ڈالر کی پرواز روکنے کے لیے مولانا طارق جمیل سے دعا کروانے میں کیا حرج ہے


کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے، ڈوبتے ہوئے کو تنکا بھی شہتیر دکھائی دینے لگتا ہے بالکل اسی طرح سے ہر بحرانی کیفیت میں ہمیں اپنی دعاؤں یا مناجات پر بڑا مان ہوتا ہے اور ہمارا مذہبی طبقہ بڑے فخر سے دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑ جانے کی اور یہود و نصاری کی تباہی و بربادی کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ سانحہ بلیک ڈیتھ جس کی وجہ سے تقریباً نصف یورپ تباہ ہو گیا تھا اور ہر جگہ انسانی لاشیں بکھری پڑی تھیں اور اس وقت کے پادری بھی دعا و مناجات میں مصروف تھے مگر دعاؤں سے کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔

کوسنے اور بد دعائیں دینے کی رسم آباء آج اکیسویں صدی میں بھی زور و شور سے جاری ہے، اس کے ثبوت میں تازہ ترین مثال کرونا وبا ہے جس کی جنم بھومی چائنا کو تصور کیا جاتا ہے کے دنیا بھر میں پھیل جانے کے بعد ہمارے مذہبی طبقہ نے اس مہلک وبا کو کفار کے ممالک میں واپس پلٹ جانے کی دعائیں دن رات مانگی تھیں تاکہ کفار اس کی لپیٹ میں آ کر تباہ و برباد ہو جائیں اور ہم چونکہ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں اور ہمارا وجود اس کائنات کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔اس لئے خدا ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے تاکہ ہم فقط اپنی دعاؤں کے ذریعے سے دشمن کو یونہی دھول چٹاتے رہیں۔

ہم جیسے سیکولر طرز فکر رکھنے والے لوگ مذہب کو پڑھ کر بھی وہ خاص فہم یا گیان حاصل کرنے کا دعوی نہیں کر سکتے جس خاص مہارت کا دعوی یہ مذہبی پنڈت مستقل طور پر محفوظ رکھتے ہیں اور موم کی ناک کی مانند اپنے ذاتی مفادات یا سہولت کی خاطر جس طرف کو چاہئیں بڑے آ رام سے موڑ لیتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کفریہ فتاوی کا بھی انہیں کوئی ڈر نہیں ہوتا یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو ”فتوی پروف“ ہوتے ہیں بالکل واٹر پروف کلائی واچ کی طرح۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا چیلنج جس سے اس وقت پوری دنیا جوج رہی ہے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں آبادی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اسی موضوع پر کچھ عرصہ پہلے ایک سیمینار ہوا تھا جس کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور ثاقب نثار ”المعروف ڈیم بابا“ نے کی تھی۔ اس سیمنار کی خاص بات یہ تھی کہ آبادی کو کم رکھنے جیسے اقدامات پر لب کشائی کے لیے خاص طور پر بطور مقرر ایم ٹی جے بزنس امپائر کے سربراہ مولانا طارق جمیل کو مدعو کیا گیا تھا۔

عقل حیران تھی کہ فیملی پلاننگ جیسے کفریہ موضوع پر بھلا مولانا طارق جمیل کیا گیان دے سکتے ہیں؟ مگر عقل محو تماشا ہی رہ گئی اور مولانا نے مجلس کے تقاضوں کے عین مطابق اور اس وقت کے ”بڑوں“ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیملی پلاننگ جیسے کفریہ موضوع کو اسلامی ٹچ دے کر اس کا کفریہ ڈنک بڑی مہارت سے نکال ڈالا تھا اور مجمع اس سہولت پر تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔ شروع سے یہ بات سنتے آئے ہیں کہ خدا کے برگزیدہ بندے حکمرانوں کے محلات سے دور رہتے ہیں لیکن مولانا نے ہمارے اس خیال کو بھی باطل کر دکھایا اور وطن عزیز کے ہر حکمران اور طاقت کے ایوانوں میں ذاتی نوعیت کے راہ و رسم بنائے اور خود ان کے دروازوں پر جاکر کلمہ حق بلند کیا۔

اس کے علاوہ بھی مولانا کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے ریاست مدینہ پروجیکٹ میں حصہ ڈالنے کے علاوہ جس حکمران کو بھی کوئی مشکل پیش آئی چاہے اس مشکل کا تعلق حکومتی بزنس سے ہو یا مذہبی تشریحات میں سہولت یا گنجائش پیدا کرنے کے حوالے سے ہو مولانا خود پہنچ کر سہولت کار بننے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ مولانا کو چونکہ رو رو کر قدرت کو مسلمانوں کے حق میں کرنے کا خاص ملکہ حاصل ہے۔ کرونا وبا کے دنوں میں مولانا نے اس مہلک وبا کے خاتمہ کے لیے ٹی وی پر رو رو کر اجتماعی دعا کروائی تھی، اب اس دعا کا نتیجہ کتنے فیصد ہمارے حصے میں آیا تھا اسے ماپنے کا فی الحال تو کوئی پیمانہ معرض وجود میں نہیں آیا اس لئے وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ کفار کی ویکسین کے نتیجے میں جو کروڑوں زندگیاں محفوظ ہوئی ہیں اسے ہر طرح سے عملی طور پر پرکھا جا سکتا ہے اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔

اب موجودہ پس منظر میں کفار کے ڈالر کو پر لگ چکے ہیں اور ہمارا روپیہ دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے۔ ہر حربہ آزمانے کے باوجود بھی ڈالر کی اڑان کو روکا نہیں جا سکا تو کیوں نہ ماہر مناجات مولانا طارق جمیل کی خدمات حاصل کر لی جائیں اور ان سے دعا کر والی جائے ہو سکتا ہے ان کی دعاؤں کے صدقے قدرت ہم پر مہربان ہو جائے۔ موجودہ وزیراعظم سے التماس ہے کہ قومی ٹی وی پر اجتماعی دعا کروانے کا بندوبست کیا جائے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے یا سوائے شاعرانہ رنگ بازیوں کے جو ہمیں اس وہم میں مبتلا کیے رکھتے ہیں کہ ”کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد“ ترجیحات کا فرق ہوتا ہے ہمارے جو اہل نظر ہیں ان کی دوڑ صرف عاشقانہ آوارگی تک ہے جبکہ یونیورسل اہل نظر جیمز ویب سپیس ٹیلیسکوپ کے ذریعے سے نئے جہان دریافت کرنے میں مصروف ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments