ملک کافور اور علا الدین خلجی


ملک کافور: تامل ناڈو کی تاریخ کا ایک انمول کردار اور سندھ تہذیب اور تامل ناڈو میں ایک گہری مماثلت
1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

تامل ناڈو کی تاریخ سے ایک ایسے کردار کا پتہ چلتا ہے جس کا نام میں نے پہلی مرتبہ سنا۔ اس کا نام ملک کافور تھا۔ اسے عزت تاج بھی کہتے تھے۔ یہ صاحب کون تھے اور انھوں نے کیا کیا کام کیے؟ میں نے جب ان سے متعلق جانا تو میں بے حد حیران ہوا۔

علا الدین خلجی نے تیرہویں صدی کے آخر میں دکن کے علاقوں پر حملے کیے۔ اس کے ایک کمانڈر نصرت خان نے ایک بہت ہی امیر آدمی کے غلام کو بہت بھاری رقم دے کر خرید لیا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں غلاموں کی خریدو فروخت کا کام ہوتا تھا۔ اس غلام کا نام ملک کافور تھا۔ ملک کا نام شاید ملکیت کی وجہ سے ہو کیونکہ غلام کسی شخص کی ملکیت ہوتا تھا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے، ممکن ہے کہ درست نہ ہو۔ یہ غلام ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ نصرت خان، ملک کافور سے بہت متاثر ہوا اور اسے تحفہ کے طور پر علا الدین خلجی کو پیش کیا۔ اس کی شکل و صورت، جسمانی ساخت اور ذہانت سے علا الدین خلجی بے حد متاثر ہوا اور اسے اپنے دربار میں ایک اہم جگہ دی۔ اس دوران اس نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا نام تاج الدین رکھا گیا۔

ایک وقت آیا کہ یہ علا الدین خلجی کا نائب بن گیا۔ اس نے اپنے دور میں منگولوں کا مقابلہ بھی کیا، امروہہ کی لڑائی میں بھی بہادری کے جوہر دکھائے۔ اس کا تعلق جنوبی ہندوستان سے تھا اس نے علا الدین خلجی کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اسے جنوبی ہندوستان فتح کرنے کی اجازت دے۔ وہ جانتا تھا کہ جنوبی ہندوستان ایک امیر ترین علاقہ ہے اور وہاں سے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ملک کافور نے جنوبی ہندوستان پر چڑھائی کی اور یہاں پر موجود بے شمار مقامی ریاستوں کو فتح کیا۔ ملک کافور نے یہاں سے بہت سا مال غنیمت کا اکٹھا کیا اور اسے علا الدین خلجی کی خدمت میں پیش کیا۔ علا الدین خلجی کی وفات کے بعد اس نے امور سلطنت میں دخل اندازی کی کوشش کی جو خلجی کے خاندان کو بہت ناگوار گزری اور انھوں نے اسے قتل کر دیا۔

کہا جاتا ہے کہ وہ علا الدین خلجی کے انتہائی وفادار ساتھیوں میں شامل تھا۔ اس نے علا الدین خلجی کے کہنے پر اپنا مذہب تبدیل کیا اور اس کی سلطنت کی حفاظت کرتے ہوئے بے شمار لڑائیاں لڑیں۔ اس نے جنوبی ہندوستان کو فتح کیا اور بیش بہا مال و دولت لا کر علا الدین خلجی کے حوالے کیا۔ اور آج اس کی قبر کا کوئی نشان بھی نہیں ہے۔

جب بادشاہ چلا گیا تو اس کے وفاداروں کو بھی اسی کے پاس بھیج دیا گیا۔
ایسا تو ہوتا ہے۔ اور آج تک ہوتا چلا آ رہا ہے۔

یہ تامل ناڈو کی تاریخ میں بہت تفصیل سے لکھا جانے والا ایک واقعہ ہے۔ جب ملک کافور دلی واپس چلا گیا تو مقامی راجہ نے دوبارہ سے اپنی ریاست قائم کرلی۔ ملک کافور اس علاقے پر بہت تھوڑی دیر کے لیے قابض رہا اور دہلی دور ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک قبضہ برقرار نہ رہا۔

اب تک جو میں نے پڑھا اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دلی کے حکمرانوں خاص طور پر سلاطین دلی نے سب سے پہلے ان علاقوں پر چڑھائی کی جس کی وجہ ان علاقوں کی دولت تھی لیکن وہ ان علاقوں پر تا دیر حکومت قائم نہ رکھ سکے۔ انھوں نے جسے بھی یہاں اپنا جرنیل بنا کر بھیجا، جیسے ہی اسے معلوم ہوتا کہ بادشاہ تبدیل ہو گیا ہے تووہ بھی آزادی کا اعلان کر دیتا۔ بارہا ایسا ہونے سے ان علاقوں میں کئی مسلمان ریاستیں قائم ہو گئیں۔

جب اورنگزیب نے دکن فتح کیا تو اس نے ان تمام ریاستوں کو ختم کر کے ایک ریاست حیدر آباد کی بنیاد رکھی۔ پھر جوں ہی اورنگزیب کی وفات ہوئی ریاست حیدرآباد نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا۔ تیرہویں صدی کے آغاز سے تقسیم ہند تک کئی مسلمان اور مقامی لوگوں کی ریاستیں برقرار رہیں۔ کچھ ریاستوں پر انگریزوں نے لڑ کر قبضہ کر لیا اور وہ برٹش انڈیا کا حصہ بن گئیں اور جن ریاستوں نے اتحادی بننے کو ترجیح دی انھیں انگریزوں نے رہنے دیا لیکن وہ بھی تقسیم ہند کے بعد بھارت کا حصہ بن گئیں۔ اب ایسی کوئی ریاست تو موجود نہیں البتہ ریاست کا خاندان آپ کو جگہ جگہ مل سکتا ہے۔

ملک کافور کا ذکر ہمیں بہت کم پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جیسے اس کا غلام ہونا، دوسرا اس کا پیدائشی ہندو ہونا اور تیسرا ایک دور دراز علاقے سے تعلق ہونا۔ میں نے ملک کافور کے بارے جو کچھ پڑھا ہے اور ہاتھ سے بنائی گئی اس کی کچھ تصاویر دیکھی ہیں، ان سب کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے نزدیک ملک کافور کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی قابلیت محنت و دیانت اور وفاداری نے مجھے متاثر کیا ہے۔

ملک کافور کی داستان ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ میرے خیال میں ایسی داستان کم ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔ بھارت میں اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بنی ہیں۔ جن میں کچھ ایسا مواد پیش کیا گیا ہے جس پر بے شمار لوگوں کا اعتراض بھی ہے۔ میں ان اختلافی مسائل پر بات چیت کرنے سے پرہیز کرنے کو بہتر سمجھتا ہوں۔ اس لیے ایسے معاملات پر گفتگو نہیں کرتا۔ میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔ اسے آپ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔

تامل ناڈو اور وادی سندھ : ایک ہی تہذیب کے دو نام

حال ہی میں ہندوستان ٹائم اخبار نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق جدید ترین تحقیق سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ تامل ناڈو اور وادی سندھ کی تہذیبوں میں بے حد مماثلت پائی جا رہی ہے۔ اب اس پر عالمی سطح پر بھی تحقیق شروع ہو چکی ہے۔ تامل ناڈو میں حالیہ کھدائی کے دوران ایک گاؤں سے ملنے والی آرٹ کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کھدائی کے دوران وادی سندھ کے بھی مختلف مقامات سے ملی ہیں۔ ان کی تعداد پندرہ ہزار سے بھی زائد ہے۔ اس بنیاد پر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہ لوگ وادی سندھ سے جنوبی ہندوستان آئے تھے بنیادی طور پر یہ لوگ دراوڑ نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

تحقیق سے ایک اور بات یہ ثابت ہوئی کہ ان لوگوں کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں تھا۔ تامل ناڈو میں کھدائی کے دوران کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے یہ کہا جا سکے کہ وہ لوگ مذہبی طور پر ہندو مت کے ماننے والے تھے۔

میں نے جب اسے مزید جاننا چاہا تو مجھے پتہ چلا کہ چھٹی صدی قبل مسیح سے پہلی صدی قبل مسیح یعنی اڑھائی ہزار سال پہلے تک تامل ناڈو کے لوگوں کا وادی سندھ میں آنا جانا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ وادی سندھ میں پیدا ہونے والی کپاس سے جو کپڑا بنایا جاتا تھا وہ فراعین مصر مردوں کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس طرح تامل، وادی سندھ اور مصری تہذیب کے آپسی تعلق کی نشاندہی ہوتی ہے۔

بھارت میں شائع ہونے والے ایک اخبار دی ہندو نے ستمبر 2019 ء میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ وادی سندھ اور تامل ناڈو کی تہذیب کے درمیان بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دونوں تہذیبیں آپس میں بہت ملتی جلتی تھی۔ میں نے تامل کے علاقے میں پائے جانے والے آثار قدیمہ اور موہن جو داڑو اور ہڑپہ کی تصاویر کا موازنہ کیا، مجھے ان میں بہت زیادہ مماثلت نظر آئی لیکن جب تک اس کا کوئی سائنسی ثبوت سامنے نہیں آتا تب تک کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔

میں نے بھی مشاہدہ کیا کہ وادی سندھ کے رہنے والے لوگ جس طرح کے بیل پالتے ہیں وہ تامل ناڈو کے بیلوں سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ اگر میں کپڑوں کے حوالے سے بات کروں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے مدراسی پرنٹ بہت مشہور تھے بالکل اسی طرح وادی سندھ میں اجرک کا پرنٹ بھی بے حد مشہور ہے۔ اس طرح کی کئی چیزیں ماہرین کے نظریے کو ماننے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔

آپ یہ نہ سمجھیے کہ میں زبردستی تامل ناڈو اور وادی سندھ کو آپس میں رشتہ دار ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جہاں سائنس دانوں نے اپنے خیالات ظاہر کیے وہاں مجھے بھی تو اپنا خیال ظاہر کرنے کا اختیار ہے۔ اس وقت تک یہ سب مفروضہ ہے جب تک کوئی سائنسی ثبوت سامنے نہیں آ جاتا۔

کئی تاریخ دانوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونوں علاقے زمانہ قدیم سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جب کسی وجہ سے سندھ میں بسنے والے لوگ مشکل میں تھے تو انھوں نے تامل ناڈو کی طرف نقل مکانی کی اور اسی طرح کا رہن سہن یہاں شروع کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments