ووٹ کا فیصلہ ’پارلیمانی پارٹی‘ کا استحقاق ہے یا ’پارٹی سربراہ‘ کا: قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟


ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط اور سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کی جماعت کے تمام اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کو مسترد قرار دیا ہے اور رولنگ دی ہے کہ پارٹی سربراہ کی منشا کے خلاف ووٹ نہیں دیا جا سکتا۔

ڈپٹی سپیکر کو لکھے گئے اپنے خط میں چوہدری شجاعت نے اپنی جماعت کے اراکین کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔

ڈپٹی سپیکر نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا تذکرہ کیا ہے جو آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا اور جس میں قرار دیا گیا تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی اسی فیصلے کی بنیاد پر تحریک انصاف کے 25 اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے اور خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کامیاب جماعت بن پر اُبھری تھی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی اس رولنگ کے بعد یہ بحث دوبارہ زور پکڑ چکی ہے کہ کیا کسی پارٹی کا سربراہ اس نوعیت کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے یا یہ اختیار پارلیمانی پارٹی کو حاصل ہے۔

ہم نے اس معاملے پر چند قانونی اور پارلیمانی امور کے ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے کیا کہتا ہے۔

اسمبلی

آئین کا آرٹیکل 63 اے کیا ہے؟

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمان کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

وہ اس صورت میں کہ اگر رکن پارلیمان وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

آئین کے اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہو گا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے تاہم ریفرنس دائر کرنے سے پہلے پارٹی سربراہ منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے

چوہدری شجاعت کے خط کے بعد پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنتے بنتے کیسے رہ گئے؟

زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی ضروری ہے!

حمزہ شہباز: سیاست میں تایا کا شاگرد جو سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ماہر ہے

اگر پارٹی کا سربراہ وضاحت سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر پارٹی سربراہ اعلامیہ سپیکر کو بھیجے گا اور سپیکر وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

ریفرنس موصول ہونے کے 30 دن میں الیکشن کمیشن کو اس ریفرنس پر فیصلہ دینا ہو گا۔

آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ریفرنس کے حق میں فیصلہ آ جاتا ہے تو مذکورہ رکن ‘ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔’

63 اے کی تشریح پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا کہتا ہے؟

سپریم کورٹ

رواں برس مئی کے مہینے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے تین دو کے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا اور پارلیمان ان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے منحرف اراکین سے متعلق اس ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی تھی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔

بینچ کے ارکان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے بنچ کے تین ارکان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اپنے آپ میں ایک مکمل کوڈ ہے جو پارلیمان کے کسی رکن کی ‘ڈیفیکشن’ یعنی انحراف اور اس کے بعد کے اقدام کے بارے میں جامع طریقہ کار بیان کرتا ہے۔

بینچ کے ان ارکان نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان کی رائے میں ’آئین کی شق 63 اے کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سے لکھنے یا اس میں وہ کچھ پڑھنے کی کوشش ہو گی اور اس سے آئین کی دیگر شقیں بھی متاثر ہوں گی، جو صدر نے اس ریفرنس کے ذریعے پوچھا تک نہیں ہے۔ اس لیے ایسا کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں۔‘

اس اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کا بنیادی حصہ ہیں اور ان میں عدم استحکام سے جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ کہ انحراف کسی سیاسی جماعت کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے اس لیے یہ کینسر کی طرح ہے اور اس کی مذمت ہونی چاہیے۔

ارکان پنجاب اسمبلی

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ماہرین کی رائے

سابق اٹارنی جنرل اور ماہر قانون عرفان قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر پارٹی ہیڈ کی ہدایت کے برعکس کوئی ووٹ دے گا تو وہ ممبر ناصرف ڈی سیٹ ہو گا بلکہ اس کا ووٹ بھی گنتی میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

’اگرچہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ایسے ممبر کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی ملک کا سپریم کورٹ ایسی کوئی شق آئین میں نہیں ڈال سکتا جو آئین میں نہیں لکھی ہوئی۔ اگر عدالت کی طرف سے ایسی کوئی شرط یا شق ڈالی جاتی ہے تو وہ قانون سازی کے مترادف ہو گا جس کا اختیار صرف پارلیمان کو ہے۔ لہذا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جس کی بنیاد پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب کا فیصلہ ہوا ہے وہ ہی بالکل غلط ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘اگر یہ مان لیا جائے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا تو پھر اس کی روشنی میں اگر پارٹی کے سربراہ نے کہہ دیا ہے کہ اس کی پارٹی کے ممبران کسی مخصوص فرد کو ووٹ دیں یا ووٹ دینے سے اجتناب کریں مگر پارٹی ممبران اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں تو اس صورت میں ڈپٹی سپیکر کا یہ کہنا کہ ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے، شاید درست ہو۔’

مزید پڑھیے

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنی کامیابی کیسے ممکن بنائی؟

پنجاب کے ضمنی انتخابات مستقبل کی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوں گے؟

انھوں نے کہا کہ دونوں صورتوں میں اس معاملے کو سپریم کورٹ ہی میں جانا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت یہ چاہتی ہے کہ حمزہ شہباز کو ہٹایا جائے تو اس کا درست طریقہ بار بار ووٹنگ کے بجائے تحریک عدم اعتماد ہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ اور پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ’پارلیمانی پارٹی‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں نا کہ ’پارلیمانی پارٹی کا سربراہ‘ یا ’پارٹی ہیڈ‘ کے۔

’ممبران نے کس کو ووٹ دینا ہے کس کو نہیں دینا، آئین میں لکھے گئے الفاظ کے مطابق اس کا فیصلہ ’پارلیمانی پارٹی‘ کرے گی۔ اس کی وضاحت نہیں ہے کہ پارلیمانی پارٹی سے مراد پارٹی ہیڈ ہے یا پارٹی سربراہ یا کچھ اور۔‘

’اس سے جو مطلب میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی سے جمہوری انداز میں اکثریتی فیصلہ حاصل کیا جائے اور وہی حتمی فیصلہ ہو گا۔ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ بذات خود اکیلے یہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانون اور آئین میں تو یہی لکھا ہے مگر جب تحریک انصاف کے صوبائی ممبران اسمبلی کا کیس الیکشن کمیشن کے سامنے زیر سماعت تھا اور اس پر بحث ہو رہی تھی تو اس وقت مسلم لیگ نواز نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ جن لوگوں (تحریک انصاف کے منحرف اراکین) کا کیس ڈسکس ہو رہا ہے ان کے مطابق تو پارلیمانی پارٹی میں ان سے رائے ہی نہیں لی گئی اور نہ ہی اس معاملے پر پارٹی میں کوئی اتفاق ہوا۔ تو الیکشن کمیشن نے اس کو نہیں مانا اور قرار دیا کہ چونکہ پارٹی کے سربراہ اور جنرل سیکریٹری نے اس فیصلے کی بذریعہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ تشہیر کر دی تھی چنانچہ یہ فیصلہ ہو چکا۔‘

احمد بلال نے کہا کہ ’قانون میں تو ’پارلیمانی پارٹی‘ ہی لکھا ہے مگر اگر الیکشن کمیشن کا فیصلہ دیکھا جائے اور اسے بنیاد بنایا جائے تو چوہدری شجاعت کی بات کو ہی حتمی فیصلہ مانا جائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32511 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments