آخر چوہدری شجاعت کیا کرتے؟


حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی ارکان کی اکثریت کے فیصلہ کے باوجود وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے: بہت غلط ہؤا۔

چوہدری پرویز الہیٰ اسمبلی ارکان کی اکثریت کا ووٹ لے کر بھی ناکام رہے: ناقابل فہم و افسوسناک۔

لیکن اس سے بھی بڑی پریشانی یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان سنگین معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے، روپے کی شرح تیزی سے گررہی ہے، اسٹاک مارکیٹ کریش ہورہی ہے، تاجر ملک میں سیاسی استحکام کی دہائی دے رہے ہیں لیکن پوری قوم کو سیاست کے ڈگڈگی تماشہ کے پیچھے لگایا گیا ہے۔

ایسے میں سوال صرف اتنا ہے کہ ملک کو معاشی تباہی کی طرف دھکیلنے کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا؟

شاید اس سوال کا جواب دینا بھی بہت مشکل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ پاکستان میں صورت حال کا تجزیہ کرنے کے لئے صرف یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ آپ سیاسی دائرے میں کہاں کھڑے ہیں۔ اگر آپ عمران خان کے ماننے والے ہیں تو آپ کو ماضی قریب میں کی جانے والے کسی فیصلہ پر کوئی تردد نہیں ہوگا بلکہ یہ دکھائی دے گا کہ امریکہ جیسی سپر پاور نے ایک عوام دوست وزیر اعظم کے خلاف سازش تیار کی اور اسے ملک کے لالچی سیاست دانوں کے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ملک پر ایک ’امپورٹڈ‘ حکومت مسلط کردی۔ سازش کے اس معجون میں کچھ ایسی تاثیر بھی تھی کہ جن اداروں پر امر باالمعروف پر عمل کرتے ہوئے حق کا ساتھ دینے کی ذمہ دار عائد تھی، انہوں نے ’غیر جانبدار‘ یا نیوٹرل رہنے کا اعلان کر کے اس سازش کو ناکام بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اب تن تنہا عمران خان امریکی سازش، نیوٹرل فوج اور بدعنوان سیاست دانوں کے جم غفیر سے ٹکرایا ہؤا ہے۔ بس اس کا ساتھ دیا جائے۔

لیکن اگر آپ سیاسی دائرے میں عمران مخالف حصے میں موجود ہیں تو آپ کو یقین ہوگا کہ عمران خان کے زیر نگرانی حکومت نے تمام اداروں کی مکمل اعانت اور بھرپور حمایت کے باوجود ملکی معیشت کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا تھا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے کے بعد اسے توڑ دیا اور سیاسی فائدے کے لئے ایک ایسے وقت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو منجمد کردیا جب عالمی منڈیوں میں روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بدانتظامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت گیس خریدنے کے معاہدے نہیں کئے جب قیمت کم تھی اور گیس مارکیٹ میں دستیاب تھی۔ لیکن عدم اعتماد کے بعد اقتدار سنبھالنے والی حکومت گیس خریدنے کے لئے ٹینڈر جاری کرتی ہے تو کوئی اس کا جواب تک نہیں دیتا۔ اس کے باوجود ان حالات میں اقتدار سنبھال کر روایتی طور سے ایک دوسرے کی دشمنی پر آمادہ سیاسی پارٹیوں نے محض وسیع تر قومی مفاد میں اتحاد کیا اور ایسے مشکل فیصلے کئے جن سے پاکستان کو مکمل معاشی تباہی سے بچایا جاسکے۔ اس کی قیمت پنجاب کے ضمنی انتخاب میں ادا بھی کرنا پڑی۔ اس لئے جو بھی، جیسے بھی ہؤا، درست ہؤا۔ ملک میں استحکام کے لئے پنجاب میں مرکز مخالف حکومت قائم ہونے سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوتا اور معیشت کو سنبھلانا مشکل ہوجاتا۔ ملک کو امداد دینے والے عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان میں کسی مستحکم حکومت کے بغیر امداد فراہم کرنے اور اس مشکل سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس لئے پنجاب اسمبلی میں ہونے والے فیصلہ کے ’اخلاقی‘ پہلوؤں کو کریدنے کی بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس طرح ملک و قوم کا بھلا ہوگا۔

سیاسی وابستگی میں یہ آسانی تو ہوتی ہے کہ اس میں کوئی رائے قائم کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ جو بیان لیڈر نے جاری کردیا بس اسے طوطے کی طرح دہرانا پڑتا ہے۔ لیکن اگر کسی ملک میں جمہوریت کی بات کی جارہی ہو، اگر قانون و آئین پر عمل کرنا مقصود ہو اور ایک ایسا نظام درکار ہو جس میں اصولوں اور اعلیٰ روایات کے مطابق فیصلے ہوتے ہوں تو لحظہ بھر کو سیاسی وابستگی کے دائرے سے باہر نکل کر غور کرنا پڑے گا کہ یہ مقصد کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو واضح کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کامیابی کے بعد اصولی طور سے حمزہ شہباز کو استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کو دعوت دینی چاہئے تھی کہ وہ جسے چاہے وزیر اعلیٰ منتخب کروالے۔ یوں چوہدری پرویز الہیٰ آسانی سے اکثریت کی بنیاد پر صوبے کے لیڈر بن جاتے اور راوی چین ہی چین لکھتا۔ البتہ لمحہ بھر کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا تحریک انصاف جو قومی اسمبلی سے اس لئے استعفے دے چکی ہے کیوں کہ وہ موجودہ سیاسی انتظام کو عوامی خواہشات کے برعکس سمجھتی ہے، پنجاب میں اقتدار سنبھال کر کون سا سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتی تھی؟

کیا تحریک انصاف پنجاب میں اقتدار پانے کے بعد مرکز میں اقتدار پر قابض اتحادی جماعتوں کو بات چیت کی دعوت دیتی اور یہ پیش کش کرتی کہ آئیے مل کر قوم و ملک کو بحران سے نکالنے کا کام پہلے کرلیں، اس کے بعد یہ لڑائی لڑتے رہیں گے کہ کون بڑا چور ہے اور کون کس کا ایجنٹ ہے۔ لیکن اگر اس جیت کا مقصد مزید انتشار پیدا کرنا اور ملک کو بدستور بے یقینی کا شکار بنانا تھا تو اسے کس بنیاد پر عوامی حاکمیت یا قومی مفاد کی سیاست کہا جاسکتا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف پنجاب اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اور حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں صوبے کے عوام نے عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ جس پارٹی کے اسمبلی میں 176 ارکان ہیں، وہ ایک ایسی پارٹی کے رکن کو وزارت اعلیٰ منتخب کروانے کے لئے زور لگا رہی تھی جس کے صرف 10 ارکان ہیں اور چوہدری برادران میں اختلاف پیدا ہونے کے بعد ان ارکان کی وفاداریوں کے بارے میں بھی یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ عمران خان جو ملک کے ہر ادارے اور ہر طاقت ور کو للکار کر عوامی غضب کی دہائی دے رہے ہیں، کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اتنی بڑی سیاسی قوت ہونے کے باوجود تحریک انصاف کا کوئی امیدوار کیوں میدان میں نہیں لاسکے ؟ کیا وجہ ہے کہ ایک اقلیتی پارٹی کے نمائیندے کو یہ عہدہ دینے کے لئے زور لگایا جارہا تھا۔ اس طریقہ سے کم از کم یہ تو اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ پارٹی مفاد کی سیاست تو ہوسکتی ہے، عوامی خواہش یا قومی مفاد کا ان فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حمزہ شہباز اور ان کے سرپرستوں کو معلوم تھا کہ ضمنی انتخاب کے بعد انہیں اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں رہی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنوانے کی تگ و دو بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی۔ ان فیصلوں کا ملکی معیشت یا قومی ہمدردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عمران خان کے اقتدار سے یہ اندیشہ محسوس کیا جارہا تھا کہ وہ اداروں میں تقرریوں کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط کرلے گا اور مخالف سیاسی قوتوں کو پنپنے کا موقع نہیں دے گا۔ اسی خوف نے ایک برے وقت میں تحریک عدم اعتماد جیسے فیصلے پر مختلف الرائے لیڈروں کو اکٹھا کردیا تاکہ وہ اپنی سیاست یعنی اپنے ذاتی اقتدار کے لئے راہ ہموار کرسکیں۔ اگر سفارتی مراسلہ کو جھوٹ اور امریکی سازش کو ہتھکنڈا بھی مان لیا جائے تو بھی یہ سچائی تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آصف زرداری اور شہباز شریف نے انہی ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر عدم اعتماد نامی منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا جن کی حمایت کی وجہ سے یہی لیڈر ساڑھے تین سال تک عمران خان کو ’نامزد وزیر اعظم‘ پکارتے رہے تھے۔

سیاسی تقسیم کے ان دو دائروں میں کسی بھی حوالے سے دیکھیں تو قومی مقصد ثانوی دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان ملک میں بحران جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں۔ اتحادی جماعتیں کسی بھی قیمت پر عمران خان کا راستہ روکنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ انہی طاقت ور حلقوں کی امداد لینے پر مجبور ہیں جنہیں سیاست سے علیحدہ کرکے خالص جمہوری روایت قائم کرنے کے نعرے لگائے جاتے تھے۔ ایسے میں چوہدری شجاعت کو جو بھی الزام دیا جائے لیکن انہوں نے وہی کیا جو ان کی سیاست کی بنیاد ہے۔ انہوں نے ساری زندگی اسٹبلشمنٹ کی سیاست کی ہے۔ اب بھی اس کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔ سیاسی جوش و خروش میں خواہ کسی کو کسی پر بھاری قرار دیا جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک میں ایک ہی سیاسی قوت ہے جو اپنے فیصلے نافذ کرنے کے لئے مہرے تبدیل کرتی رہتی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں نام نہاد وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کے نام پر جو افسوسناک وقوعہ آج ہؤا ہے وہ آئین کی شق 63 اے کے بارے میں تحریک انصاف کے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہؤا ہے۔ جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اپنی صوابدید سے آئین کی تشریح کے نام پر اپنی مرضی مسلط کرے گی اور ایک خاص سیاسی ماحول میں اسے مفید سمجھتے ہوئے، اس کا خیر مقدم کیا جائے گا تو پھر ارکان کی عقل، پسند یا رائے کی اہمیت باقی نہیں رہے گی بلکہ گھر کی دیواروں میں محصور کسی لیڈر کی مرضی و منشا ہی حاوی ہوگی۔ اگر عمران خان کی مرضی کے خلاف حمزہ شہباز کی حمایت کرنے والے منحرف ارکان کا طرز عمل آئین کے خلاف تھا تو آج مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی کے ووٹ مسترد کرنے کا فیصلہ بھی درست تھا۔ اگر قاسم سوری آئین کی روح کے برعکس عمران خان کو بچانے کے لئے رولنگ دے سکتے تھے تو دوست محمد مزاری بھی پرویز الہیٰ کو خود اپنے آپ کو دیے گئے ووٹ کو مسترد کرنے میں حق بجانب ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو تو صرف یہ سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اب بھی عدالتوں اور اداروں سے ہی ان فیصلوں کی بھیک مانگتی رہیں گی جو عوام کے منتخب نمائیندے ہونے کی حیثیت میں انہیں اسمبلیوں میں بیٹھ کر خود کرنے چاہئیں؟

عمران خان نے احتجاج کی اپیل کی ہے اور حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے لیکن عوامی قبولیت کے زعم میں وہ ابھی تک یہ جان نہیں پا رہے ہیں کہ جن عوامل کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم ہاؤس سے نکل کر احتجاجی جلسوں میں آنا پڑا ہے، ان سے نمٹنے کے لئے للکارنا کافی نہیں ہوگا، مثبت سیاسی حکمت عملی بھی ضروری ہوگی۔ سیاست میں بات چیت کے دروازے بند کر کے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے سے انکار کا وہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام فیصلے عوام کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں اور جمہوریت کے دعویدار لیڈر آلہ کار بننے کو اپنی کامیابی سمجھنے لگتے ہیں۔ کل تک یہ کامیابی عمران خان کے حصے میں تھی، اب یہ فائدہ آصف زرداری اور شہباز شریف سمیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ اداروں کو حقیقی معنوں میں غیر جانبدار رکھنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر تمام سیاسی عناصر ایک پیج پر جمع ہوں۔ ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لئے وسیع تر سیاسی مفاہمت کا ڈول ڈالا جائے۔ آئین کی تشریح اور قانون سازی کا حق پارلیمنٹ تک محدود کیا جائے ۔ فوج ہو یا سپریم کورٹ انہیں اپنی آئینی حدود میں کام کرنے پر مجبور کیا جائے۔ سیاست دان اگر اب بھی اس ایک اصول پر متفق نہ ہوسکے تو سیاسی تخریب کے نئے دور میں سیاسی پارٹیوں میں فارورڈ بلاک بننے شروع ہوں گے۔ پھر کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوگا کہ کس پارٹی کا کون سا لیڈر کس کا ایجنٹ ہے اور کس مقصد سے سرگرم عمل ہے۔

اس ہنگامے میں البتہ پاکستان کے سب سیاست دانوں کو یہ نوشتہ دیوار بھی پڑھ لینا چاہئے: ملکی معاشی، سفارتی اور سماجی حالات خرابی کی اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ انہیں درست کرنے کے امکان محدود ہو رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments