف آہستہ آہستہ نیچے آ رہا ہے؟

فرائڈ زندہ ہوتے تو سیلفی کے بارے میں کیا کہتے؟

کیا پیراسیٹامول بھی ہماری شخصیت کو تبدیل کرتی ہے؟

Getty Images

منصوبہ بندی

منصوبہ بندی کا بنیادی مقصد اپنے حالات کو قابو میں رکھنا، زندگی میں باقاعدگی پیدا کرنا اور زندگی میں افراتفری کو شکست دینا ہے۔ لیکن اس میں بھی یہی گڑ بڑ ہے کہ ہم جن چیزوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے ہمارا ذہنی دباؤ کم ہو گا، وہی ہمارے لیے مصیبت بن جاتی ہیں۔

ڈاکٹر مگاوی کے مطابق ’منصوبہ بندی کے حوالے سے بہترین قول یہی ہے کہ جو بھی شے ایک حد سے تجاوز کرتی ہے وہ خرابی پیدا کرتی ہے۔‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ منصوبہ بندی ایک اچھی چیز ہے مگر ایک حد تک۔ اگر آپ مسلسل ایک مصروف نظام الاوقات کے مطابق کام کرتے رہیں گے تو اس سے آپ کی پریشانی میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور آپ کی یادداشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر مگاوی کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ منصوبہ بندی اور کاموں کی فہرستیں بنانے پر اتنے گھنٹے لگا دیتے ہیں کہ زندگی سے لطف اندوز ہونا بھول جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو ہر وقت یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ وہ اپنے شیڈول سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان سے فلاں کام ختم نہیں ہوا۔ ایسے افراد خود کو شاباش نہیں دیتے کہ انھوں نے ایک دن میں کیا کچھ کر لیا ہے۔‘

’اس سے انسان بہت غمزدہ ہو سکتا ہے، ہمت ہار سکتا ہے اور یہ چیز اسے تھکا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ چیز خوابوں میں بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔‘

ڈاکٹر مگاوی کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس کچھ ایسے مریض بھی آئے جنھیں یہ خواب آتا تھا کہ وہ سکول وقت پر نہیں پہنچیں گے، ان سے ہوم ورک ختم نہیں ہو گا۔ انھیں ایسے بہت خواب آتے تھے جن میں وہ اپنے بچپن میں پہنچ جاتے تھے اور انھیں لگتا تھا کہ وہ زندگی میں مسلسل پیچھے رہ گئے ہیں، اور پھر صبح جاگنے پر ان لوگوں کی طبیعت خراب ہو جاتی تھی۔

اس کا حل کیا ہے؟

ڈاکٹر مگاوی کہتے ہیں کہ ’میں ہمیشہ لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ روزانہ پانچ دس منٹ بیٹھ کر یہ سوچیں کہ ان کے آج کے اہداف کیا ہیں، انھیں کون کون سے کام کرنا ہیں۔ اور اگر یہ تمام کام پورے نہیں ہوتے تو ان کے بارے میں زیادہ نہ سوچیں، بلکہ ان کاموں کے بارے میں سوچیں جو آپ نے مکمل کر لیے ہیں۔‘

اس کے علاوہ ڈاکٹر مگاوی یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وقت سے بہت پہلے منصوبہ بندی نہ کریں کیونکہ زندگی ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور یہ چیز اہم ہے کہ ہمارے اندر لچک ہو۔

ڈاکٹر مگاوی کے مطابق ’جب لوگ بہت آگے کی سوچتے ہیں تو ان کی توقع یہ ہوتی ہے کہ ہر چیز ان کے سوچے ہوئے وقت پر ہو گی اور وہ فلاں وقت اپنا ہدف حاصل کر لیں گے۔ لیکن اگر ان کے خاندان، دوستوں میں، یا ان کی ملازمت کی جگہ کوئی چیز بدل جاتی ہے اور وہ اپنا ہدف حاصل نہیں پاتے تو وہ بالکل ہمت ہار جاتے ہیں۔‘

اس پر قابو پانے کی ایک ترکیب یہ ہے کہ صرف ضروری کاموں کی منصوبہ بندی کی جائے، اور باقی جتنا وقت بھی ممکن ہو اس میں کوئی مصروفیت نہ رکھی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments